اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی رانی تھیں۔ وہ برصغیر کی حسین ترین ایکٹریسز میں سے ایک تھیں۔ ان کی آنکھیں ایسی دل کش تھیں کہ کاش ان پر کوئی فلم بناتا۔ جو پہنتیں ان پر سجتا۔ ہر کردار اور ہر روپ میں پہلے سے زیادہ حسین نظر آنا ان کا کمال تھا۔ رہی ایکٹنگ تو وہ بھی لاجواب تھی۔ رانی نیچرل اداکارہ تھیں۔ ان کی ایکٹنگ دیکھ کر ہمیشہ حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ اور اس پہ ستم ان کا ڈانس۔ وہ بہترین ڈانسر تھیں۔ اسی لیے ڈانسنگ کوئین کہلائیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک سپر ہٹ فلم رانی کے کریڈٹ پر ہے۔ اور اس کی وجہ ہے ان کا مکمل پیکج ہونا۔ لیکن آج بھی لوگ انہیں ان کے حُسن کی وجہ سے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ رانی بدقسمت حسینہ تھیں۔ کیونکہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا رانی کا حُسن بڑھتا ہی چلا گیا مگر ساتھ ہی ساتھ بد نصیبی بھی۔ 3 شادیاں کیں، تینوں ہی ناکام ہوئیں۔ وہ ذاتی زندگی میں کبھی سکون نہ پا سکیں۔ جس قدر کامیابی کریئر میں سمیٹی اسی قدر دکھی زندگی بسر کی۔ بڑھاپے کا منہ تک نہ دیکھا۔ اچانک کینسر کا پتہ چلا اور 46 برس کی عمر میں دنیا چھوڑ دی۔
یہاں ہم ماضی کی اسی عظیم اداکارہ کی زندگی کے بارے میں جانیں گے۔ رانی کا اصل نام اور فیملی بیک گراؤنڈ کیا تھا؟ فلم انڈسٹری میں کیسے آنا ہوا؟ کس مووی سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچیں اور پاکستانی فلم انڈسٹری کی رانی بنیں؟ رانی نے اپنے فلمی کریئر میں کس قدر عروج دیکھا؟ ایک سٹار کرکٹر سمیت کس کس سے شادی کی؟ کیا رانی کے کوئی اولاد بھی ہوئی؟ اور رانی کی کون سی ایسی دو خواہشیں تھیں جو کبھی پوری نہ ہو سکیں؟
رانی کا اصل نام تھا ناصرہ۔ وہ 8 دسمبر 1946 کو لاہور کے علاقے مزنگ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی والدہ کا نام تھا اقبال بیگم جبکہ والد کا ملک محمد شفیع۔ ان کے والد اُس وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور تھے۔ یہ وہی مختار بیگم ہیں جنہوں نے میڈم نورجہاں کا نام اللہ وسائی سے تبدیل کر کے نور جہاں رکھا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ رانی جب چھوٹی سی تھیں تو مختار بیگم کو پسند آ گئیں۔ انہوں نے رانی کو بیٹی بنا کر اپنے گھر رکھ لیا اور ان کی پرورش کی۔ مختار بیگم انہیں اپنی طرح سنگر بنانا چاہتی تھیں۔ لیکن مجال ہے جو رانی کا ذرا سا بھی رجحان ہو گائیکی کی جانب۔ انہیں تو ڈانس کا شوق تھا، ڈانس کا۔ فلموں میں بھی کام کرنا چاہتی تھیں۔ سو ان کی یہ خواہش پوری کی مختار بیگم نے۔ رانی مختلف وجوہات سے زیادہ پڑھ نہ سکیں مگر انہیں رقص کی باقاعدہ تربیت دلوا دی تھی مختار بیگم نے۔ اصل میں مختار بیگم کے شوہر آغا حشر کاشمیری فلم پروڈیوسر تھے۔ انہوں نے اپنے شوہر کو کہہ کر رانی کو فلموں میں چانس دلوایا۔ یوں مختار بیگم نے رانی کو فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا۔
پہلی فلم کی لانچنگ کے موقع پر اداکارہ رانی مختار بیگم، آغا حشر کاشمیری اور فریدہ خانم کے ہمراہ
رانی کی پہلی فلم تھی محبوب۔ یہ فلم 1962 میں ریلیز ہوئی جس میں لیڈ رول تھا شمیم آرا کا اور سائیڈ رول رانی کا۔ فلم تو ہٹ ہو گئی مگر رانی کی کوئی خاص پہچان نہ بن سکی۔ اس کے بعد وہ مسلسل فلموں میں کام کرتی رہیں لیکن ہٹ نہ ہو سکیں۔ آخرکار 5 برس بعد رانی کی قسمت چمک گئی۔ 1967 میں وحید مراد اور صبیحہ خانم کی فلم دیور بھابھی میں رانی کا بھی اچھا خاصا رول تھا۔ اس مووی سے قسمت کی دیوی مہربان ہو گئی ان پر اور وہ اصل میں پاکستانی فلم انڈسٹری کی رانی بن گئیں۔ رانی پر فلموں کی بارش ہونے لگی۔ اس برس انہوں نے 5 فلموں میں کام کیا۔ اگلے برس 10 فلموں میں جلوہ گر ہوئیں۔ اور اس سے اگلے برس بھی وہ 10 فلموں کی زینت بنیں۔ ان 20 فلموں میں سے تقریباً تمام ہی ہٹ ہوئیں اور 6 تو سپر ہٹ ہوئیں۔ اب رانی کا نام فلموں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ لوگ رانی کو دیکھنے کے لیے سنیما گھروں کا رخ کیا کرتے تھے۔ وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھیں۔
رانی کا کمال یہ تھا کہ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں کامیاب تھیں۔ دل میرا دھڑکن تیری، بہن بھائی، دیا اور طوفان، شمع اور پروانہ، بہارو پھول برساؤ، اک گناہ اور سہی، خون اور پانی اور امراؤ جان ادا ان کی مشہور فلموں میں شامل ہیں۔ امراؤ جان ادا سے تو رانی امر ہی ہو گئیں۔ یہ ان کے کریئر کی سب سے بڑی مووی تھی۔ اس میں ان کی اداکاری کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ لیکن انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فلم پر رانی کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا تھا۔ پنجابی فلموں کی بات کریں تو رانی کو فلم چن مکھناں سے بریک تھرو ملا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر بڑی پنجابی فلموں میں سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور اور سونا چاندی وغیرہ شامل ہیں۔
اداکارہ رانی ناہید اختر، صبیحہ خانم، شبنم اور دیگر کے ہمراہ
جیسے ہی رانی کو فلمی دنیا میں عروج ملا ویسے ہی ان کی بد نصیبی بھی شروع ہو گئی۔ 1970 میں رانی نے فلم پروڈیوسر حسن طارق سے شادی کر لی۔ ان دونوں کے ہاں ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی جس کا نام ہے رابعہ حسن۔ مگر بیٹی ہونے کے باوجود یہ شادی نہ چل سکی۔ دونوں میں طلاق ہو گئی۔ لیکن رانی نے اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھا اور اس کی بہترین تربیت شروع کر دی۔ وہ رابعہ کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن پھر اسی کے بہتر مستقبل کے لیے 1979 میں سابق پروڈیوسر میاں جاوید قمر سے شادی رچا لی۔ مگر افسوس کہ یہ شادی بھی ناکام ہوئی اور صرف ایک برس ہی چل سکی۔ اس کے بعد تو پکا ارادہ کر لیا تھا رانی نے شادی نہ کرنے کا۔ لیکن پھر 1982 میں دنیائے کرکٹ کے عظیم فاسٹ بالر سرفراز نواز جو رانی کے عشق میں مبتلا تھے، نے رانی کو پروپوز کر دیا۔ رانی انکار نہ کر سکیں لیکن یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا۔ اس شادی کا مقدر بھی طلاق ہی ٹھہری۔
اداکارہ رانی ڈرامہ سیریل خواہش کے ایک منظر میں
رانی نے فلموں کے علاوہ ڈراموں میں بھی کام کیا۔ ان کے مشہور ترین ڈرامے خواہش اور فریب ہیں۔ چھوٹی سکرین پر بھی رانی کو بے انتہا پسند کیا گیا۔ مگر اچانک رانی کو پتہ چلا کہ انہیں کینسر ہے۔ بہت علاج کرایا مگر اس نامراد مرض نے پیچھا نہ چھوڑا۔ حالانکہ ابھی تو ان کا ٹی وی کریئر شروع ہی ہوا تھا۔ ابھی تو انہیں ٹی وی ایکٹریس کے طور پر بھی بہت آگے جانا تھا۔ پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ جو انہیں فلمی کریئر پہ نہیں دیا گیا شاید وہ انہیں ٹی وی ڈراموں پر مل جاتا۔ مگر زندگی تھوڑی رہ گئی تھی رانی کی۔ کینسر کی تشخیص کے فوراً بعد ہی ان کی حالت شدید بگڑ گئی تھی۔ عمرے کی خواہش کی مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ اور پھر کینسر کی تشخیص کے ایک ماہ کے اندر اندر رانی 27 مئی 1993 کو کراچی میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
رانی کی وفات کے ایک ماہ بعد ہی ان کی والدہ اور 3 ماہ بعد سگی اور اکلوتی بہن بھی وفات پا گئیں۔ رانی اور ان کی والدہ کی قبریں مسلم ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں ساتھ ساتھ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ رانی کو دکھوں نے وقت سے پہلے مار دیا۔ بظاہر تو ان کی جان کینسر نے لی مگر خدا جانے وہ کون سا اصل کینسر تھا جو رانی کی بے وقت موت کا باعث بنا۔