'اماراتی حکومت نے ارشد شریف سے کہا کہ 2 دن کے اندر اندر دبئی چھوڑ جائیں'

'اماراتی حکومت نے ارشد شریف سے کہا کہ 2 دن کے اندر اندر دبئی چھوڑ جائیں'
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عمر چیمہ اور اعزاز سید نے 24 اکتوبر کو اپنے وی لاگ میں کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل پر تحقیقاتی تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق ارشد شریف کی کہانی کا آغاز 9 اگست سے ہوتا ہے جب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے ریاستی اداروں کے خلاف عوام کے اندر بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کے جرم میں گرفتار کیا۔ شہباز گل کی گرفتاری کے بعد 10 اگست کو ایک خبر آئی کہ ارشد شریف پشاور کے راستے دبئی چلے گئے ہیں۔ ان کی فیملی نے بھی تصدیق کی کہ ارشد شریف دبئی چلے گئے ہیں۔

جب ارشد دبئی تھے تو ان کے پاس دبئی کے حکام آئے اور انہوں نے ارشد سے کہا کہ پاکستانی حکام چاہتے ہیں آپ کو ان کے حوالے کیا جائے۔ اس لیے آپ کے پاس 4 دن کا وقت ہے اس دوران آپ دبئی چھوڑ جائیں۔ لیکن اسی شام دبئی کے حکام دوبارہ آتے ہیں اور ارشد سے کہتے ہیں کہ آپ 2 دن کے اندر اندر دبئی کی سرزمین کو چھوڑ دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دبئی کے حکام پہ پاکستان کی طرف سے پریشر تھا۔ اس کے بعد ارشد شریف نے کینیا جانے کا فیصلہ کیا کیوںکہ ان کو کینیا میں ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی ویزہ مل سکتا تھا۔ لہذا وہ اس سہولت کو دیکھتے ہوئے دبئی سے کینیا روانہ ہو گئے۔

عمر چیمہ نے بتایا کہ ارشد لندن نہیں گئے تھے کیوںکہ ان کی لندن میں جیو نیوز کے نمائندے مرتضیٰ علی شاہ سے بات ہوئی تھی تو انہوں نے بتایا کہ جب ان کو پتہ چلا کہ ارشد شریف لندن آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے سے ارشد سے رابطہ کیا اور ان کو ملنے کی دعوت پہنچائی مگر اس مشترکہ دوست نے بتایا کہ ارشد فون پہ آپ سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق ارشد شریف سے فون پہ ان کی بات ہوئی اور وہ برطانیہ کا فون نمبر استعمال کر رہے تھے۔ مرتضیٰ نے ان کو ملنے اور کھانے کی دعوت دی جس پر ارشد شریف نے کہا کہ وہ ابھی لندن سے باہر ہیں اور وہ ان سے جلدی ملاقات کریں گے۔



عمر چیمہ اور اعزاز سید کے مطابق زمینی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ارشد لندن گئے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے صرف اپنی سکیورٹی کے لیے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ لندن میں ہیں تاکہ ان کو ٹریس نہ کیا جا سکے۔ اعزاز چیمہ نے بتایا کہ ارشد شریف نے 23 اکتوبر کو اپنے قریبی دوست اور پروڈیوسر عدیل راجہ کو فون کر کے بتایا کہ وہ کینیا کے ایک علاقے مگادی میں ایک فیسٹیول میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں۔ پھر اس کے بعد ان کی موت کی اطلاع آنے تک ان کے بارے میں کوئی خبر موجود نہیں تھی۔

پھر اچانک 24 اکتوبر کی رات کے ارشد شریف کے فون کی کال لسٹ میں سے نمبر دیکھ کر کینیا سے کسی شخص نے اے آر وائی کے کسی بندے کو کال کر کے ارشد کی موت کی اطلاع دی۔ ادھر سے عدیل راجہ کو پتہ چلا جنہوں نے رات کے 1 بجے اپنے گھرراولپنڈی سے ارشد شریف کے گھر اسلام آباد جا کر ان کی فیملی کو اطلاع دی۔

ارشد شریف پچھلے ایک ماہ سے کینیا میں ایک پرائیویٹ رہائش گاہ میں رہ رہے تھے اور وہ شاذ و نادر ہی اپنے کمرے سے باہر نکلتے تھے۔

قتل کے ذمہ داروں کے بارے میں عمر چیمہ اور اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔ مگر ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ کینیا کی پولیس بار بار بیان بدل رہی ہے جو ان کو مشکوک بنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کینیا کی پولیس دنیا بھر میں ماورائے عدالت قتل کرنے میں خاصی بدنام ہے اور پوری دینا میں کرپشن کے انڈکس میں کینیا کی پولیس کا دسواں نمبر ہے۔