اللہ میاں! پلیز سب لوگوں کو سانپ بنا دیں

اللہ میاں! پلیز سب لوگوں کو سانپ بنا دیں
آپ سب لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں شاید پاگل ہو گئی ہوں۔ جو ایسی باتیں کر رہی ہوں۔ تو نہیں ! میں پاگل نہیں ہوئی ہوں یا پھر شاید تھوڑی دیر کے لیے ہو گئی تھی۔

پتہ ہے کب؟ کل جب میں نے شازیہ نامی  بچی کی لاش کو دیکھا۔ لاش نہیں تھی لاش کی تصویر تھی  اور میں اس پر ایک ٹوٹا ہوا دل بنا کر اور افسوس کر کے اپنے فون کی سکرین پر آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ شازیہ بول پڑی۔ میرا مطلب ہے کہ اس کی لاش کی تصویر۔

عجیب ہے نا! مگر ایسا ہی ہوا۔ میں تو ڈر کے فون دور پھینکنے ہی والی تھی کہ اس تصویر نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ عجیب ڈرے سے دل سے میں نے پوچھا کہ بچے کون ہو آپ؟ کیوں میرا ہاتھ پکڑا ہے؟ کیا چاہتی ہو؟ تو اس نے بڑے معصوم سے لہجے میں کہا کہ آپی میں چاہتی ہوں کہ دنیا کے سب لوگ سانپ بن جائی۔

ہیں ! میرا ڈر یہ سن کر کہیں چھپ گیا اور اس کی جگہ تجسس نے لے لی کہ یہ تصویر ہے کیا ؟ اور میرے سے کیا چاہتی ہے ؟

تو بچے آپ کیوں چاہتی ہو کہ سب لوگ سانپ بن جائیں ؟ وہ بھی اتنی شدت سے کہ اپ دوسری دنیا سے یہاں آئی ہو۔ اس تصویر سے نکل کر میرے سے باتیں کر رہی ہو ؟

تو پتہ ہے شازیہ نے مجھے کیا جواب دیا ؟ وہ بولی ! آپی میری اماں کہتی تھیں کہ سانپ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی کھا جاتا ہے۔ تو! تو پھر ؟

تو یہ کہ باجی اگر سب لوگ سانپ بن جایئں تو وہ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی کھا لیا کریں گے۔ ارے ! آپ تو خود اتنی پیاری سی بچی ہو۔ میرا مطلب ہے تھی تو پھر آپ کیوں چاہتی ہو کہ سب بچوں کو بچپن میں ہی کھا لیا جائے ؟

پتہ ہے شازیہ نے اس کا کیا جواب دیا ؟ وہ بولی ! ہاں نا آپی تبھی سب بچے مر جایئں ؟ مگر کیوں ایسے کیوں کہہ رہی ہو۔ اب مجھے غصہ آنے لگا تھا اس تصویر پر۔ اس لیے باجی کہ اس طرح مرنے میں بہت درد ہوتا ہے ؟ بہت زیادہ باجی ! اتنا کہ مجھے مرنے کے بعد بھی درد ہو رہا ہے۔

یہ تھا وہ جملہ۔ اس بچی کی لاش کا جواب جس نے مجھے پہلے گنگ اور پھر پاگل کر دیا۔ دکھ کی شدت سے۔ تکلیف کی شدت سے اور پھر اس احساس کی شدت سے کہ شازیہ کو تو اس سے بھی زیادہ تکلیف ہوئی ہو گی۔

نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے؟ یہ تھے میرے منہ سے نکلنے والے پہلے بھونڈے سے الفاظ۔ کیا کہتی تسلی، پشیمانی یا معافی کا وہ کیا جملہ ہوتا جو اس بچی کے لیے کوئی معنی رکھتا ہوتا۔

میرے پاس صرف آنسوؤں بھری خاموشی تھی۔ اس لیے بولنے کا فریضہ شازیہ نے سنبھال کیا اور کاش میں نے اسے بولنے نہ دیا ہوتا۔ کاش کبھی میں نے یہ الفاظ نہ سنے ہوتے کہ باجی ! پتہ ہے جب بہت درد کے بعد میں بیہوش ہوئی نہ تو مجھے پلاسٹک کی بوری میں بند کر دیا۔ میں تو خوش ہو گئی تھی ہماری سائنس کی ٹیچر نے بتایا تھا مجھے ایک بار کہ جب کسی بھی وجہ سے بہت درد ہو تو ہمارا دماغ خود کو سلا دیتا ہے ۔ جسے بیہوشی کہتے ہیں تاکہ کچھ دیر تک درد کا احساس دور ہو جائے۔ دماغ سو رہا ہوتا ہے تو نہ درد کا آحساس اس تک پہنچتا ہے نہ ہمیں کچھ درد ہوتا ہے۔ بے پوشی بھی تو نعمت تھی نا ۔ درد سے نجات تھی نا مگر پتہ ہے پھر کیا ہوا؟  بوری میں بند ہونے کی وجہ سے میرا سانس رکنے لگا۔ آکسیجن کی ضرورت نے سوئے  دماغ کو پھر سے جگا دیا اور پتہ ہے باجی اس بار تو سانس نہیں آ رہی تھی۔ آپ کو اندازہ نہیں ہو گا جب سانس لینے کی پوری کوشش کرو پھر بھی سانس نہ آئے تو کیا ہوتا ہے۔ آپ کو کیسے پتہ ہو سکتا ہے ؟ آپ کو کون سا کسی نے ایسے بوری میں بند کیا ہے جو آپ کو پتہ ہو کہ مرنے سے پہلے جو کچھ لمحے ہوتے ہیں۔ جب آپ پورا زور لگا رہے ہوتے ہو منہ سے پلاسٹک ہٹانے کو، سانس لینے کو تب کتنا اور کیسا درد ہوتا ہے؟

اس معصوم کو اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ پلاسٹک کا شاپر ہی سانس نہیں روکتا کچھ لفظ بھی سانس روک دیتے ہیں۔ تکلیف جسم کے کٹنے اور اس سے خون بہنے سے ہی نہیں ہوتی دل کے پھٹنے اور اس سے خون بہنے سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مجھے ہو رہی تھی اس کے کپڑوں پر لگا خون میرے جسم پر بھی لگ رہا تھا ۔

مگر کیا کرتی اپنے انسانیت پر یقین کا۔ پھر اس کو سمجھانے کی کوشش کر بیٹھی۔ یہ گمان بھی نہ تھا مجھے کہ میں سمجھ سکتی ہوں بچے آپ کے درد کو کہنے اور اس درد سے گزرنے میں جو زمیں آسمان کا فرق ہے۔ وہ فرق نہ تو مٹ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے مٹا سکتا ہے۔

میں نے تو اسے جھوٹی سی تسلی دینے کو بے معنی سی امید تھمانے کو کہہ دیا کہ بیٹا ! ہم بہت شرمندہ ہیں ہم آپ کو تو اب واپس نہیں لا سکتے مگر ہم آئندہ سب بچوں کا بہت خیال رکھیں گے ۔ ہم ایسا کرنے والوں کو بہت سخت سزا بھی دیں گے ۔ پتہ ہے ہم نے دی بھی ہے ۔ وہ عمران نام کا ایک درندہ تھا ۔ اپ کو پتہ نہیں ہے۔

پتہ ہے باجی پتہ ہے۔ وہ مجھے درمیان میں ٹوک کے بولی اور آپ لوگوں نے زینب کے مرنے کے بعد بچوں کا خیال کیوں نہیں رکھنا شروع کیا۔ میرے مرنے کا انتظار کیوں کیا ؟ سوال تھا کہ ایک زوردار طمانچہ

آپ کو پتہ ہے میں ملی ہوں زینب سے بھی ۔ وہ وہیں ہے جہاں سے میں آئی ہوں۔ اس کے جسم سے ابھی بھی خون بہتا ہے۔ اسے ابھی بھی درد ہو رہا ہے۔ اسے بھی میری طرح مرنے میں گھنٹوں لگے تھے نا ۔ اور ان گندے انکل کو صرف کچھ منٹ ۔ وہ تو اپنا مرنے کی تکلیف کب کی بھول چکے ہوں گے ۔ ہم بچے تو ابھی بھی ٹرپ رہے ہیں۔

اے خدا ! ہم سے اچھے تو وہ وحشی عرب تھے جو اپنی بچیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنا دیتے تھے۔میرے منہ سے جانے کیوں یہ جملہ نکل گیا ۔ مگر سامنے بھی موت کے بعد بھی ٹرپنے والوں کی سفیر تھی۔ باجی بچیوں کو آسان موت دے دیتے ہوں گے مگر بچے ‘ لڑکے

جی بیٹا ! میں نے درمیان میں ٹوکا۔ جی باجی مسئلہ تو سب بچوں کا ہے نا بچیوں یا بچوں کا نہیں۔ اس لیے ہم سب بچوں نے سوچا ہے کہ اللہ سے دعا کرتے ہیں یا تو سب بچے مر جائیں یا آپ سب لوگ سانپ بن کر اپنے اپنے بچے کھا لیں۔ نہ کوئی بچہ ہو گا نہ اسے اتنی تکلیف ہو گی۔ اس طرح مرنے سے۔ وہ بچی جس انتہا سے گزری تھی اب کچھ بھی سمجھنے یا سننے کو تیار نہ تھی مگر پھر بھی ایک آخری کوشش کے طور پر میں نے کچھ جملے کہنے کی کوشش کی۔ اسے سمجھانے کی بس آپ آخری غلطی ہو آئندہ نہیں ہو گا یہ۔

 مجھے تو اپنے الفاظ کے کھوکھلے پن کا احساس تھا ہی۔ اسی وقت فون کی سکرین پر ایسی ہی ایک اور لاش کی تصویر نے شازیہ سے پہلے مجھ پر جھوٹے لوگ ، جھوٹے وعدے ۔ آپ ہمیں ایسے ہی ایک کے بعد ایک مرنے دو گے ۔ چلانا شروع کر دیا۔

ادھر شاید شازیہ بھی سمجھ چکی تھی کہ میں کیا سمجھاؤں گی۔ کیا جھوٹی تسلی دوں گی۔ سو اس نے چپ کر کے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے قصور کی گلیوں میں لے گئ ۔

ایک گلی کے کونے میں ایک بچے کو کچھ اوباش گھیرے اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اس کو اسی پر بیتے ظلم کی ویڈیو دکھا کر اس کی روح کو شاپر میں بند کر رہے تھے۔ اور اس کی آنکھوں سے اس کی اپنی روح کے مرنے ہر آنسو گر رہے تھے۔

تبھی کہیں سے آواز آئی کہ کچھ نیا تو نہیں کرنے جا رہا تیرے ساتھ۔ پہلے بھی دس لوگ کر چکے ہیں یہ سب تیرے ساتھ۔ یہ ایک پندرہ سولہ سالہ بچہ تھا جسے نہ مرنے یا اپنی حفاظت نہ کر پانے کا تاوان شاید اب ساری عمر ایسے ہی چکانا تھا۔

بے اختیار دل میں لمحے بھر کو یہ بھی آ گیا اس ذلت بھری زندگی سے تو بہتر تھا یہ تبھی مر جاتا۔ پھر فوراً خود کو لعنت ملامت کی۔ جب کہ اندر دور کوئی چلا رہا تھا کہ جب ان کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ ڈھال نہیں بن سکتی تو پھر ایسی زندگی کی دعا کیوں دے رہی ہو۔ وہی سچ ہے مر گیا ہوتا یہ تو اچھا تھا۔

مجھے لگا کہ اس لمحے شاید شازیہ کو مجھ پر کچھ ترس آیا ہے۔ سو میرا ہاتھ پکڑ کر بولی کہ باجی چلیں یہاں سے مگر جو وہ جھیل چکی تھی اس کا پتھر ہونا بنتا تھا۔ اب وہ مجھے لیے لاہور کے ایک ہسپتال کی طرف رواں دواں تھی۔ راستے میں پھول بیچتی بچی کا ہاتھ مسلا جا رہا تھا تو کہیں رات کو دس بجے گرم انڈے کی آواز لگاتا بچہ زندگی کی گرمی سے کسی بھی پل محروم ہونے کو تھا۔ کہیں نو، دس سال کی بچی چالیس سال کی عورت جتنا کام کر کے بھی رہائی نہ پا سکی تھی ۔ تو کہیں سکول جاتے بچے اب کٹی پھٹی لاش کی صورت کوڑے کے ڈھیر پر سجنے کو تھے ۔ منظر تو سچ میں وہی تھا میرے وطن کی گلیوں کا کہ جنگل پناہ گاہ لگے۔ مگر یہ کافی نہ تھا اس معصوم کی درد کی شدت کو بیان کرنے کو ابھی میرے ضبط کے امتحان باقی تھے۔

کوڑے کے ڈھیروں پر اتنی لاشیں تھیں کہ ان کے صرف پاس سے گزرتے گزرتے ان سب کو ایک نظر دیکھتے ہوئے بھی ہمارے پاؤں لہولہان تھے ۔ کھیتوں میں معصوم جن کی عمر ابھی ہوا میں اچھال کر ان کو ہنسانے کی تھی درد کی شدت سے مرنے کے بعد بھی رو رہے تھے ۔ گٹروں میں میرا مستقبل ٹکرے ٹکرے ہوا تعفن کا ایک حصہ ہی تو لگ رہا تھا ۔ مگر سفر تو ابھی باقی تھا ۔ سزا تو ابھی شروع ہوئ تھی کہ ہم نے بھی تو سفاکی کی انتہا کی تھی۔ درد اتنا بڑھا تھا کہ آسمانوں سے بارش کی صورت لوٹ آیا تھا ۔

ہاں بچے ہماری گلیوں میں درندے گھوم رہے ہیں شاید ! مگر اس خود کلامی کے جواب میں اس کا کہنا صرف گلیوں میں ۔ کیا گلیوں کے درندے جب گھر جاتے ہیں تو فطرت بدل لیتے ہیں۔ نہیں باجی وہ تو درندے ہیں رہتے ہیں۔ اف خدایا ! آگہی سے بڑا کیا عذاب ہو گا۔ اخبار بھر چکے ہیں ایسی خبروں سے جب رشتے کا تقدس اندھی درندگی سے ہارا۔ ہاں سچ ہی تو کہہ رہی تھی وہ۔ کہاں محفوظ تھی وہ ۔ گھر میں ‘ گلی میں ‘ سکول میں کہیں نہیں۔نکہیں بھی نہیں

جانے کب مجھے اس سچائ کے روبرو لاتے ہوۓ وہ آہستہ آہستہ درد اور خون میں بدلتی گئ ۔ مڑ کے دیکھا تو میرے ہاتھوں پر بس وہ خون کی صورت اور آنکھوں میں آنسو بن کے موجود تھی ۔ مجھے لاہور کے ہسپتال کے ایک بستر کے سامنے کھڑا کر خود درد میں ڈھل گئی تھی۔

سامنے ایک خاتون میری طرح ہی اپنے آنسوؤں کے اندر ڈوب ڈوب کر ابھر رہی تھیں۔ ہاتھ آگے بڑھایا کہ تسلی دوں تو وہ گلے لگ کر سسک پڑیں مجھے جیسے ان سے پوچھے بنا ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ جو وہ کہنے جا رہی ہیں وہ نہ کہیں تو اچھا ہے مگر جب یوم حساب ہو تو کب کچھ ان کہا رہتا ہے۔

یہ اس چھ سال کی معصوم گڑیا کی ماں تھیں جس کے جسم پر اکیس ٹانکے اور درد کی شدت کو سہتے سہتے تکلیف سے مڑ جانے والے ہاتھ پیر بنا کہے سب کہہ رہے تھے اور اس کی ماں پر بس ایک بات جب ہوش میں آتی ہے، اتنا چیختی ہے چلاتی ہے کہ ٹانکے تک اڈھیر جاتے ہیں، اس لیے بیہوشی میں ہی رکھتے ہیں اسے۔ اب تو‘اب تو سوچ رہی ہوں کیا بنے گا اس کا۔ کیا جواب دوں گی اس کے سوالوں کا۔ اب تو دل کرتا ہے یہ مر جائے ان کے دل کا حال تھا کہ کہ انسانیت کے مقبرے کا دیدار۔ میرے اندر بس اتنی ہی ہمت بچی تھی کہ گھٹنوں پر گر کر صرف اتنا کہہ سکوں

اے خدا ! ہمیں سانپ بنا دے کہ ہمارے بچوں کی موت کم تکلیف دہ ہو