اگر آپ نے اس ڈرامے کی پہلی قسط نہیں پڑھی تو کوئی بات نہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد اکثر اپنی بیویوں سے نالاں رہتے ہیں اور ان میں طرح طرح کی خامیاں ڈھونڈتے ہیں۔ حتٰی کہ کچھ مرد ایک دن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دوسری شادی کر بیٹھتے ہیں۔ نئی نویلی دلہن کے ساتھ چند دن خوش گپیوں میں گزارنے کے بعد ان کو احساس ہونے لگتا ہے کہ ان کے نئے ہمسفر میں بہت سی ایسی خوبیاں نہیں ہیں جو ان کی سابقہ اہلیہ میں تھیں۔ ایک دن ان کو اپنی سابقہ اہلیہ یاد آنے لگتی ہے۔ مزید یہ کہ کچھ ایسی ہی صورتحال سے ہماری عوام گزر رہی ہے کہ جس کو اب نئے حکمرانوں کا اصل چہرہ دیکھنے کے بعد پرانے حکمران یعنی سابقہ اہلیہ یاد آنے لگی ہے۔
سابقہ اہلیہ اور حکومتِ وقت (پہلی قسط)
اہلیہ نے آ کر وہ سب بھی چھین لیا جس کے کبھی مزے لئے جاتے تھے۔ پہلے تو خاوند اپنی من مانی سے سب کچھ کرنے کا عادی تھا اور اب یہ وقت آ گیا ہے کہ مہینے کی پہلی پر ساری کی ساری تنخواہ بیگم کے ہاتھ میں دینی پڑتی ہے۔ اوپر سے پھر بھی طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ خاوند گھر میں خرچہ نہیں دیتا۔ حالانکہ اس تنخواہ سے نئی بیگم اپنے سارے اللے تللے پورے کر رہی ہے لیکن اس کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اب حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ خاوند صاحب کو اپنی ساری ضرورت کی اشیا بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ کچھ بھی باقی نا رہے۔
اس میں نئی اہلیہ کی سہیلی کا بھی خوب ہاتھ ہے جس کے مشوروں سے تھوڑا تھوڑا کر کے خاوند سے سب کچھ ہتھیایا جا رہا ہے۔ اس سہیلی کو پیار سے بیگم آئی-ایم-ایف کہتے ہیں۔
پہلی قسط میں بات صرف کڑھنے تک محدود تھی۔ اب ہم اُس مرحلے میں آ چکے جس میں خاوند اپنی دوسری بیوی کے سامنے دبے لہجے میں اس خصلت کا اظہار کرتا ہے جس سے وہ گزر رہا ہوتا ہے۔ بیگم بھی گاہے بگاہے خاوند کو یہ تنبیہ کرتی ہے کہ وہ اس کی پہلی بیگم نہیں جو آسانی سے دب جاتی تھی۔
اب وہ مرحلہ آ چکا ہے جس میں خاوند اپنے دوست رشتہ داروں سے اپنی تکلیف کا کھل کے اعتراف کرتا ہے۔ وہ اپنے چاہنے والوں کے سامنے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ان سے اپنی پہلی بیگم کو سمجھنے میں غلطی ہو گئی اور ان سے دوسری شادی کا فیصلہ جلدبازی یا عقل و فہم کی کمی کی وجہ سے ہو گیا۔ اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
اسی بدنصیب خاوند کی مانند عوام نے دبے لہجے میں حکومت سے گلے شکوے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس کا اظہار مختلف سطح پر ہو رہا ہے۔ مولانا کا دھرنا، تاجروں کی ہڑتال، قبائلی علاقوں کے مکینوں کی آزردگی، خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں کی ہڑتال، 29 نومبر کو ہونے والا طلبہ یکجہتی مارچ، ہر میدان گرم ہے۔ اُس خاوند کی مانند اب عوام تنگ آ چکی ہے جو اپنی نئی اہلیہ سے وابستہ توقعات پوری نہ ہونے پر اپنے اوپر برہم ہے۔
فیض نے کہا کہ بول! لب آزاد ہیں تیرے۔ لیکن ہم نے کہا کہ ہمیں نہیں بولنا۔ بلکہ جو بولتے ہم ان کو بھی جھٹک دیتے۔ ان پہ طرح طرح کے الزام لگاتے جو دھوتے دھوتے لوگوں کے بال سفید ہو گئے۔ بولنے والوں پہ غدّاری کے فتوے لگائے جانے لگے۔ آج کے دور میں جب بولنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اب چونکہ ممکن نہیں رہا کہ اتنے زیادہ لوگوں پہ غداری یا بِکے جانے کا الزام لگایا جائے، اس لئے مارکیٹ میں ایک نئی شے چھوڑی گئی ہے جس کو پراکسی وار Proxy War کا لقب دیا گیا ہے۔ لقب اس لئے کہ اس نام کی کوئی چیز باقی دنیا میں نہیں ہے۔ یہ ہماری نمایاں ریسرچ ہے۔ یعنی وہ لوگ جو نہیں بولتے ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ جو بول رہے ہیں اصل میں ایک بیماری میں مبتلا ہیں جس کو پراکسی وار کہتے ہیں۔ ایک آدھ آدمی حیرانگی سے پوچھتا ہے کہ بظاہر تو یہ لوگ ٹھیک نظر آتے ہیں پھر آپ ان کو بیمار کیوں کہہ رہے ہیں۔ تو اس پہ دلچسپ جواب سننے کو ملتا ہے کہ یہ بیچارے خود بھی نہیں جانتے کہ یہ بیمار ہیں۔
عجب بات ہے کہ ایسے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مرض کی انتہا اس جوش و جذبے کو دیکھ کر بڑھتی نظر آ رہی ہے جس جذبے سے عروج اورنگزیب نے رام پرساد بسمل عظیم آبادی کا کہا پھر سے کہا۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اس کے باوجود کہ بارہا انتباہ کیا گیا کہ تمام دوائیں یا تمام حقیقتیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں، پھر بھی تمام احتیاط کے باوجود دوائی کی بوتل گر کر ٹوٹ گئی۔ بڑی لمبی خاموشی کے بعد سب کا بولنے کو دل کر رہا ہے۔ استاد، شاگرد، سرکاری افسر، جج، دوکاندار، طلبہ، یہاں تک کہ مدرسے کے طلبہ ہر ایک بول رہا ہے یا بولنا چاہ رہا ہے۔
اگرچہ ہمیں یہ سب اتنا سنائی نہ دے رہا ہو گا چونکہ ہمارے کانوں میں میل ڈالی گئی ہے اور آنکھوں پہ رنگین پٹی بندھی ہے۔ میڈیا چینل لاتعداد ہونے کے باوجود تعداد میں خبریں دیتے ہے۔ بیمار کو صحت مند اور صحت مند کو بیمار کر کے پیش کرتے ہیں۔
جس طرح عوام کو بیمار ہونے میں یعنی بولنے میں وقت لگا اسی طرح نئی زوجہ کے خاوند کو بھی بیمار ہونے میں وقت لگتا ہے کیونکہ اپنے کیے دھرے پہ آدمی کو اکثر دیر سے خیال آتا ہے۔
کہیں دماغ کے کونے کھدرے میں یہ خیال بھی گزرتا ہے کہ کیوں نہ پہلی بیگم سے رجوع کیا جائے، مافی مانگ لی جائے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان تھوڑی ہے۔ ایسا کرنے کے لئے پہلے دوسری بیوی کے چنگل سے آزاد ہونا لازمی ہے یا ایک راستہ یہ ہے کہ پھر کسی اور دوشیزہ کی تلاش کی جائے۔
نئی اہلیہ کچھ عجیب عجیب کاموں میں مصروف ہے کہ جیسے اس کا شادی کا مقصد ہمسفر ڈھونڈنا نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے اکیلے سفر کرنے کے لئے مواد اکٹھا کرنا ہے۔ جو کچھ خیبر پختونخوا کی اسمبلی اور حکومت کر رہی ہے، لگ ایسے ہی رہا ہے کہ ان کو باقاعدہ لایا گیا ہے کیونکہ جو کام یہ لوگ کر رہے ہیں اگر کوئی اور پارٹی کرتی تو یہاں کی عوام اس کو آڑے ہاتھوں لیتی۔ لیکن چونکہ پیچھے سے بار بار آواز آتی ہے کہ ہم ایک پیج پر ہیں تو فلحال پٹھانوں میں اندر اندر ہی غصہ ہے۔ میرا اشارہ اس آرڈینس کی طرف ہے جس کے تحت فوج جو چاہے بغیر کسی پوچھ تاچھ کے کر سکے گی اور اس قانون سازی کی طرف جس کے تحت قدرتی ذخائر میں اس شخص کا مکمل طور پر حق ختم کیا جا رہا ہے جس کی زمین سونا اُگلے۔ یہ ناصرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جس کے تحت قدرتی ذخائر کے تین حصہ دار ہوتے ہیں۔ وہ شخص جس کی زمین ہو، وہ کمپنی جو یہ سکت رکھتی ہو کہ ان ذخائر کو صحیح طریقے سے نکال سکے اور ریاست۔ خیبر پختونخواہ کی عوام بیماری کی پہلی سٹیج پر ہے۔
آپ کی بیماری کس سٹیج پر ہے؟ طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کیجیے۔