مختار بیگم - ایک داستان گم گشتہ

مختار بیگم - ایک داستان گم گشتہ
قیام پاکستان سے پہلے سردار بائی، انور بائی لوہاری منڈی والی، عیدن بائی اکھیاں والی، عنایت بائی ڈھیرو والی، زہرہ بائی آگرے والی، اختری بائی فیض آبادی اور مختار بیگم مشہور گائکوں میں شامل تھیں۔ مختار بیگم نے ٹھمری، دادر اور غزل گائیکی میں بہت نام کمایا۔

کلاسیکل میوزک ریسرچ سیل ریڈیو پاکستان کے مطابق مختار بیگم کا سنہ پیدائش 1923 ہے۔ مگر یہ سنہ دو وجوہات کی بنا پر درست معلوم نہیں ہوتا۔ اول ان کی آغا حشر سے وابستگی اور دوم نور جہاں کا استاد ہونا۔ روایت ہے مختار بیگم نے آغا حشر سے شادی کر لی تھی۔ اگر یہ درست ہے تو آغا حشر 1935 میں وفات پا گئے تو اس لحاظ سے مختار بیگم کی عمر اس وقت صرف 12 سال بنتی ہے۔ جو درست معلوم نہیں ہوتی۔ نور جہاں کے بقول انہوں نے مختار بیگم سے گائیکی کی تربیت حاصل کی تھی۔ نورجہاں کا سن پیدائش 1926 ہے۔ اس لحاظ سے مختار بیگم نور جہاں کی استاد کیسے ہو سکتی ہیں؟



لندن میں مقیم کلاسیکل موسیقی کے رسیا سردار بلبیر سنگھ کنول کے مطابق مختار بیگم 1911 میں امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے میں امرت سر میں دو گائکوں کا بہت چرچا تھا؛ ایک مختار بیگم اور دوسری جدن بائی نرگس دت کی ماں کا۔

آٹھ سال کی عمر میں مختار بیگم کو استاد عاشق علی خان پٹیالے والے کی شاگردی میں دے دیا گیا۔ انہوں نے کچھ عرصے بعد مختار بیگم کو ان کے ماموں استاد اللہ دیا خان کے سپرد کر دیا۔ استاد اللہ دیا خان نے مختار بیگم کو اپنے جانشین استاد فتو خان کے سپرد کر دیا۔ ان دونوں استادوں کے بعد مختار بیگم ایک بار پھر استاد عاشق علی کی شاگردی میں آئیں۔ مختار بیگم کے والد غلام محمد نے اظہار جذبات کا فن سکھانے کے لئے ان کو دو بھائیوں پنڈت شمبھو مہاراج اور پنڈت لچھو مہاراج کے سپرد کیا۔ مختار بیگم نے ایک سال تک اظہار جذبات کی تعلیم حاصل کی۔



اس دوران مختار بیگم کا امرت سر میں طوطی بولنے لگا۔ اس دور میں برصغیر میں تھیٹریکل کمپنیوں کا عروج تھا۔ آغا حشر جب میڈن کمپنی میں ملازم تھے یہ کمپنی امرت سر آئی۔ آغا حشر نے مختار بیگم کا گانا سن کر ان کو کلکتہ آنے کی دعوت دی۔ جو اس دور میں فلم سازی کا مرکز تھا۔ مختار بیگم نے یہ دعوت قبول کر لی اور کلکتہ کا رخ کیا۔ یہ 1931-32 کی بات ہے۔ اس دوران انہوں نے 14 فلموں میں کام کیا۔ وہ بیک وقت رقاصہ و گلوکارہ تھیں۔

مختار بیگم کی زندگی کا دل چسپ پہلو ان کی آغا حشر سے محبت تھی۔ مختار بیگم کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے آغا حشر سے شادی کی تھی۔ آغا حشر نے مختار بیگم کے لئے بطور خاص کئی ڈرامے اور غزلیں لکھیں۔ تین ڈرامے مختار بیگم پر فلمائے بھی گئے۔ ان میں ’ہندوستان‘، ’بلوا منگل‘ اور ’عورت کا پیار‘ شامل ہے۔ حشر کی مشہور غزل ’چوری کھل نہ جائے کہیں نسیم بہار کی‘ مختار بیگم سے منسوب کی جاتی ہے۔

مختار بیگم کی شخصیت کا اہم جز ان کی خوش لباسی تھا۔ جس کی طرف منٹو نے آغا حشر کے خاکے میں اشارہ کیا ہے۔ وہ گائیکی کے دوران سفید ساڑھی زیب تن کرتی تھیں۔ نور جہاں کے بقول انہوں نے ساڑھی کا یہ انداز مختار بیگم سے سیکھا۔ یہی انداز اقبال بانو نے بھی اپنایا۔

1935 میں آغا حشر کی وفات کے بعد مختار بیگم بمبئی چلی گئیں۔ وہاں مختار فلم کمپنی کی بنیاد رکھی۔ 1936 میں پریم کی آگ، 1935 میں دل کی پیاس اور 1947 میں آخری فلم متوالی میرا میں کام کیا اور موسیقی ترتیب دی۔

تقسیم کے بعد راولپنڈی آ گئیں۔ بعدازاں PIA کے کچن انچارج سید قمر الزماں سے شادی کی اور کراچی میں رہائش پذیر ہوئیں۔



مختار بیگم نے اپنی بہن فریدہ خانم اور نسیم بیگم کو گلوکاری جب کہ اداکارہ رانی کو رقص اور اظہار جذبات کی تعلیم دی۔

مختار بیگم 25 فروری 1982 کو کراچی میں وفات پا گئیں۔ ان کی نامور کہیں چوری ہو گئی۔ یہ چوری پھر کھلے گی۔۔۔