کسی بھی جمہوریت کے لئے ایک آزاد عدلیہ اہم ترین ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں لیکن ایک تنازع کھڑا ہو رہا ہے جو ہمیں یہ یاد دہانی بھی کروا رہا ہے کہ ہماری عدلیہ آزادی کی دعویدار نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ملک کے سینیئر ججوں نے بارہا ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی ہے۔
سپریم کورٹ متعدد وزرائے اعظم کو نااہل کر چکی ہے۔ ججوں نے ایک فوجی آمر کے دور میں ایک وزیر اعظم کی پھانسی کا فیصلہ بھی دے رکھا ہے۔ اس وقت تو عدلیہ کے ان متنازع اقدامات پر عوامی سطح پر کوئی غم و غصہ نہیں دیکھا گیا۔ لیکن اب معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے۔
21 نومبر کو ایک صحافتی ویب سائٹ نے ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ ریلیز کی جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف تین سال قبل ایک سازش کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ ریکارڈنگ میں ثاقب نثار کو ایک نامعلوم شخص کو یہ ہدایات دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو سزا دینی ہے۔ (دونوں پر 2018 میں کرپشن کے مقدمات چل رہے تھے جس وقت غالباً یہ آڈیو ریکارڈ کی گئی)۔
اس آڈیو میں ایک جگہ وہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ "اداروں نے ایسا کرنے کو کہا ہے، یہ صحیح ہے یا غلط، کرنا پڑے گا"۔ (صحافی احمد نورانی جو یہ خبر منظرِ عام پر لائے ہیں کے مطابق یہاں اداروں سے مراد فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے)۔ ان کو یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانا ہے – لگتا تو یہی ہے کہ وہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی بات کر رہے ہوں گے – اور یہ اشارہ دیتے ہیں کہ عدلیہ کو وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو انہیں اقتدار میں لانے کے لئے وہ کر سکتی ہے۔
ثاقب نثار نے فوری طور پر اس آڈیو کو جعلی قرار دیا۔ موجودہ حکومت کے اراکین نے غالباً عمران خان کے حکم پر ثاقب نثار کا دفاع کرنا شروع کر دیا۔ ان دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ آڈیو نواز شریف کی عدلیہ کے خلاف شروع کی گئی ایک مہم کا حصہ ہے۔ (یاد رہے کہ نواز شریف ماضی میں خود بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ججز کو استعمال کرتے رہے ہیں)۔ کچھ افسران کا کہنا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو جعلی ہے جو کہ ان کی ماضی میں کی گئی مختلف تقاریر کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائی گئی ہے۔ نورانی کا کہنا ہے کہ اس ریکارڈنگ کے اصلی ہونے کی تصدیق ایک امریکی کمپنی کر چکی ہے جس نے اس کا فورنزک آڈٹ کیا۔
یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ نورانی پاکستان میں نہیں رہ رہے۔ وہ اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں جہاں سے وہ اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ کچھ طاقتور افراد کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں انہیں ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ 2017 میں اسلام آباد میں ان پر حملہ ہوا تھا اور پولیس ان حملہ آوروں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی۔ کچھ ٹی وی چینلز پر مسلسل اپنے خلاف پراپیگنڈا کی وجہ سے وہ اپنی جان کے لئے فکرمند تھے۔ کچھ ہی عرصے بعد، ان کی نوکری ختم ہو گئی۔ کوئی پاکستانی اخبار یا ٹی وی چینل انہیں ملازمت دینے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا۔
چند روز قبل معروف وکیل علی احمد کرد نے لاہور میں ہوئی ایک کانفرنس جس میں پاکستانی اور بھارتی صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا کے دوران عدلیہ پر شدید تنقید کی تھی۔ اس کانفرنس میں چیف جسٹس گلزار احمد بھی مدعو تھے جنہوں نے کرد کے بیان پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی میں ہمت نہیں کہ عدلیہ کو ڈکٹیٹ کر سکے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی وکیل نے عدلیہ کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کے اصول کو پامال کرنے پر یوں کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا ہو۔
ایک دن بعد ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک منظر عام پر آ گئی۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ماضی میں ثاقب نثار پر بھی سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام لگتا رہا ہے۔ تین سال قبل ویمن ایکشن فورم نامی ایک تنظیم نے اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس شکایت میں 25 ایسے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جب ثاقب نثار نے اصولوں سے انحراف کیا۔ لیکن یہ شکایت ان کی ریٹائرمنٹ کے چند ہی ہفتوں بعد رد کر دی گئی۔ اب، اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد، ثاقب نثار خود پر ایک مختلف لیکن بہت واضح الزام کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ الزام صرف ایک شخص سے متعلق نہیں بلکہ ایک ادارے سے متعلق ہے۔
ثاقب نثار پر لگے الزامات کے بارے میں ہمیں فوری طور پر حقائق جاننے کا پورا حق ہے۔ یہاں داؤ پر اس سے بہت بڑے بڑے معاملات لگے ہیں۔ پاکستانی عوام جاننا چاہتے ہیں کہ آج تک کوئی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت کیوں پوری نہیں کر سکا۔ اور اس کے باوجود کبھی کسی چیف جسٹس کے اس حوالے سے سیاسی کردار پر اس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ (یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کسی آرمی چیف کے خلاف بھی ان سازشوں میں شامل ہونے پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی)۔
عوام اداروں کی جانب سے اب خالی تردیدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اگلی سامنے آنے والی آڈیو یا ویڈیو لیک پاکستان کے اداروں کو ہلا کر رکھ دے گی۔ ملک کی اس وقت اولین ضرورت یہ ہے کہ اس حالیہ لیک سکینڈل کی تحقیقات کی جائیں اور حقیقت کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔
حامد میر کا یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔
حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔