کیا خیبر پختونخوا میں پُرامن انتخابات ممکن ہیں؟

پچھلے 3 مہینوں میں تحریک طالبان پاکستان نےملک کے مختلف شہروں میں لگ بھگ 300 سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ملک میں پہلے صرف سیکولر جماعتیں ہی دہشت گرد حملوں کی زد میں رہی ہیں لیکن اب حیران کن طور پر مذہبی جماعتیں بھی اس فہرست میں شامل ہو گئی ہیں۔

کیا خیبر پختونخوا میں پُرامن انتخابات ممکن ہیں؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات اگلے سال جنوری کے مہینے میں منعقد کروانے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن تاحال الیکشن کی تاریخ اور شیڈول جاری نہیں کیا گیا جس سے بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں میں سیاسی جماعتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملے اور کالعدم تنظیموں کی طرف سے مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے سے یہاں پہلے سے موجود کشیدہ ماحول میں مزید تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔ ان دھمکیوں سے طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

یہ سوال بھی زور پکڑ رہا ہے کہ موجودہ بدترین سکیورٹی صورت حال کے تناظر میں کیا پختونخوا کے دور دراز علاقوں اور قبائلی اضلاع میں پرامن اور شفاف انتخابات ممکن ہیں؟

کیا سیاسی جماعتیں بغیر کسی خوف و خطر کے آزادانہ طریقے سے انتخابی مہم چلا سکیں گی اور انہیں عوام تک پہنچنے میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آئے گی؟

خیبر پختونخوا میں گذشتہ دو سالوں سے امن عامہ کی صورت حال مسلسل تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے کالعدم شدت پسند تنظیموں، تحریک طالبان پاکستان اور دولت اسلامیہ ( داعش) کے حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پچھلے 3 مہینوں میں ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان کے مختلف شہروں میں لگ بھگ 300 سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ قریباً ایک دہائی کے دوران کسی سال کے پہلے 7 مہینوں میں اتنے حملے نہیں ہوئے، جتنے رواں سال اب تک ریکارڈ کئے جا چکے ہیں۔

ملک میں پہلے صرف سیکولر جماعتیں ہی دہشت گرد حملوں کی زد میں رہی ہیں لیکن اب حیران کن طور پر مذہبی جماعتیں بھی اس فہرست میں شامل ہو گئی ہیں۔

حالیہ دنوں میں قبائلی ضلع باجوڑ میں جمعیت علماء اسلام کے ورکرز کنونشن پر ایک بڑا خودکش حملہ کیا گیا جس میں جے یو آئی کے 44 سے زائد رہنما اور کارکن ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے شہر مستونگ میں جے یو آئی کے مرکزی رہنما سینیٹر حافظ حمد اللہ کی گاڑی کو بم دھماکے میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جس میں ان سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔ تاہم ان دونوں حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ یا داعش کی طرف سے قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ان واقعات سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں جے یو آئی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، بالخصوص الیکشن مہم کے دوران شاید ان کو فری ہینڈ نہ ملے۔

پشاور کے سینیئر صحافی اور اینکرپرسن سید وقاص شاہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ملک میں عام انتخابات کے ضمن میں جو اعلان کیا گیا ہے وہ درصل اعلان نہیں بلکہ ایک تجویز ہے جس کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں۔ الیکشن کمیشن نے ایک مبہم سا اعلان کر کے قوم کو ایک مرتبہ پھر سے چونا لگا دیا ہے۔

سید وقاص شاہ کے بقول 'مسلم لیگ ن کسی صورت انتخابات نہیں چاہتی کیونکہ موجودہ حالات میں بلّے کا نشان تاحال میدان میں موجود ہے۔ جب تک پی ٹی آئی پر پابندی نہیں لگ جاتی یا عمران خان کو نااہل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک الیکشن کا ہونا مشکل لگ رہا ہے'۔

ان کے مطابق اس وقت اسٹیبلشمنٹ، مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف الیکشن کے حوالے سے ایک ہی پیج پر نظر آ رہے ہیں۔ یہ تینوں نہیں چاہتے کہ ملک میں فوری انتخابات کا انعقاد ہو کیونکہ ملک میں بدستور عمران خان کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اگر آج الیکشن ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئے گی جبکہ پختونخوا میں تو کوئی ان سے جیت ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا جب تک پی ٹی آئی کا اثر کم نہیں ہو جاتا، اس وقت تک انتخابات کی طرف جانا مشکل لگ رہا ہے۔

کالعدم تنظیموں کی طرف سے حالیہ دنوں میں مذہبی جماعتوں کو ملنے والی دھمکیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سید وقاص شاہ نے کہا کہ یہ دھمکیاں بہت تشویش ناک ہیں کیونکہ پہلے تو صرف قوم پرست اور سیکولر جماعتوں پر حملے ہوتے تھے لیکن اب مذہبی جماعتیں بھی نشانے پر ہیں جس سے صوبے کی مجموعی صورت حال انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے۔

'جس طرح جے یو آئی پر حالیہ دنوں میں بڑے بڑے حملے ہوئے ہیں اس سے تو لگتا ہے ان کے لیے الیکشن مہم کے دوران خطرات موجود رہیں گے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے خلاف تو پہلے سے بدترین تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے صوبائی رہنما امیر مقام پر بھی حالیہ دنوں میں ایک ناکام حملہ کیا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا کی یہی چار پانچ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، اگر یہ سب پارٹیاں دہشت گرد حملوں کی زد میں ہیں تو پھر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں آنے والے انتخابات کیسے پرامن اور شفاف ہو سکتے ہیں؟'

دہشت گرد کارروائیوں پر نظر رکھنے والے کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی رپورٹوں کے مطابق رواں سال ملک میں تشدد کے واقعات میں بڑی حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان میں سے بیش تر واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیش آئے۔ ان واقعات میں سکیورٹی ایجنسیوں اور پولیس کے سینکڑوں اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ کئی دہشت گرد بھی لقمہ اجل بنے ہیں۔

جمعیت علماء اسلام خیبر پختونخوا کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور سابق صوبائی وزیر آصف اقبال داؤدزئی کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں ان کی جماعت دہشت گرد تنظیموں کے نشانے پر ہے اور حالیہ دنوں میں ان کے کئی کارکن ان کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان کے بقول 'مجھے لگتا ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کے مابین اعتماد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے شاید صوبے میں سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہونے کے بجائے مزید خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ تمام تر چیلنجز کے باوجود ان کی جماعت انتخابات لڑنے کے لیے تیار ہے تاہم اس سے پہلے امن عامہ کی صورت حال میں بہتری لانا انتہائی ضروری امر ہے اور یہ ذمہ داری سکیورٹی اداروں کی بنتی ہے تا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں اور پرامن انتخابی ماحول میسر ہو سکے۔ 

جوں جوں الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں توں توں کالعدم تنظیموں کی طرف سے دباؤ بڑھانے میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ چند ہفتے قبل کالعدم تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کی طرف سے ایک لمبا بیان جاری کیا گیا جس میں الیکشن کے عمل کو باطل نظام کہا گیا۔ اس بیان سے قبل بھی داعش کی طرف سے متعدد مرتبہ اپنے بیانات میں جمہوری اور الیکشن کے عمل کو کافرانہ نظام سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔

اسی طرح حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کی طرف سے بھی ایک مفصل بیان جاری کیا گیا جس میں مذہبی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان نے قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے 'عدم تشدد' کے فلسفہ پر بھی شدید نکتہ چینی کی اور اسے 'بے غیرتی' قرار دیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے یوتھ افیئرز کے سیکرٹری طارق افغان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو ملنے والی دھمکیاں سنگین اور تشویش ناک معاملہ ہے تاہم یہ مٹھی بھر عناصر پورے ملک کو یرغمال نہیں بنا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان کی طرف سے عدم تشدد کے نظریہ پر تنقید کرنا ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ عدم تشدد کی اسلام بھی حمایت کرتا ہے بلکہ اسلام کے تو معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں۔

مذہبی جماعتوں پر حالیہ حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے طارق افغان نے کہا کہ 2013 کے الیکشن میں جب عوامی نیشنل پارٹی پر دہشت گرد حملے ہو رہے تھے تو اس وقت تمام مذہبی جماعتوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی اور آج جب وہ آگ ان کے اپنے گھر تک پہنچ گئی ہے تو اب یہ چیخ چیخ کر مذمت کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق 'اگر اس وقت تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہو کر دہشت گردی کی مذمت کرتیں تو شاید آج ہم اس لعنت پر کسی حد تک قابو پا چکے ہوتے۔ میری جماعت ہر قسم کی شدت پسندی اور دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے، چاہے وہ کسی مذہبی جماعت کے خلاف ہو یا کسی غیر مسلم کے خلاف'۔

یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے ذریعے سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید افغان طالبان کی سہولت کاری سے اس قضیہ کا کوئی نہ کوئی قابل عمل حل نکل آئے گا لیکن تاحال ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ہے بلکہ معاملات روز بروز انتہائی سنگینی کی جانب گامزن ہیں۔

پاکستان کچھ عرصے سے کھلے عام طالبان حکومت پر یہ الزام لگاتا آ رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ تاہم افغان طالبان اس الزام کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں.

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔