زندہ رہنے کی جدوجہد: یاسر لطیف ہمدانی نے جناح کی سوانح عمری لکھنے کے لئے کس طرح کورونا اور برین ٹیومر کا مقابلہ کیا

زندہ رہنے کی جدوجہد: یاسر لطیف ہمدانی نے جناح کی سوانح عمری لکھنے کے لئے کس طرح کورونا اور برین ٹیومر کا مقابلہ کیا
مصنف کی اہلیہ اپنی اور اپنے شوہر کے حالات ِزیست کو ضبط تحریر میں لے کر آئی ہیں جب کہ یاسر لطیف ہمدانی کی کتاب بھی اب بازار میں دستیاب ہے۔

اگر آپ یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود کتاب کی تحریر و تدوین اور اشاعت کے لئے کس طرح ذہنی مضبوطی حاصل کی جا سکتی ہے تو پھر اس شخص سے استفادہ کریں جو ایسا کرنے میں ناکامی سے دوچار ہوتے ہوتے رہ گیا ہو۔ میرے شوہر یاسر لطیف ہمدانی مرگی اور دماغ کی سرجری جیسی جان لیوا بیماریوں سے صحتیاب ہونے کے لئے دو سال تک لڑتے رہے ہیں۔ انھیں ”پین میکملن“ کی جانب سے کتاب لکھنے کی تجویز موصول ہوئی تھی جس میں اس شخص کی سرگزشت تحریر کرنا تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ہندوستان کو تقسیم کر دیا۔ جب وہ اپنی کتاب کے مسودے میں حتمی ترامیم کرنے میں مصروف تھے تو انھیں دوسری بار پہلے سے زیادہ خطرناک برین ٹیومر سرجری سے گزرنا پڑا جب کہ اسی دوران کورونا کی وبا نے بھی سر اٹھا لیا تھا۔ میری بیان کردہ کہانی یا غزل کہہ لیں، انسانی ضد کی ایک ایسی داستان ہے جسے لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے جو ہمارے ذہنوں میں موجود ہیروز اور ولنز کے تشخص کو چیلنج بھی کرتا ہے۔

جب ہماری ملاقات ہوئی، اس وقت یاسر کی عمر محض 20 سال تھی۔ امریکا میں کالج کی تعلیم سے فراغت کے بعد ہم دونوں پاکستان واپس آئے تھے۔ اس وقت اس کا رویہ اب کی نسبت خاصہ قابل برداشت اور کہیں بہتر تھا۔ اگرچہ بعد میں مجھے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ میرا شوہر حقیقت میں ایک حالتِ فراموشی میں جی رہا ہے، جو کہ بہرحال ایک مسئلہ ہے۔ میں اس وقت ایسے کسی شخص کو نہیں جانتی تھی جو بھول جانے کی بیماری کا حل تلاش کر سکے۔ تاہم، یاسر ہمیشہ سے بہت ہی باوضع اور آئیڈیاز سے بھرپور رہا ہے۔ کبھی ہتھیار نہ ڈالنے کی عادت نے ہی اسے اہم محاذوں پر ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیا۔ جیسے ایک بار اس نے بطور وکیل پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی کے خاتمے کے لئے کئی سال جدوجہد کی۔

ایک بات وہ اکثر کہتا ہے ”تم انتہائی غلط ہو سکتی ہو“۔ یاسر ٹوئٹر استعمال کرنے کا عادی ہے(@TheRealYLH):۔ وہ ایک ایسا شخص ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جب تک اس پلیٹ فارم کو استعمال نہیں کرتا وہ کئی لوگوں کے لئے غیر متعلق ہی رہے گا۔ خود کو ظاہر کیے بنا اس اخلاقی سوال کا حل تلاش کرنے کے لئے کہ پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کا حق کیوں حاصل ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کی انتہائی غلط سوچ کے حامل لوگوں کی سوچ ضرور ٹھیک ہو جائے گی۔

میں اور میرے شوہر 20 سالوں سے ساتھ ہیں اور اس میں کالج کا رومانوی دور اور دیگر چیزیں بھی ہماری زندگی بھی شامل رہی ہیں۔ اب ہم دو نوجوان لڑکیوں کے والدین ہیں جو کالج جانے کی تیاری میں ہیں۔ 20 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے زندگی کے واقعات کو کسی گراف پر صحیح طرح منقش نہیں کر سکتی۔ شاید ایک دن ہم بھی ”سٹیئنگ الائیو“ جیسی صورتحال سے دوچار ہوں گے لیکن آئندہ کے حالات کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔

جب میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں ہم اپنے لکڑی کے ہیڈ بورڈ بستر پر نرم آرتھو پیڈک تکیوں کے ساتھ سونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کورونا کی وبائی صورتحال کے بعد سے ہمارے معمولات زیادہ تر اسی طرح رہے ہیں جب کہ ہم دونوں اپنے میکس (برساتی کوٹ) کے ساتھ بھی تقریباً چپکے رہے ہیں۔ دوسرے کمرے میں ہماری جواں سال بیٹیوں کی ہنگامہ آرائی جاری ہے اور باورچی خانے سے بریڈ سیکنے کی خوشبو بھی آ رہی ہے۔ ان سب کے باوجود اسلام آباد کے اس مضافاتی علاقے میں چیزیں اتنی سادہ و آسان نہیں جتنی کہ دکھائی دیتی ہیں۔ میں ایک بجھے ہوئے آتش فشاں کی طرح ہوں جو ہر ایک کو اس کی اپنی بھلائی کے لئے خود سے دور رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ دماغ کی سرجری کے بعد سے یاسر ہلکی آوازوں کو بھی محسوس کرتا ہے اور ان پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ ہم یہاں بوڑھے اور بیمار جوڑے کی طرح بستر پر نہیں رہنا چاہتے لیکن ہم دنوں ہی خود کو بوڑھا محسوس کر رہے ہیں۔ یاسر کے دماغی خلئے اس کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہیں۔ اس کی باقی بچی ہوئی ہمت کو بھی کورونا کے وبائی مرض نے بری طرح توڑ دیا ہے۔ اس حالتِ مدہوشی میں بھی ہم جس چیز کے بارے میں جانتے ہیں وہ ٹائپنگ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈوبتے ہوئے ٹائٹینک کے موسیقاروائلن پر ساز بجا رہے تھے۔

ہر چیز ٹوٹ کر بکھر چکی ہے

یاسر کا کہنا تھا کہ ”میں مرنے سے پہلے جناح کے متعلق اس کتاب کو مکمل کرنا چاہتا ہوں“۔ میں عام طور پر اسے ڈرامہ کوئین سمجھتی تھی لیکن اس بات پر ایک آنسو میرے گال سے ہوتا ہوا نیچے کو گر گیا۔ یاسر کے دماغ میں پانچ سینٹی میٹر اولیگو ڈینڈرو گلیوما کی تشخیص ہوئی تھی جو کہ گریڈ ٹو کا نان کینسر برین ٹیومر تھا جس کی شروعات 2017 میں ہوئی تھی۔ مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ سٹی سکین میں گالف کی گیند کے برابر کی اس چیز کا مشاہدہ کرنے سے قبل ہی اسے معلوم تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے۔ یاسر کو دوبارہ سے جو وقت ملا ہے وہ اسے کام میں لاتے ہوئے اپنی دستاویز کے ساتھ مصروف ہو گیا ہے۔ وہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی سوانح حیات لکھ رہا ہے۔ میں بھی اب دوبارہ سے اس شخصیت کے بارے میں لکھ رہی ہوں جو کسی اور کی شخصیت کے بارے میں لکھ رہا ہے۔ میری زندگی ایک میم (meme) کی طرح ہو گئی ہے۔

میں نے اپنا اور اس کا آرتھو پیڈک تکیہ اسی دوران درست کیا کیوں کہ میری گردن میں شدید کھنچاؤ ہے جو ممکنہ طور پر ”فائبومیو میالجیا“ ہے جب کہ وہ اپنی ”کرینیوٹومی“ سے صحت یاب ہو رہا ہے۔ میری جانب سے دیکھ بھال نرسنگ کیئر جیسی نہیں لیکن ہم ایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں۔ صورتحال گھمبیر ہے لیکن ایسے حالات میں کوئی کیا توقع کر سکتا ہے:  ”کیا کانز (Cannes)  کے حوالے سے کوئی تحریری سرگزشت؟

میک اے وش فاؤنڈیشن کو کال کرنا

کراچی میں واقع آغا خان اسپتال میں کورونا کی وبا کے دوران ایک فرد کے علاوہ کسی کو رکنے کی اجازت نہیں تھی۔ لہٰذا میں اسپتال میں تنہا ہی موجود تھی جب اسے دوسری بار ٹیومر کے آپریشن کے لئے تھیٹر لے جا رہے تھے۔ ڈاکٹر اطہر انعام ایک ماہر سرجن ہیں جن کی انگلیاں دورانِ آپریشن سر کو کھولنے اور بند کرنے کے ساتھ دماغ کے ٹشوز کو بھی فکس کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ آپریشن کے وسط میں یاسر کے مرنے کے امکانات کو کم سے کم کیا جائے، اور ایسا ہم سرجری کے دوران اس کے ساتھ گفتگو جاری رکھ کر ہی کر سکتے تھے۔ یہ بات بھی یقینی بنائی گئی کہ ڈاکٹر اطہر دماغ کے اہم حصے کو نہیں چھیڑیں گے کیوں کہ بائیں جانب بصری اعصاب ہوتے ہیں۔ یاسر 6 گھنٹے طویل دورانیے کے آپریشن میں بیدار رہا۔ اس دوران مختلف آلات کے ذریعے اس کی کھوپڑی سے ٹیومر کو نکالا جا رہا تھا۔

اس وقت ایسا کوئی کندھا موجود نہیں تھا جس پر میں سر رکھ سکتی۔ میں اسپتال کے کمرے میں سفید پیوما کے چپل پر نظریں جمائے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ سچ مچ سب کچھ ٹوٹ کر بکھر چکا ہے۔ یقیناً آپ جانتے ہوں گے کہ یہ پریشان کن آرتھو پیڈک تکیہ جو کہ کوڑھ کے مریضوں کے لئے ”بینڈ ایڈ“ اور ایک استعارہ ہے۔ یہ خوفناک درد، تکلیف، غم اور گندگی کی علامت ہوتا ہے۔ اس غیظ و غضب کا نہ تو کوئی ذریعہ ہے اور نہ ہی کوئی ٹھکانہ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہم دونوں کو جلا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یاسر میرے ساتھ ہی ٹائپنگ میں مصروف ہے، جیسے بہادری کے ساتھ کسی بے معنی چیز کو معنی دے رہا ہو اور مجھے پہلی دفعہ یہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ویسے کوشش میں کوئی ہرج نہیں۔

درد نہ ہو تو تحریر بھی نہیں لکھی جاتی

کامیابی کے بارے میں سب سے متضاد بات یہ ہے کہ آپ ناکام ہونے والوں سے پوچھے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یاسر نے دونوں ہی کام سرانجام دیے ہیں۔ وہ بری طرح ناکام بھی ہوا اور بھرپور کامیابی بھی حاصل کی۔ یہ بات محض اس پر منحصر ہے کہ آپ اس حوالے سے کس سے پوچھتے ہیں۔ میں اسے ڈیٹ پر لے جانا چاہتی ہوں اور بالآخر اس سے پوچھنا چاہتی ہوں، جو میں نے 1999 میں سان جوز میں واقع ایک سب وے ریستوران میں پہلی بار ڈیٹ کے دوران اس سے نہیں پوچھا تھا کہ ”تم اس طرح کیوں لکھتے ہو جیسے تمہارے پاس وقت کی کمی ہو؟“ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیوں، لیکن اس کا جواب میرے لئے سوال سے زیادہ ڈراؤنا ہے۔ اگر اس چیز کا موت اور ٹیکس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو، یاسر بارش میں کیوں بار بار اپنے سر کو کسی گلک کی طرح کھول دیا کرتا تھا۔ شاید اس لئے کہ وہ خیالات کو اکٹھا کر سکے اور اپنی تحریرکی روانی واپس لا سکے۔

اگر وہ موت، کوما یا مفلوج ہونے سے بچ جاتا ہے تو کچھ بامعنی جملوں کو ایک ساتھ پُرو کر اسے کسی بڑے ناشر کو سونپنے کا انتظام کر سکتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جیت گیا؟ اگر وہ جیت جاتا ہے تو اس نے کیا جیت لیا ہے؟ کیا زندہ رہنا ہی ایک جیت ہے، مکھیوں کی طرح؟ یا موت سے پہلے آخری قیمتی چیز پر فتح حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یہاں تک کہ یاسر کے دشمن بھی اسے نڈر شخص کہتے ہیں کیوں کہ اس کے پاس ایسی ناقابل یقین چیز ہے جو اسے موٹ سے لڑنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اس مقام پر یاسر نے میرے لکھنے میں مداخلت کی اور کہا کہ ”ایسے ہی بلاوجہ لکھنے کا کیا فائدہ؟“ اس دوران ایک سائیڈ پر ہونے کے بعد وہ اپنے غیر چارج شدہ ای سگریٹ کا دھواں نکالتے ہوئے سونے چلا گیا، جس کے بعد میں نے ایک بار پھر سے اس کا تکیہ درست کیا۔

روشنی اور سایہ

یاسر کی اہلیہ ہونے کے ناطے عمومی طور پر میری شخصیت چھپی رہی ہے اور اپنی شناخت قائم کرنے میں مجھے جدوجہد کا سامنا رہا ہے۔ میں ”وائی ایل ایچ“ کی اہلیہ ہوں، میرے تھوڑے سے پیشہ وارانہ حوالے کے ساتھ لوگوں کے لئے اتنا تعارف کافی ہے۔ اس کی تعریفوں اور اس کے خلاف غم و غصے کے درمیان میں مرتعش سی ہوں۔ تاہم، ان دو محوروں کے درمیان بھی ہم نے آپس میں بہت سی چیزیں بانٹی ہیں۔ جیسے بچوں کی انگلیوں کا لمس، انھیں سکول چھوڑنا اور لینے جانا، چھٹیاں، ہر سال ہماری چھت پر یوم پاکستان کی پرچم کشائی کی تقریب، بارش کے دوران سیر، متاثر کرنے والی شاعری، راک کنسرٹس اور مجھے ہمیشہ ہنسانے کی اس کی صلاحیت۔ ایک چیز جو کبھی نہیں بدلی وہ یہ کہ ہم پاکستان سے بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔ ہماری شناخت کا یہی احساس ہے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا۔ وہ ایک آئینی وکیل اور مصنف بن چکا ہے جب کہ میں ایک صاف گو فیمنسٹ بن چکی ہوں۔ ہمارے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اور معاشرتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ساری چیزیں بہتر انداز میں نبھا رہے ہیں۔ درحقیقت وہ کہیں بہتر انداز میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے کیوں کہ اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ ایک سیکولر پاکستان دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ تاریخ پر نظر ثانی چاہتا اور اسے درست کرنے کی تمنا رکھتا ہے اور تاریخی اور سیاسی بیانیے میں کیے جانے والے جوڑ توڑ کے عمل کی بھی درستی چاہتا ہے۔

جناح کا جنون

آپ لامحالہ یاسر سے کابینہ مشن پلان، وائسرائے لوئس ماؤنٹ بیٹن اورگاندھی، نہرو اور جناح کے درمیان ہونے والے مباحثے کے حوالے سے بات نہیں کر سکتے، جب تک آپ درست تاریخوں اور تفصیلات کے حوالے سے نہ جانتے ہوں اور اکثر لوگ یہاں راہ فرار ہی اختیار کریں گے۔ اس کے ساتھ ہونے والی کسی بھی گفتگو سے یہی پتا چلتا ہے کہ یہ محض گہری دلچسپی نہیں بلکہ زندگی بھر کا جنون ہے۔ جناح جن پر اکثر ہندوستان کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، ان کے بارے میں یاسر کے مطالعے کی شروعات Chowk.com سے ہوئی تھی۔ یہ پہلی ویب سائٹ تھی جس نے بھارتیوں اور پاکستانیوں کے مابین حائل دیوار کر گرایا۔  Chowk.comمیں ہمیں اس بات کی آزادی ملی کہ دنیا کی جانب سے پاکستان کی غلط تشریح کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں۔  Chowk.comپاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کے حوالے سے حیرت انگیز پلیٹ فارم تھا۔ تاہم، اس کا اپنا ایک انداز تھا اور یہاں پہلی بار ہمیں سائبر بدمعاشی سے بھی واسطہ پڑا۔ ہمیں اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں اپنا سارا وقت شاید جناح سے معافی مانگنے میں صرف کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ ناقابل قبول لگتا ہے۔ میں اپنے پاکستانی شناخت میں تحفظ کے احساس کے ساتھ بڑی ہوئی ہوں اور میرے والد بھی جناح کو ویسے ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے جیسا کہ یاسر کے دل میں ان کی عزت ہے۔

جب مشکلات آپ کو مواقع فراہم کریں

2012 میں وینگارڈ بکس کی جانب سے یاسر کو کہا گیا کہ وہ ڈیلی ٹائمز میں جناح کے بارے میں شائع ہونے والے اپنے کالمز کو مربوط شکل دے تاکہ بعد میں اس حوالے سے ایک کتاب شائع کی جا سکے۔ نتیجے کے طور پر جناح کے بارے میں یاسر کی پہلی کتاب ”جناح - متھ اینڈ رئیلٹی“ (جناح - افسانہ اور حقیقت) تھی اور پہلی بار اس کا پرجوش کام ایک علمی کام میں تبدیل ہو گیا۔ تاہم، جنون کوئی سستی چیز نہیں ہوتی۔ معاشرتی برابری کے مسائل، رشتوں کا تناؤ اور کانفرنس سرکٹ ایسی چیزیں ہیں جو انتظار نہیں کر سکتیں لیکن ان چیزوں سے یاسر کو کبھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کے نزدیک یہ پاکستان کی عزت کے لئے ایک جنگ جیتنے جیسا تھا۔ اس کے انتخاب کے باعث جو نتائج سامنے آئے ان سب کا سامنا مجھے کرنا پڑا۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ اس کی ہمت بڑھاؤں، طاقتور کے سامنے سچ بات کہنے پر لوگوں کی جانب سے اسے سراہا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوستیاں بھی دھندلاتی گئیں۔

2003 سے 2017 کے درمیان یاسر کا ٹیومر خاموشی کے ساتھ دائیں کان کی لو کی جانب اپنا دباؤ بڑھا رہا تھا اور آہستگی سے بڑھ رہا تھا جیسے غسل خانے کی دیوار پر پھپھوند لگتی ہے۔ ان وجوہات کے سبب گزرنے والے ماہ و سال کے دوران اس کے جنون میں اضافہ ہوا، اضطراب بڑھا، موڈ میں بدلاؤ آیا، شکوک و شبہات اور دماغی خلل کے ساتھ ذہنی تناؤ میں بھی اضافہ ہو۔ وہ ایسا وقت تھا جب مجھے دو طرح کے یاسر کے ساتھ رہنا پڑا، ایک وہ جس نے اپنی ذہنی صحت کی بہتری کے لئے انتھک کوشش کی اور ایک وہ جس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ان کے مابین ہچکولے کھا رہا تھا۔ ایک بے لوث، ماہر مؤرخ اور وکیل جسے ایشیا سوسائٹی اور ہارورڈ لاء سکول کی جانب سے مدعو کیا گیا، یا پھر ایک تنگ کرنے اور بچوں کی ذہنیت والا مرد جو نابالغ تھا اور اس میں خود آگاہی کی کمی تھی۔ کسی بھی دن مجھے ان میں سے کسی ایک رخ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہ اکثر غیر فعال، پریشان کن اور خالی کر دینے والا ہوتا تھا لیکن اس کے ساتھ اطمینان کے واضح لمحات بھی موجود تھے جیسے اتوار کی صبح، جہاز کا سفر اور عید۔

2017 کے دوران کچھ تبدیلی آئی۔ یاسر نے اپنے دماغ میں موجود آوازوں کو کم اور مجھے زیادہ سننا شروع کر دیا۔ تاہم، وہ مجھے اپنے لئے چیزیں ٹھیک کرنے کا کہنے سے باز نہیں آیا لیکن اب بھی لامتناہی خوف اور شبہات کے خلاف واحد ڈھال تحریر کے سانچے میں ڈھالے گئے الفاظ تھے۔

’ہمیں بتائیں آپ نے کیا حاصل کیا‘

2017 میں اپنے دماغ کی پہلی سرجری کے فوراً بعد یاسر کو ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون اور انسانی حقوق کے فیلو کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ وہ اس حوالے سے تفصیلات جاننے کے متمنی تھے کہ کس طرح پاکستان کی اقلیتوں بالخصوص ہدف بنائے جانے والے احمدی برادری کو آئین کے تحت مساوی حقوق مل سکتے ہیں۔ واپس آنے سے قبل دوسری کتاب کے لئے اس کا معاہدہ ہو چکا تھا، جسے اس کے پبلشنگ ایجنٹ نے حتمی شکل بھی دے دی تھی۔

سرجری سے پہلے یاسر کی کوئی سمت متعین نہیں تھی۔ تاہم، سرجری کے بعد لگتا ہے کہ اس کی زندگی میں ہر چیز ترتیب میں آ گئی ہے اور اس کی توجہ بہتر طور پر مبذول ہونے لگی تھی۔ یہ تبدیلی کافی اچانک آئی۔ پہلی سرجری کے بعد اس کی صحتیابی کا عمل بہتر رہا اور پھر وہ فیلو شپ کے لئے روانہ ہوا۔ ”جناح -اے لائف فار پین میکملمن“ کے لئے اپنا پہلا مسودہ بھی مکمل کیا۔

2019 کے اوائل میں یاسر نے مجھے اپنی نئی کتاب کا پہلا مسودہ بھیجا۔ اس کا ہر صفحہ مطالعے کا شوق مزید بڑھاتا تھا، جس کے باعث میں اسے رات جاگ کر پڑھنے پر بھی مجبور ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ مسودے میں سوچ کی وضاحت کے ساتھ دلیل کے ذریعے قائل کیا گیا ہے۔ آخر میں یہ کہوں گی کہ یہ ایسی کتاب تھی جس میں جناح کی ایسے انسان کے طور پر تصویر کشی کی گئی جو دانشمند، فیصلہ ساز اور قوت ارادی کا مالک ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ خامیوں کی بھی نشاندہی کی گئی۔ وہ صبح سویرے کا وقت تھا جب میں یاسر کی کتاب کے آخری صفحے پر پہنچی لیکن میں اس وقت بس مسکرا ہی سکتی تھی۔ سائنس نے یاسر کو یہ اجازت مرحمت کی تھی کہ اس کی بیماری ہی اس کے لئے کام کر جائے۔ تاہم، زیادہ دیر تک نہیں۔

ایسا شخص جو ایڈٹنگ سے نہیں رُک سکتا

جب یاسر”جناح -اے لائف“ کے اپنے پہلے مسودے کی ایڈٹنگ میں مصروف تھا، میں نے اسے ذہنی اضطراری عارضے سے متعلق ایک کتاب ”دی مین ہُو کڈنٹ سٹاپ“ خرید کر دی۔ ایڈٹنگ کے دوران یاسر کے ذہن میں لاکھوں امتزاج آتے ہیں اور وہ خود کو ردو بدل سے نہیں روک سکتا۔ نہ رکنے کا مطلب یہ ہے کہ انواع و اقسام چیزوں کا وجود میں آنا۔ مثال کے طور پر جیسے سیروٹونن (خون میں پایا جانے والا قلمی مادہ) کی سطح میں کوئی مسئلہ ہے تو یہ اضطراب کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے کسی تیز رفتار فراری کے ساتھ کسی شاہراہ پر تیزی سے سفر طے کر رہے ہوں۔ شاید یہ کتاب کبھی مکمل نہ ہو سکتی اگر یاسر مجھے کال نہ کرتا اور یہ نہ کہتا کہ ”وہ مزید اس پر کام نہیں کر سکتا“۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کتاب اشاعت کے مراحل طے کرے کیوں کہ کتاب میں وہ ترامیم نہیں کر سکا تھا جو وہ شدت سے کرنے کا متمنی تھا۔ جناح کے حوالے سے سوالوں نے اس کے دماغ کو گھما کر رکھ دیا تھا۔ وہ اس بات پر مسلسل اصرار کرتا رہا کہ اگر یہ کتاب شائع ہوئی تو کچھ نہ کچھ غلط ہو جائے گا۔ اور ایسا ہوا۔

اس کا ٹیومر واپس آ گیا تھا، جب ہم اپنے خوف کو زائل کرنے یا اس کی تصدیق کرنے کے لئے ایک اور ایم آر آئی رپورٹ کا انتظار کر رہے تھے تو جیسے دنیا ہی جہنم بن گئی تھی۔

کورونا کی وبا کے دوران اشاعت

جب آپ کو دوسری بار بیداری کی حالت میں دماغ کی سرجری کا سامنا کرنا پڑے تو آپ محض یہی کر سکتے ہیں کہ اپنے آپ کو پر سکون رکھنے کی کوشش کریں۔ اس کے برعکس یاسر نے یہ خبر سننے کے بعد مزید کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ کورونا کی پاکستان آمد اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے نیشنل ٹیلی وژن پر اس اعتراف کے بعد یہ عام نزلہ زکام سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ہم نے سرجیکل ٹیم اور آغا خان اسپتال کے ٹیومر بورڈ سے درخواست کی کہ دوسری سرجری کو ملتوی کر دیا جائے۔ اس وقت کی کیفیت کافی جذباتی تھی جب کہ آنے جانے میں بھی کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہم کس طرح اسلام آباد سے کراچی تک چند ہزار کلو میٹر کا سفر طے کریں گے کیوں کہ پروازوں کو معطل کر دیا گیا تھا۔ ہم نرسنگ کی خدمات اور گھر والوں کی مدد کے بغیر کس طرح صحت کی بحالی کے عمل کو ممکن بنائیں گے۔ کورونا کی وبائی صورتحال کے پیش نظر خاندان اور دوستوں کی عدم موجودگی میں کس طرح میں اکیلے اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھاؤں گی؟ یاسر کی قوت مدافعت کافی کمزور ہوگی اور دوسری سرجری ویسے ہی کافی خطرناک ہوتی ہے، اگر وہ کوما میں چلا گیا یا اللہ نہ کرے اس کی موت واقع ہو گئی تو۔ آخر کار میں نے سفری معاملات اور اس کی سرجری کے حوالے سے فیصلہ کر لیا اور ساری چیزیں درست ڈگر پر آ گئیں، سوائے اس کے کہ میرے خدشات بڑھ رہے تھے جیسے میرے گلے میں کوئی زہریلی چیز اٹک گئی ہو۔ کتاب کا وہ پروجیکٹ جو ہمارا خواب ہے، اس کا کیا ہوگا۔ جب زندگی اچانک سے سخت اور مختصر لگنے لگے تو آپ پیچھے کوئی ایسی چیز چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں جو نظر آتی رہے۔ یاسر کے حوالے سے یہ بات زیاہ واضح تھی۔

تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت

میں نے دوسری سرجری میں درپیش خطرات کے حوالے سے یاسر کے ایجنٹ کو خط لکھ دیا تھا۔ تاہم، اس کے بعد ہمیں کیا اقدامات کرنے ہیں اس پر گفتگو آسان نہیں تھی۔ اگر یاسر کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس صورتحال کے حوالے سے ہمیں حتمی پروف ریڈنگ، سرورق اور معاہدے کے لئے کسی دوسرے شخص کو نامزد کرنے کے حوالے سے بات کرنا پڑی۔ ایک نیا معاہدہ ترتیب دیا گیا اور یاسر کے نہ ہونے کی صورت میں مجھے فیصلہ کرنے کے لئے نامزد کیا گیا۔ سرجری کی تاریخ قریب آ رہی تھی، اس لئے ہمیں تمام چیزیں جنگی بنیادوں پر انجام دینا پڑیں۔ ہم نے اسپتال میں کانسنٹ فارم (راضی نامہ فارم) پر دستخط کیے اور آئندہ کے لئے تیار ہو گئے۔

انھوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ یاسر نے بہت چیخ و پکار کی تھی۔ نرسوں اور اٹینڈنٹ کی ایک ٹیم اسے سنبھال رہی تھی، وہ یاسر کو مضبوط رہنے اور تکلیف برداشت کرنے کے لئے حوصلہ دے رہے تھے اور وہ ان سے سرجری روکنے کی التجا کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ وہ اس کا سر دوبارہ سے سی کر اسے میرے پاس بھیج دیں۔ مجھے سرجری کے دوران آپریشن تھیٹر سے ایک کام موصول ہوئی، وہ یاسر کی کال تھی۔ میرا سر کھلا ہوا ہے ایشی اور مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے۔ میں نے ایک سسکی بھری۔ یاسر، یہ تکلیف ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔ سرجری اپنے مطلوبہ وقت سے کہیں زیادہ دیر میں مکمل ہوئی۔ میں اکیلی اس کمرے میں اس کی زندگی کے لئے دعا مانگ رہی تھی۔ مجھ پر غنودگی طاری ہو رہی تھی اور میں بے ترتیب سی ہو رہی تھی۔ مجھے بالی وڈ کے ان تمام عجیب گانوں کا خیال آ رہا تھا جو اس نے مجھے بھیجے تھے اور پھر آپریٹنگ روم سے میں نے ایک آواز سنی۔ ”آپ کا مریض ریکوری روم میں موجود ہے۔‘‘

آپریشن کے بعد کا ڈراؤنا خواب

کراچی میں اسپتال سے گھر واپس آنے کے تیسرے دن یاسر کو ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے آئی سی یو میں داخل کرنا پڑا۔ مجھے خود اس کے وزن کا بار اٹھا کر اسے کار تک لے جانا پڑا جب کہ اسے کھینچ کر نجی وارڈ میں منتقل بھی کرنا پڑا، شاید بیمار شخص کا وزن کسی وزنی پتھر جیسا ہو جاتا ہے۔ وہ پھر سے ایک بچے جیسا ہو گیا تھا کیوں کہ ڈی ہائیڈریشن کے باعث جسم میں موجود الیکٹرولائٹ میں عدم توازن پیدا ہو گیا تھا۔

وہ میرے یاسر جیسا نہیں تھا لیکن صرف اس وجہ سے کہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت کوئی آپ کی مدد نہیں کر سکتا تو اس صورتحال میں جراتمندی بھی آپ کے کسی کام نہیں آتی۔ یہ سب میرے لئے ناقابل برداشت تھا اور میرے آنسو رواں تھے کیوں کہ ذہنی تناؤ نے مجھے توڑ دیا تھا۔ کراچی میں ہم صرف دو ہی لوگ تھے جو اسے واپس صحتمندی کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ درد، الٹی، درد، الٹی، یہ نہ ختم ہونے والا منحوس چکر جاری رہا۔ آخر کار میں نے اسے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر کار میں ڈالا اور آغا خان اسپتال کے نجی وارڈ میں لے آئی۔ وہاں موجود نرسوں نے بعد میں اس بات کا اعتراف کیا کہ آئی سی یو میں داخل ہونے کے وجہ سے ہی اس کی جان بچ پائی۔

آئی سی یو میں اس کی حالت سنبھلنے کے بعد ہم دونوں نے اپنی انفرادی یادداشتوں کا تبادلہ کیا جو ہمارے لئے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھے۔

میں: میں نے یورپ میں تمہیں ایک باڈی بیگ میں چھوڑا تھا۔

وہ: میں نے کیمو اور ریڈیو تھراپی میں تاخیر کی، میں ایک سال کے دوران دماغ کے ناسور کے باعث مردہ ہو گیا ہوں۔

میں: میرے پاس جو چیز باقی بچی تھی وہ تمھارے واٹس ایپ وائس نوٹس تھے۔

وہ: میں نے خواب دیکھا تھا کہ جناح پر لکھی گئی کتاب شائع نہیں ہو سکی۔

گھر واپسی

20 مئی 2020 کو ہم دونوں کی اپنے گھر اسلام آباد واپسی ہوئی۔ بالآخر ”جناح-اے لائف“ شائع ہو چکی ہے۔ یاسر کے ایجنٹ نے ایک ویڈیو بھیجی ہے کہ یہ کیسی لگتی ہے اور میں اس میں کاغذ کی خوشبو سونگھ سکتی ہوں۔ یہ ایک شروعات کی طرح محسوس ہو رہا ہے۔ اب میرے ذہن میں مزید کوئی اس طرح کے سوالات نہیں ہیں کہ کوئی کیوں اپنا سارا وقت لکھنے میں اس طرح گزارتا ہے جیسے کہ اس کے پاس وقت کی کمی ہو۔ ہارنے والے شخص کا انٹرویو کرنے کے لئے میرے پاس سوالات نہیں ہیں کیوں کہ میں جیتنے کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔ یہ محض یاسر کا جنون نہیں تھا جس نے اس کتاب کو اختتام تک پہنچایا بلکہ عالمی وبائی بیماری کے دوران بھی اس نے اپنے خوف تک رسائی حاصل کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا۔ اس نے سچائی کے لئے ہمیشہ الفاظ، قانون اور تجسس کا انتخاب کیا ہے۔ آج ”جناح -اے لائف“ کا مصنف دماغ کے عارضی ٹیومر کو شکست دے چکا ہے۔ اس مصنف کے زورِ قلم نے جناح کو دوبارہ سے زندہ کر دیا ہے۔

پین میکملن کا ایڈیشن یاسر کی چالیسویں سالگرہ کے چند دنوں بعد 5 جون 2020 کو شائع ہوا۔

مصنفہ Women's Advancement Hub کی بانی ممبران میں سے ہیں۔