ترقی پسند سیاسی کارکن اور مزدور کسان پارٹی سے شروع میں وابستہ چارسدہ کے 60 سالہ سیاسی کارکن نظیف لالا کو آج پھر لنڈی کوتل سے واپسی پر پشاور میں ریاست مخالف تقاریر کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اس سال ان کو 2 بار گرفتار کیا گیا، پہلی بار 3 ماہ جیل کی ہوا کھانے کے بعد دوبارہ گرفتار ہوئے مگر یہ 60 سالہ ترقی پسند سیاسی کارکن آخر ہے کون؟ اس بڑھاپے میں بھی جن کی تقاریر سے ریاست خوفزدہ ہے۔ نیا دور کے قارئین کے ساتھ ہم نظیف لالا کے ساتھ گزرے ہوئے کچھ لمحات کا ذکر کریں گے کہ آخر وہ ہے کون؟
یہ 2016 کی گرمیوں کا ایک دن تھا، میں چارسدہ میں اپنے دوستوں کے پاس گیا تو انھوں نے مجھے کہا چلو آج آپ کو کامریڈ نظیف لالا سے ملواتے ہیں۔ وہ بہت باعلم انسان ہیں۔ پیدل چلتے ہوئے ہم ایک جگہ پر پہنچے جہاں فرینچ داڑھی رکھے ایک شخصیت نظر آئی۔ جنھوں نے سفید شلوار قمیض زیب تن کر رکھا تھا اور ان کی پشتون روایتی چوپال میں کئی اور لوگ بھی موجود تھے جو ایک دوسرے کو کامریڈ مخاطب کر رہے تھے۔ اس بوڑھے شخص کا نام نظیف لالا تھا۔
نظیف لالا اپنے سیاسی سفر اور قید و بند کے قصے سنایا کرتے تھے اور ان کا تعلق شروع میں مزدور کسان پارٹی سے تھا لیکن 2013 میں انھوں نے محمود خان اچکزئی کے پارٹی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے لئے الیکشن لڑا اور ناکام ہو گئے۔ شاعری، ترقی پسندی اور موسیقی کے دلدادہ ہیں اور ان کی دو بیٹیاں یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کا خواب یہی ہے کہ ان کے بیٹیاں اچھی تعلیم حاصل کریں اور ترقی پسند معاشرے کے لئے جدوجہد کریں۔
نظیف لالا سے ہم نے پوچھا کہ الیکشن کے لئے تو کروڑوں روپے چاہیں۔ آپ کے پاس اتنا پیسا کہا سے آیا کہ آپ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جس پر نظیف لالا نے جواب دیا میرے پورے الیکشن کا خرچہ لاکھ روپے سے کم تھا کیونکہ میں نے کرائے پر ایک سوزوکی گاڑی لی، اس میں گھر سے کچھ پلاسٹک کی کرسیاں رکھیں اور سبز چائے کے کچھ تھرماس رکھے۔ ایک چھوٹے سے لاؤڈ سپیکر سے خواتین کو خطاب کرتا رہتا تھا۔ ہم نے بڑے حیرانی سے پوچھا صرف خواتین کو کیوں؟ نظیف لالا نے جواب دیا کہ دراصل میں گلی گلی جا کر خواتین کو یہ پیغام دیتا تھا کہ آپ کے مردوں نے آپ کے حقوق ضبط کئے ہیں اور آپ ان کے خلاف بغاوت کرو۔ کیونکہ، ترقی پسند معاشروں میں خواتین آزاد ہوتی ہیں اور معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔
نظیف لالا سیاست کے زرخیز زمین چارسدہ کے بارم خان ڈھیری کے رہائشی ہیں اور انہوں نے دور آمریت میں طلبہ تنظیموں اور بعد میں ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے پیش پیش رہ کر کئی بار جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ مگر سیاسی تاریخ، جغرافیہ، معیشت اور ترقی پسند سیاست پر ان کی رائے بہت باعلم ہوتی ہے۔
رات کا آخری پہر تھا اور نظیف لالا کے ضعیف بدن میں کبھی ہم نے تھکاوٹ محسوس نہیں کی اور نہ کبھی ہم ان کی گفتگو سے بور ہوئے۔ 2013 کے الیکشن کا واقع سناتے ہوئے نظیف لالا نے کہا کہ چارسدہ میں میرا مقابلہ ایک مفتی صاحب کے ساتھ تھا اور ہم کاغذات جمع کروانے کے لئے الیکشن کمیشن کے دفتر میں موجود تھے۔ الیکشن کمیشن کے ایک افسر نے مجھ سے کوئی دعا سنانے کے لئے سوال کیا تو میں نے جواب دیا (حضرت) میں مسجد کی امامت کے انٹرویو کے لئے نہیں آیا میں ایک سیاسی کارکن ہو اور الیکشن میں حصہ لے رہا ہوں، مجھے سے سیاست کے بارے میں پوچھو۔ معیشت کے بارے میں پوچھو۔ جغرافیے کے حوالے سے پوچھو۔ خارجہ پالیسی کے بارے میں پوچھو۔ میں ان کے جواب دے سکتا ہوں۔ ہاں اگر آپ کو شوق ہے یہ دعا سننے کا تو اس مفتی صاحب سے پوچھو (پاس کھڑے مفتی صاحب کی طرف اشارہ کیا) یہ ان چیزوں کے ٹھیکہ دار ہیں اور یہ بہتر بتا سکتے ہیں۔ جس پر مفتی صاحب نے ناراضگی کا اظہار کیا اور الیکشن کمیشن کے افسر نے تعجب سے مجھے دیکھتے ہوئے کاغذات جمع کر لیے۔
ایک بار ہم نظیف لالا کے ساتھ مقامی گاؤں میں گھوم رہے تھے، پاس سے گزرتی ہر خاتون ان کو سلام کرتی تھی، جس پر ہم نے نظیف لالا سے پوچھا یہ ہر خاتون آپ کو سلام کیوں کرتی ہے، جس پر انہوں نے قہقہ لگا کر جواب دیا کہ میں ہمیشہ ان کے حقوق کی بات کرتا ہو جبکہ ان کے گھر والے اور مولوی صاحبان ان کے حقوق کو صلب کرتے ہیں، اس لئے یہ لوگ میری عزت کرتے ہیں۔
ایک دفعہ وہ کابل گئے اور اس وقت کے صدر حامد کرزئی کے ساتھ کچھ تصویریں بنوائی، تو واپسی پر ریاستی اداروں نے ان کو پوچھ گچھ کے لئے بلایا۔ ہم نے لالا سے پوچھا یہ لوگ آپ کو کیوں اتنی جلدی چھوڑ دیتے ہیں۔ جس پر لالا نے دوبارہ قہقہ لگا کر جواب دیا اور کہا کہ ان کو یقین ہے کہ میرے پاس تقریروں کے علاوہ کچھ نہیں میرا بینک اکاونٹ نہیں، میرا تعلق کسی دشمن تنظیم سے نہیں اور نہ ہی میرے ساتھ عوام کی تعداد ہزاروں میں ہے اس لئے وہ مجھے سیریس نہیں لیتے۔
نظیف لالا قبائلی علاقوں سے اٹھی تحریک پشتون تحفظ مومنٹ کے صف اول کے کارکنوں میں ہیں اور اس سال دو بار ان کو گرفتار کیا گیا۔ دو دن پہلے وہ لنڈی کوتل گئے تھے اور واپسی پر ان کو ریاست مخالف تقریروں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا جبکہ اس سے پہلے بھی وہ تین ماہ قید کاٹ چکے ہیں مگر ان کا جذبہ اور حوصلہ کبھی کم نہیں ہوا اور ہمیشہ خندہ پیشانی سے نہ صرف گرفتاری دی بلکہ قید و بند کی صعوبتوں کا بھی کبھی شکوہ نہیں کیا۔ لالا کے اندر ایک ترقی پسند سیاسی روح اب تک زندہ ہے اور وہ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خٹک اور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی شاعری کے دلدادہ ہیں۔
پتہ نہیں ریاست ایک ساٹھ سالہ بزرگ سیاسی کارکن سے کیوں خوفزدہ ہے؟
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد