تحریک انصاف کے”نئے پاکستان“میں نوجوانوں کے لیے کیا تبدیل ہوا؟

تحریک انصاف کے”نئے پاکستان“میں نوجوانوں کے لیے کیا تبدیل ہوا؟
تحریر: ( ڈاکٹر قاسم سوڈھر) نوجوان جو ملک کی آبادی کا 64 فیصد حصہ ہیں، ان سے الیکشن سے پہلے عمران خان اور پی ٹی آئی کی طرف سے جو واعدے کیے گئے تھے، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے نظر یہ آ رہا تھا کے بس اب ملک کے نوجوانوں سے بہت جلد ہی انصاف ہونے جا رہا تھا، جس کی بدولت اب نہ تو نوجوانوں کو بہتر تعلیم کے حصول کی خاطر ملک سے باہر جانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی ان کو بیروزگاری جیسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوں کے ملک کے اندر معیاری اور یکساں تعلیم کا نفاذ ہونے کے ساتھ ساتھ نوکریوں کی بھی بارش ہونے جا رہی تھی، لیکن خان صاحب کی حکومت بننے سے لے کر آج تک ملک کے نوجوانوں کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اگر دیکھا جائے تو نوجوانوں کی اتنی بڑی آبادی پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے لیے رحمت کا باعث بن سکتی ہے اگر اسی آبادی کا ملک کی معیشت اور دوسرے معاملات چلانے کے لیے درست استعمال کیا جائے، کیوں کے پوری دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کے دنیا کے جس بھی کونے میں جتنی بھی اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان میں نوجواںوں نے ہمیشہ بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

اگرچہ سرمایہ دار دنیا میں آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب پر ہمیشہ سے تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، لیکن اس حوالے سے بھی ہمیں ایسی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں جن کے تحت کچھ ایسے ممالک جنہوں نے دنیا کی بہت بڑی آبادی ہونے کے باوجود بھی بہت ترقی کی ہے، جس کی اہم وجہ اپنے ملک کی آبادی کو درست سمت میں استعمال کرنا ہی رہا ہے۔ مثلاً اگر ہم اپنے پڑوسی ملک چین پر ہی نظر ڈالیں جو نہ صرف ہم سے بھی دو سال بعد یعنی 1949 میں آزاد ہوا، بلکے اس کی آبادی آج بھی دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے، اور مزے کی بات کے چین کے پاس پاکستان کی طرح نوجوانوں کی بڑی آبادی بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی چین نے ایک بہتر مکینزم بناتے ہوئے ترقی کی ہے۔

بقول ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کے“ایشیا کے ممالک کے مغرب سے معاشی طور پر پسماندہ ہونے کی اہم وجہ ان ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے، جو کے ملک کے لیے ہمیشہ زحمت”بنتی ہے، اس منطق کو توڑتے ہوئے چین نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ اگر اسی بڑی انسانی آبادی کو درست سمت میں استعمال کیا جائے تو وہ زحمت نہیں بلکے رحمت بھی بن سکتی ہے۔

چین کی طرح اگر ہمارے ایک اور پڑوسی ملک ہندوستان پر نظر ڈالیں تو اسی ملک جس کا 1947 سے پہلے ہم بھی حصہ تھے، اور وہ بھی دنیا کی چین کے بعد دوسری بڑی آبادی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اپنے ملک کے نوجوانوں کی قابلیت کو سامنے رکھتے ہوئے آج ہندوستان بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا سکا جمانے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ اسی طرح ہمارا ایک اور پڑوسی ملک بنگلادیش جو 1971 میں پاکستان ٹوٹنے کے بعد ایک علیحدہ ملک بنا، جس کو بھی بہتر معاشی پالیسیوں کی وجہ سے آج”ایشیا کا ٹائیگر“کہا جاتا ہے، لیکن دوسری جانب ہم ہیں جن کے حالات بہتر بننے کے بجائے اور بھی بری طرح سے بگڑتے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی معیشت بہتر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی جبکہ مہنگائی آسماں کو چھو رہی ہے، پی ٹی آئی حکومت نے جو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا، اس کے برعکس لوگوں کو ملازمت سے نکالا جا رہا ہے اور اسلام آباد اور کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بہت ساری کچی آبادیوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔

نوجوانوں کے ساتھ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی صرف پی ٹی آئی کی الیکشن مہم پائیدار انداز سے چلانے اور پی ٹی آئی کے 2014 والے دھرنے کی کامیابی کے لیے ہی نوجوانوں کو استعمال کرتے ہوئے انہیں صرف سنہری خواب ہی دکھائے گئے، جن پر عمل کرنے کا ابھی تک حکومت کوئی ارادہ رکھتے ہوئے نظر نہیں آتی۔ کیوں کے نوکریاں دینا تو دور کی بات لیکن حکومت کی طرف سے تو الٹا ہائر ایجوکیشن کمیشن کا 40 فیصد بجٹ بھی کاٹ دیا گیا ہے۔  جس کے نتیجے میں یونیورسٹیوں کو اپنے ترقیاتی کام رکوانے پڑے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے میں بھی ان کو مسائل کا سامنا ہے۔

ایسی صورتحال میں یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے بھی اپنے سر سے بوجھ اتارنے کے لیے اور مسائل سے نمٹنے کے لیے فیس میں اضافہ کر دیا ہے، اور اس حکمت عملی کا سارا بوجھ متوسط طبقے کے طلبہ و طالبات کے ہی کندھوں پر ڈالا گیا جن کے لیے اب تعلیم حاصل کرنے کے دروازے بھی بند ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اب اس صورتحال میں جب ملک میں پہلے ہی مسائل کا ڈھیر لگا ہوا ہے، تب سٹوڈنٹس بھی 29 نومبر کو پورے ملک میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے جا رہے ہیں۔ جن کے مطالبات میں سٹوڈنٹ یونین کی بحالی کے ساتھ ساتھ حکومت کی بہت ساری نوجوان دشمن پالیسیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ اسی لیے موجودہ حکومت سمیت ملک کی طاقتور قوتوں کو سمجھنا چاہیے کے نوجوانوں کے غم و غصے کو اتنا بھی غیرسنجیدہ نہ لیا جائے، کیوں وہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے جنرل ایوب خان کو بھی عہدہ چھوڑ کر اپنے گھر جانے پر مجبور کیا تھا، اسی لیے خدانخواستہ پھر یہ ہی نوجوان ایک اور“خان”کو گھر بھیجنے پر ہی نہ مجبور ہو جائیں۔

  1.  مصنف نے حال ہی میں چائنا کی شنگھائی یونیورسٹی سے پی ایڇ ڈی مکمل کی ہے اور ان کا پی ایڇ ڈی تھیسز کا موضوع سندھ اور بلوچستان کی بائیں بازو اور قومپرست تحریکیں رہی ہیں۔ اس سے قبل قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے کیے گئے ان کے ایم فل کے تھیسز کا موضوع بھی سندھ کی بائیں بازو کی تحریکوں کی تاریخ رہا ہے.)