Get Alerts

وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل اور بیوروکریسی کی روایتی بے حسی: 'افسران پر سکون،عوام خوار'

وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل اور بیوروکریسی کی روایتی بے حسی: 'افسران پر سکون،عوام خوار'
پاکستان سٹیزن پورٹل پر پی ایم او میں درخواست ارسال کی کہ صحافی ہوں۔  بے روزگار ہوں۔معذور ہوں۔ مریض ہوں۔ ریاست پاکستان کا شہری ہوں۔ حکومت مدد کرے ۔پورٹل سے درخواست فوری ضروری کارروائی کےلئے آگے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھیج دی گئی۔چیف سیکرٹری نے عملدرآمد کرتے ہوئے درخواست ایم ڈی بیت المال کے سپرد کردی کہ درخواست کو قانون  اور میرٹ کے مطابق نمٹایا جائے۔یہی کام ایم ڈی بیت المال نے کیا ۔درخواست ڈائریکٹر محکمہ سوشل ویلفیئر کے حوالے کی اور بری الذمہ ہوئے کہ کام نمٹایا دیا ہے۔محکمہ سوشل ویلفیئر کے بعد بدقسمتی سے کوئی زکواۃ کمیٹی ،یونین کونسل یا کوئی اور ایسا راستہ نہیں تھا کہ آن لائن یہ فریضہ بطریق احسن انجام دیا جاسکتا۔درخواست گزار سے رابطہ کیا گیا۔ کہا گیا کہ آپ مقامی زکواۃ کمیٹی سے رابطہ کریں یا پھر بیت المال کو براہ راست درخواست دیں ۔

یہ ہمارا کام نہیں ہے۔کال کےدوسرے دن سیٹزن پورٹل کا میسج نوٹیفکیشن ملا کہ آپ کی درخواست پر کارروائی مکمل کرکے درخواست سسٹم سے خارج کردی گئی ہے۔ درخواست کا شمار ہوگیا ہے کہ شہری کی درخواست پر کارروائی کی گئی ہے۔ یعنی مسلہ حل کردیا ہے۔یہی رپورٹ وزیراعظم کو بھی دی جاتی ہوگی کہ رواں ماہ سٹیزن پورٹل پر اتنی تعداد میں شکایات موصول ہوئیں اور ان میں سے اکثریت کا مسئلہ حل کردیا ہے۔کامیابی تناسب سو فیصد ہے۔
عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت ہوتی  اور پورٹل عوام کی شنوائی کے لئے بنایا گیا ہوتا تو درخواست کی تصدیق کی جاتی اور شہری کے فراہم کردہ کوائف کی انکوائری کرکے مسلہ حل کیا جاتا ۔مہذب اقوام اور حقیقی عوامی حکومتوں کا چلن یہی ہے۔ عمران خان جن مغربی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں۔وہاں شہریوں کی ہر ای میل کا  مناسب طریقے سے جواب دیا جاتا ہے۔پاکستان کا کوئی شہری برطانوی وزیراعظم ۔امریکی صدر یا کینیڈا کے وزیراعظم کو ای میل کرکے تجربہ کرسکتا ہے۔
افسوس ہے کہ پاکستان کے حکمران عوام کی بجائے کسی اور کو جواب دہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔پاکستان کی کل آبادی کا دس فیصد معذور افراد ہیں ۔جن کی تعداد 2کروڑ سے بھی زیادہ بنتی ہے۔پچھلے 74 سالوں سے معذور افراد کے لئے ریاست کی کوئی جامع پالیسی نہیں ہے۔ڈنگ ٹپاو یا پھر کچھ افراد کے مفادات اور خواہشات کو مدنظر رکھ کر منصوبے بنائے جاتے ہیں۔جس طرح پچھلی حکومت نے لیپ ٹاپ سکیم،سستی روٹی ،دانش سکول ،پیلی ٹیکسی ،قرضہ پروگرام کے جزووقتی منصوبے بنائے ۔جن میں کھربوں روپے خردبرد کردیئے گئے تھے۔
جمہوریت ہو یا آمرانہ دور حکومت جامع اور ٹھوس پالیسی نہیںبنائی جاتی ہے۔لوٹ مار،کمیشن خوری اور مال کمانے کے نئے نئے طریقے دریافت کیے جاتے ہیں ۔کبھی بے نظر انکم سپورٹ پروگرام اور کبھی احسا س پروگرام کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ عوام بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔کرونا کی وبا نے بھوک ،بیماری اور مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ وزیراعظم قوم سے خطاب کرکے بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ سب کچھ کردیا ہے۔وزیراعظم عمران خان بھاشن تو دیتے ہیںمگر عملی طور پر کام نہیں ہورہا ہے۔جرات کریں ۔ٹیلی فون کی بجائے ہفتہ میں ایک دن سٹیزن پورٹل کے دفتر میں بیٹھیں اور خود چیک کریں۔بیوروکریسی کے سر پرکھڑے ہوں گے تو کام ہوگا، بصورت دیگر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ بیورو کریسی میں لوگ کام کرنے نہیں آتے ہیں۔عہدہ ،مراعات اور کمائی کرنے آتے ہیں۔
پورٹل کی اہمیت اور افادیت اسی صورت ہوگی کہ براہ راست نگرانی کا نظام بنایا جائے۔ اس امر سے انکار بالکل نہیں ہے کہ سٹیزن پورٹل کی کوئی  اہمیت نہیں ہے۔ عوام الناس کےلئے پورٹل بہت سود مند ہے۔حکومت کے نمائندے اور کابینہ صرف سٹیزن پورٹل سے آنیوالی شکایات کا ازالہ ہی بہتر طریقے سے کرنے پرتوجہ دیں تو تبدیلی کے آثار نمایاں نظر آئیں گےاور عوام کو افسر شاہی ،رشوت اور سفارشی کلچر سے نجات ملے گی۔ وزیراعظم صاحب خدا کےلئے کوئی کام تو ایسا کردیں ۔ جس سے عوام کو براہ راست فائدہ ہو۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔