Get Alerts

میرے شوہر کی ٹیومر سے جنگ، جس سے وہ فاتح لوٹے

میرے شوہر کی ٹیومر سے جنگ، جس سے وہ فاتح لوٹے
ادارتی پیغام: یاسر لطیف ہمدانی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت لکھاری ہیں جن کی پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے محبت سب کے علم میں ہے۔ اب سے تقریباً ایک سال قبل ہمیں یہ محسوس ہوا کہ ہم شاید ایک کثرت پسندانہ پاکستان کیلئے کاوش کرنے والی اس آواز کو کھو دیں گے، کیونکہ ایک دن  یاسر اچانک سے بیہوش ہوا اور بعد میں طبی رپورٹس سے یہ بات پتہ چلی کہ اس کے دماغ میں رسولی (برین ٹیومر) ہے۔ اس مضمون میں یاسر کی بیوی عائشہ سروری جو کہ خود بھی ایک لکھاری اور ابلاغ کے شعبے کی ماہر ہیں نے ان تکلیف دہ بیتے ہوئے دنوں کا تذکرہ کیا ہے۔ 21 ستمبر 2017 کو یاسر کو جم میں ورزش کرنے کے دوران غشی کا پہلا دورہ پڑا تھا۔ عائشہ کو یاد ہے کہ ان کے اور ان کے خاندان کیلئے یاسر کو اس بیماری سے لڑتا دیکھنا کس قدر تکلیف دہ امر تھا۔ یاسر ایک زبردست سروائیور ہے اور عاِشہ بھی، جو یہ محبت، مصائب اور ہمت پر مبنی کہانی سب کے ساتھ شئیر کر رہی ہے۔

محبت کا سب سے مشکل مرحلہ چاہنے والے کو جاتے ہوئے دیکھنا ہے۔ میں اپنے خاوند یاسر لطیف ہمدانی سے 1999 میں ملی تھی۔ میری عمر اس وقت 19 برس تھی اور میں کافی ایتھلیٹ قسم کی ٹین ایجر تھی۔ یاسر کو میرا جوگنگ کرتے ہوئے مختلف بس سٹاپوں پر اس سے ملنا اچھا لگتا تھا۔ میری بالوں کی پونی کیلیفیورنیا کی ہواؤں میں لہراتی تھی جہاں سے میں گریجیوشن کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ یاسر اکثر میری فیملی سے ملاقات کرنے آ جاتا تھا اور میں اور یاسر پاکستان واپس جا کر اکثر دنیا کو تبدیل کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ ہمیں پاکستان اور اس سے منسلک ہر شے سے پیار تھا اور شاید ہم دونوں کی اس مشترک قدر نے ہمیں ہمیشہ ایک ساتھ اور دوستی کے رشتے میں باندھے رکھا۔ وعدے کرنا انتہائی آسان کام ہوتا ہے۔ وعدے ایک ساتھ جینے کے، دکھ سکھ نبھانے کے اور بیماری اور تندرستی کو ایک ساتھ گزارنے کے۔ تمام وعدے جھوٹ ہوتے ہیں۔ فلسفی کہتے ہیں کہ محبت ہر موسم خواہ وہ گرم ہو یا سرد خزاں ہو یا بہار انجیر کا پھل ہی چاہتی ہے۔ جبکہ حقیقتاً زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔

یاسر نے کہا کہ یہ بہت عجیب اور مختلف کیفیت ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو گیا اور اس کے جسم پر  کپکپی کی کیفیت طاری ہو گئی۔



وہ لوگ جن سے آپ منسلک ہوتے ہیں اور محبت کرتے ہیں وہ آپ سے مختلف ہوتے ہیں اور ان کا جسم بھی آپ سے مختلف ہوتا ہے۔ کیا میں یہ سوچ سکتی تھی کہ میں اور یاسر اسلام آباد میں ایک ہوٹل کے جم میں ورزش کر رہے ہوں گے، میرے بالوں کی پونی لہرا رہی ہو گی لیکن کچھ ہی دیر میں اچانک یاسر فرش پر گر جائے گا؟

یہ 21 ستمبر 2017 کا واقعہ ہے۔ میں نے یاسر کو زمین پر گرا دیکھا تو اس کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یاسر کیا ہوا ہے؟ یاسر کے منہ سے بس اتنا نکلا، ’یہ کچھ اور ہے‘۔ اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو گیا اور اس کے جسم پر کپکپی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کی آنکھیں اوپر کی جانب مڑ گئیں۔ اس کا پورا جسم بری طرح لرز رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں اندر کی جانب مڑ چکی تھیں۔ یہ سب تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ اس کیفیت سے کبھی باہر نہیں آ پائے گا۔ میں چلائی کہ کوئی ایمبولینس منگواؤ۔ اور یاسر کو دلاسہ دینے کیلئے اس سے کہنے لگی میں تمہارے ساتھ ہوں۔ لیکن میں اس کے ساتھ نہیں تھی۔ شاید میں اس سے بہت دور خوف کی کسی کیفیت میں مقید تھی۔

جب ہم اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں پہنچے تو ڈاکٹرز نے ابتدائی معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ آپ یاسر کو گھر لے جائیں کیونکہ اس کی ای سی جی کی رپورٹ بالکل ٹھیک ہے۔ جب میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ یاسر کس طرح اچانک اس نیم غشی کے دورے کا شکار ہو گیا تھا تو ڈاکٹر نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، شاید اس نے زیادہ ورزش کر لی تھی جس کی وجہ سے اس کی طبیعت بگڑ گئی۔

میں نے اپنی چھٹی حس پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی ایسے آدمی سے بات کرنے کا سوچا جو میری بات کو سمجھ سکے۔ خوش قسمتی سے میرے  بھائی عارف سروری جو کہ ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی کے ادوایات کےشعبہ کے سربراہ ہیں، نے پہلی ہی رنگ پر میری کال وصول کر لی۔ انہوں نے پہلے مجھے اپنے آپ کو نارمل رکھنے کا کہا۔ پھر انہوں نے مجھے کہا کہ یاسر کو ہسپتال میں داخل کروا کر رات میں ہی اس کے جسم کے مختلف طبی ٹیسٹ کرواؤ۔ انہوں نے یاسر کا سی ٹی سکین کروانے کا مشورہ بھی دیا۔ میں نے اپنی دونوں بیٹیوں، جو کہ اس وقت 12 اور 11 برس کی تھیں کو فون کیا اور بتایا کہ میں اور یاسر کسی کام کے سلسلے میں مصروف ییں اس لئے رات گھر نہیں آ پائیں گے۔ پھر میں نے اپنی ساس کو فون کر کے یاسر کی حالت کے بارے میں آگاہ کیا۔ چونکہ میری ساس خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں تو انہوں نے بھی یاسر کا معائنہ کیا اور مختلف ٹیست کیے۔

اس رات میں نے اور یاسر نے ہسپتال کا ایک پرائیوٹ روم ایک عمر رسیدہ جوڑے کے ساتھ شئیر کیا جو بیماری سے نبرد آزما تھا۔ انہیں دیکھ کر مجھے خیال آ ریا تھا کہ کیا میں اور یاسر بھی اس جوڑے کی مانند لمبی عمر جی پائیں گے؟ یاسر دورے سے تو سنبھل چکا تھا لیکن اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اس حالت میں چند منٹ نہیں بلکہ کئی ماہ سے ہے۔ اس کی زبان مکمل طور پر نمک کی مانند سفید ہو چکی تھی اور وہ یکایک اپنی عمر سے کم سے کم پانچ سال بڑا دکھائی دے رہا تھا۔ جب وہ اپنے بازوؤں کی رگوں  میں ڈرپس لگوائے ہوئے سویا تو میں جانتی تھی کہ اسے ڈی ہائیڈریشن یا تھکاوٹ نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ کسی قسم کا عام سا دورا تھا۔ شاید یاسر نے ٹھیک کہا تھا۔ ’یہ کچھ اور ہے‘۔

میں یہ اس لئے بھی جانتی تھی کیونکہ 1999 میں یاسر سے ملاقات کے بعد میں نے اسے ایک ذہین شخص جو کہ مثبت سوچ اور تعمیری اقدار کا حامل تھا سے اسے ایک انتہائی ذہین لیکن  قدرے منفی رویے والی شخصیت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ رکھا تھا۔ اس کی انٹرنیٹ استعمال کرنے کی لت نے اسے کافی جذباتی اور جنونی  بنا ڈالا تھا۔ اسی وجہ سے وہ جب بھی کچھ لکھتا اور اس کا سیاسی اور تاریخی طور پر دفاع کرنے کی کوشش کرتا تو اسے آن لائن ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اسے پاگل، نفسیاتی مریض، خبطی، بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار شخص اور جنونی کہا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے کو چونکہ ہر بات کا قصور وار عورت کو ٹھہرانے کا جنون ہے، اس لئے مجھے بھی اکثر پیغامات ملتے رہتے تھے کہ اپنے میاں کو سنبھالو۔ مجھے بھی وہی طعنے دیے جاتے تھے جو یاسر کو سننے کو ملتے تھے۔ اکثر لوگوں کو یاسر کے لکھے گئے خیالات کے پس منظر اور منطق کا فہم نہیں ہو پاتھا تھا جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک وہ خود جانتے بوجھتے آن لان ٹرولنگ اور ہراسانی کا نشانہ بننا پسند کرتا تھا۔

اس رات ہسپتال میں جب میں اسے سوتے ہوئے دیکھ رہی تھی تو میرے کانوں میں اس کے کہے الفاظ گونج رہے تھے۔ ’یہ کچھ اور ہے‘۔ میں جانتی تھی اس کی چھٹی حس ایسے معاملات کو بھانپنے میں بہت تیز تھی۔



انٹرنیٹ کی دنیا سے باہر عملی زندگی میں یاسر ایک کافی کامیاب وکیل تھا، جو پاکستان کے بانی محمد علی جناحؒ پر ایک کتاب بھی تحریر کر چکا تھا، صحت اور فٹنس سے جسے جنون کی حد تک لگاؤ تھا جبکہ وہ اپنی تحاریر کے ذریعے رائے عامہ بنانے کا کام بھی سرانجام دیتا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ یاسر مکمل درست فیصلہ کرنے میں ناکام بھی ہو جاتا تھا لیکن اس نے مجھے، میرے بچوں اور اپنی ماں کو ہمیشہ ہر چیز سے بڑھ کر چاہا۔ میرا خاندان بھی اس کی چاہت کا مرکز تھا۔ روٹگرز یونیورسٹی کے میرے اور اس کے سابقہ کلاس فیلوز بھی ہمارے سوشل سرکل کا حصہ تھے۔ یہ اچھا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ وقت اور لمحات ایسے بھی آتے تھے جب یہ سب ایسا نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ غصے میں آتا تھا تو بہت غلط برتاؤ کرنے لگتا اور اس سے اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچانے کا مرتکب ہوتا تھا۔

اکثر مجھے پھر اسے سمجھا بجھا کر واپس نارمل روٹین کی جانب لانا پڑتا تھا۔

اس رات ہسپتال میں جب میں اسے سوتے ہوئے دیکھ رہی تھی تو میرے کانوں میں اس کے کہے الفاظ گونج رہے تھے۔ ’یہ کچھ اور ہے‘۔ میں جانتی تھی اس کی چھٹی حس ایسے معاملات کو بھانپنے میں بہت تیز تھی۔ جو لوگ یاسر کو جانتے تھے انہیں اس کی اس صلاحیت کے بارے میں اچھی طرح سے علم تھا۔ سی ٹی سکین کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی اگلے دن سہ پہر کو اس بات کا پتہ چل گیا کہ یاسر کے دماغ میں 4 سینٹی میٹر بڑی رسولی (ٹیومر) موجود تھی۔ میری بڑی بیٹی کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ رو پڑی۔ وہ بہت سالوں بعد رو رہی تھی، کیونکہ وہ ہمیشہ سے مضبوط والی بچی تھی۔ کہنے لگی، "لیکن بابا کے تو بہت سے خواب ہیں"۔ میری چھوٹی بیٹی زارو قطار رو رہی تھی کیونکہ وہ اپنے والد کی لاڈلی تھی جسے ہمیشہ اپنے باپ سے بے پناہ پیار ملتا رہا تھا۔

میری دوست نادیہ ناوی والا میرے ساتھ ہسپتال میں موجود تھی۔ جب میں سی ٹی سکین کی رپورٹ تھامے کپکپاتے ہاتھوں سے اس پر یاسر کے دماغ میں موجود رسولی کا عکس دیکھ رہی تھی تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بولی کہ "رپورٹ میں لفظ ماس کے آگے ایک سوالیہ نشان موجود ہے، اس لئے انتظار کرو شاید یہ رسولی نہ ہو۔" میں نے نادیہ کا ہاتھ دبایا اور ایم آر آئی کے رزلٹ کا انتظار کرنے لگی۔ پھر اس سے بھی ثابت ہو گیا کہ یہ برین ٹیومر ہی تھا۔

اگلے دن میری کسی وزیر سے ایک کام کے سلسلے میں میٹنگ تھی۔ میں نے اس میٹنگ میں شرکت کی۔ میں اس وقت دا لٹل مرمیڈ کی ارسلا لگ رہی تھی۔ میری ایک دوست منیزے جہانگیر بھی اس میٹنگ میں موجود تھی۔ اس نے مجھے آغا خان ہسپتال کراچی کے ڈاکٹر اطہر انعام سے رابطہ کرنے کا کہا۔ میں نے اسے بتایا کہ یاسر کی ماہر نفسیات معالج ڈاکٹر عاصمہ ہمایوں نے بھی ڈاکٹر اطہر انعام سے مشورہ لینے کا کہا تھا۔ جس کسی کو بھی یاسر کی حالت کا پتہ لگا تقریباً ان سب نے ہی ڈاکٹر اطہر انعام کی ماہرانہ صلاحیتوں اور قابلیت کہ وجہ سے انہی سے یاسر کا آپریشن کروانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

وہ لوگ جو ہمیں ناپسند کرتے تھے انہیں خوشیاں منانے اور ہم پر تنقید کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ ہمیں ایسے لوگ دن رات یہ بتاتے تھے کہ یاسر کی بیماری کی وجہ ہمارے گناہ اور ہمارا روایتی سوچ سے انحراف کرنا تھا اور ہم چونکہ برے لوگ ہیں اس لئے ہمارا یہی انجام ہونا چاہیے۔



یاسر کی صحت سے متعلق حقائق نہ چھپانے کے ہمارے فیصلے سے ہمیں دو بڑے فائدے اور ایک نقصان ہوا۔ ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اس کی وجہ سے  ڈاکٹر اطہر انعام، ڈاکٹر عاصمہ ہمایوں اور ڈاکٹر عارف سروری پر مشتمل ایک ٹرائیکا بن گیا جو کہ یاسر کی زندگی بچانے کا مؤجب بنا۔ ان لوگوں کی نگہداشت اور مشوروں کی وجہ سے ہم نے تمام اہم فیصلے وقت پر کیے اور یاسر کے علاج کو درست سمت میں متعین رکھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں دوستوں، عزیزوں رشتہ داروں حتیٰ کہ اجنبیوں کے بھی حوصلہ بڑھانے اور دعاؤں کے پیغامات وصول ہوئے۔ البتہ اس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ہمیں ناپسند کرتے تھے انہیں خوشیاں منانے اور ہم پر تنقید کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا۔

ہمیں ایسے لوگ دن رات یہ بتاتے تھے کہ یاسر کی بیماری کی وجہ ہمارے گناہ اور ہمارا روایتی سوچ سے انحراف کرنا تھا اور ہم چونکہ برے لوگ ہیں اس لئے ہمارا یہی انجام ہونا چاہیے۔

آپ کے خاوند کو برین ٹیومر ہے، اس حقیقت کو جاننے کے بعد آپ کے لئے بہت کچھ بدل جاتا ہے لیکن شاید جس انسان کے دماغ میں یہ ٹیومر ہوتا ہے اس کی تو پوری کائنات ہی بدل جاتی ہے۔ یاسر نے البتہ کسی قسم کے خوف کا اظہار نہیں کیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس بات سے لاپرواہ تھا کہ اسے مزید زندگی میسر آتی ہے یا پھر موت کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔ اس نے اپنے معمول کے کام جاری رکھے۔ وہ ٹی وی پروگراموں میں شرکت کرتا، آرٹیکل تحریر کرتا اور ٹویٹر پر ہمیشہ کی مانند حقائق اور بیانیوں کو لے کر بحث و تکرار میں مصروف رہتا۔

یاسر کی ٹویٹر بائیو پر ایک زمانے میں ’جناح کا سپاہی‘ درج ہوتا تھا۔ شاید تین ڈاکٹروں کے علاوہ جناح وہ چوتھی شخصیت ہیں جو اس کی جان بچانے میں معاون ثابت ہوئے۔ ادویات، سرجری اور نفسیاتی علاج معالجے کی افادیت اپنی جگہ لیکن سائنس کہتی ہے کہ انسان کے شفایابی کی جانب مائل ہونے کے عمل میں کوئی خاص مقصد، کسی بڑے نظریے یا مشن کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔



یاسر نے شاید حوصلہ اپنے آئیڈیل سے مستعار لیا تھا۔ برین ٹیومر سے متاثرہ ان سارے دنوں میں جو کہ ڈاکٹر اطہر انعام کے مطابق اس کی زندگی کے پندرہ سالوں پر محیط تھے، یاسر کی زندگی میں ایک ہی شخصیت تھی جس نے اسے حوصلہ مند رکھا اور وہ شخصیت تھی محمد علی جناح۔ جہاں ہمارے خاندان میں یاسر کے جناح کے ساتھ محبت کے جنون کا اکثر مذاق اڑایا جاتا تھا وہیں یہ بھی حقیقت تھی کہ اس محبت کے رشتے نے اس کو بکھرنے سے بچاتے ہوئے حوصلہ بخشا۔ یاسر کی ٹویٹر بائیو پر ایک زمانے میں ’جناح کا سپاہی‘ درج ہوتا تھا۔ شاید تین ڈاکٹروں کے علاوہ جناح وہ چوتھی شخصیت ہیں جو اس کی جان بچانے میں معاون ثابت ہوئے۔ ادویات، سرجری اور نفسیاتی علاج معالجے کی افادیت اپنی جگہ لیکن سائنس کہتی ہے کہ انسان کے شفایابی کی جانب مائل ہونے کے عمل میں کوئی خاص مقصد، کسی بڑے نظریے یا مشن کی بھی اپنی اہمیت  ہوتی ہے۔

یاسر جو کہ محض ایک سماجی تعلق کی بنا پر رسمی سا مسلمان تھا اس کیلئے حوصلے کا مؤجب محمد علی جناح کی شخصیت تھی جس نے اپنی زندگی کے آخری روز تک اس ملک کو جو کہ کبھی ہندوستان کا حصہ تھا، اقلیتوں سے محبت کرنے والا ملک بنانے کی انتھک کوشش کی۔

ڈاکٹر اطہر انعام ایک کانفرنس کے سلسلے میں بیرون ملک تھے اور ہمیں تقریباً ایک ماہ تک ان کا انتظار کرنا تھا۔ اس دوران یاسر جو کہ برین ٹیومر کی بیماری سے نبرد آزما تھا، نے فیض احمد فیض کے لکھے نغموں، کتابوں اور تاریخ کا مطالعہ جاری رکھا۔ اس دوران آغا خان ہسپتال کی میڈیکل ٹیم کی ای میل پر بھیجی گئی رپورٹ کے مطابق اسے کسی بھی لمحے دل کا دورہ، فالج کے حملے یا اچانک موت کا سامنا کرنے کے خطرات لاحق تھے۔

اس مہینے کی ہر صبح جب میں آنکھیں کھولتی تھی تو انہیں دوبارہ بند کر کے اپنے دھڑکتے دل کو یہ سمجھاتی تھی کہ ہمت کرو، کیونکہ مجھے ایک پراجیکٹ مینیجر کی طرح صورتحال کو قابو میں لانا تھا۔ میری پراجیکٹ مینیجمنٹ کی اپلیکیشن میں تقریباً 60 مختلف کرنے والے کاموں کی فہرست موجود تھی۔ ان میں اسلام آباد سے کراچی کے ہوائی سفر کے ٹکٹوں کی خرید، لاجسٹکس کے انتظامات، ایک تنگ کرنے والا لڑکا، ایک مہینے کے راشن کا انتظام اور کچھ دیگر کام جیسا کہ میری بہن فائزہ سمناکی کو آسٹریلیا سے بلا کر تین ہفتوں کیلئے اپنے بچوں کی نگہداشت پر قائل کرنا شامل تھے۔ جب میری بہن  اپنی زندگی کے معمولات ترک کر کے پاکستان آئی تو مجھے اس وقت ایک بڑے خاندان اور میل ملاپ کے بڑے دائرے کی افادیت کا احساس ہوا۔ان تمام افراد نے مجھے حوصلہ بخشنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ جب میری بہن میرے گھر پہنچ گئی تو میں یاسر اور اپنی ساس کے ساتھ یاسر کے برین ٹیومر کا آپریشن کروانے کراچی روانہ ہو گئی۔

جہاز پر سفر کے دوران مرے بال  بری طرح بکھرے ہوئے تھے۔ یاسر نے میرا ہاتھ تھاما۔ اور مجھے کہا کہ وعدہ کرو۔ اگر میں آپریشن ٹیبل پر مر گیا، تو تم مجھے جناح کے شہر میں ہی دفناؤ گی۔ میں نے بادلوں کی جانب نگاہ دوڑائی اور پھر یاسر کی جانب دیکھتے ہوئے اثبات میں سر کو ہلا دیا۔

تمام وعدے جھوٹے ہوتے ہیں لیکن میں اس وعدے کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ جس دن ہم نے یاسر کو ہسپتال میں داخل کروایا، اس روز میں، میری ساس اور یاسر آپس میں لڑ پڑے۔ ہماری ٹینشن بتدریج بڑھ رہی تھی اور میری ساس اس تناظر میں اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرنے میں بالکل حق بجانب تھیں۔ میں نے بمشکل صوتحال کو نارمل بناتے ہوئے سب کو پرسکون کیا۔ ہم آغا خان ہسپتال کے پرائیوٹ وارڈ میں شفٹ ہو گئے ۔ پانی پیا اور ٹی وی دیکھنے میں مگن ہو گئے۔

اندر ہی اندر ہم سب محض اگلے دن کا انتظار کر رہے تھے۔ ڈاکٹر اطہر انعام سے ملاقات سے قبل ہمارے ذہنوں میں سوالوں کی لمبی چوڑی فہرست موجود تھی جو ہم نے آخر کیلئے چھوڑ دی تھی۔ ڈاکٹر انعام نے تھری ڈی سکرین پر ٹیومر کے بارے میں ہمیں آگاہی دینے کیلئے مزاح کا استعمال کیا اور ہمیں قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ اسے شکست دے پانا ممکن ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یاسر دوران آپریشن اور اس کے بعد کس تکلیف سے گزرے گا اور یہ بھی کہا کہ وہ اس طرح کے لاتعداد آپریشن کر چکے ہیں، اس لئے امید اچھی رکھنی چاہیے۔ ہمارے پاس اس کے بعد پوچھنے کو کوئی سوال نہیں بچا تھا۔

آپریشن کے روز میں نے یاسر سے کہا، بس آج مجھے مایوس مت کرنا اور زندہ رہ جانا۔ میں بدلے میں تمہاری ساری زندگی خوشیوں سے بھر دوں گی۔



یاسر کا آپریشن سے پہلے نفسیاتی معائنہ کیا گیا تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آیا وہ 6 گھنٹوں پر محیط اس آپریشن کو برداشت کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار تھا یا نہیں۔ اس آپریشن میں یاسر کی کھوپڑی کو چیر کر ٹیومر کو نکالنا مقصود تھا اور یاسر کو یہ سب ہوش میں ہی دیکھنا تھا۔ جب میں نے یاسر سے پوچھا کہ کیا وہ یہ سب جھیل پائے گا تو اس نے جواب دیا کہ وہ اپنے زندہ رہنے کے امکانات کو زیادہ کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔

آپریشن کے روز میں نے یاسر سے کہا، بس آج مجھے مایوس مت کرنا اور زندہ رہ جانا۔ میں بدلے میں تمہاری ساری زندگی خوشیوں سے بھر دوں گی۔ سوچتی ہوں، وعدے نہ ہوتے تو ہم سب کیا کرتے؟

18 اکتوبر 2017 کو یاسر کو انتہائی نازک حالت میں آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ آپریشن سے پہلے پیشاب کی نالی لگانے کا عمل غلطی کا شکار ہوا اور یاسر شدید تکلیف میں مبتلا ہو گیا۔ اس تکلیف کے باعث وہ انتہائی لاغر دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے آخری بات جو اس سے کہی تھی وہ یہ تھی کہ، بس آج کا دن مجھے دے دو۔

آپریشن تھیٹر میں اس کی انیستھیزیا کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ نے اس سے پرسکون گفتگو کا عمل شروع کیا اور اس دوران اس کی رگوں میں تقریباً 12 ٹیکے لگائے تاکہ اس کی کھوپڑی کو سن کیا جا سکے۔ مجھے بس آج کے دن زندہ رکھیں، یاسر نے ڈاکٹرز سے کہا، کیونکہ آج میری بڑی بیٹی کی سالگرہ ہے اور میں آج کے دن مر کر اپنی بیٹی کی ساری زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا۔

یاسر کہتا ہے کہ آپریشن کے دوران جو تکلیف کی شدت اسے محسوس ہوئی، وہ کسی بھی قسم کی شدید ترین تکلیف سے بھی زیادہ تھی۔ یاسر ویسے بھی ایک لاڈلا بیٹا، خاوند اور باپ تھا۔ اس کی انگلیاں کسی آرٹسٹ کی مانند نرم تھیں۔ اینیستھیزیا کے انجیکشنز دینے کے عمل کے دوران اس نے جو تکلیف سہی وہ ہمارے لئے بھی تکلیف دہ تھی۔ جب اس کی کھوپڑی کے اگلے حصے کو چیرا جا رہا تھا تو یاسر کے بقول وہ وقت ایک ناقابل بیان تکلیف تھی اور اس کے سر پر اس قدر بھاری بوجھ تھا کہ اسے لگتا تھا یہ اسے ساتھ لے کر ہی جائے گا۔

یاسر کو آپریشن تھیٹر سے باہر لایا گیا تو اس کا جسم ڈھکا ہوا تھا۔ ’وہ ٹھیک تھا۔ سرجری کامیاب رہی، میری ساس نے میرے کانوں میں سرگوشی کی۔ میں نے ان کی جانب بیک وقت بے یقینی، سکون اور تشکر کے ملے جلے جذبات سے دیکھا۔



اس تمام وقت میں میری ساس آپریشن تھیٹر کے باہر ہی موجود رہیں جبکہ میں نادیہ کے ساتھ پرائیویٹ کمرے میں بت بنی بیٹھی رہی۔ کسی طرح نادیہ میری توجہ اس تکلیف دہ صورتحال سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی اور ہم پرانی باتوں کو یاد کر کے ہنسنے لگیں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اپنی زندگی کے اس نازک ترین دور کے ان کڑے لمحات میں یوں ہنس رہی ہوں گی۔ لیکن یہ زندگی ہے۔

یاسر کو آپریشن تھیٹر سے باہر لایا گیا تو اس کا جسم ڈھکا ہوا تھا۔ ’وہ ٹھیک تھا۔ سرجری کامیاب رہی، میری ساس نے میرے کانوں میں سرگوشی کی۔ میں نے ان کی جانب بیک وقت بے یقینی، سکون اور تشکر کے ملے جلے جذبات سے دیکھا۔ ہم ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ڈاکٹر انعام سے ملی ہیں اور ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ یاسر ٹھیک ہے۔ جب میں نے یاسر کو دیکھا تو اس نے فوراً کہا، میں تمہاری خاطر زندہ بچا ہوں۔

میں نے فوراً جناح کی تصویر کو گوگل کیا تو یاسر نے اس تصویر کو دیکھ کر کہا، اور آپ کی خاطر بھی۔

اس کے خون میں موجود سٹیرائڈز نے اسے جذباتی کیفیت میں لاتے ہوئے باتوں پر مائل کر رکھا تھا۔ اس رات یاسر کے سر میں شدید درد ہوا۔ اس نے بہرحال کھانا کھانے اور کچھ پانی پی لینے کی ہمت جٹا ہی لی۔

زندگی میں اس کے بعد یاسر پھر سے موجود تھا۔ یہ ایک افسانوی داستان کی مانند ہے، بالکل ویسے ہی جیسے اکثر زندگی کی اصل افسانوی اور رومانوی کہانیاں ہوا کرتی ہیں۔ یاسر کو اس کے بعد کسی کیمیوتھراپی یا ریڈیوتھراپی کے عمل کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس کے بعد میں ہونے والے ایم آر آئی سکین بھی تسلی بخش آئے۔

پھر چھ ماہ بعد جب وہ ہارورڈ سے قانون اور انسانی حقوق پر فیلوشپ سے واپس آیا تو اس کے بعد کروانے والا ایم آر آئی سکین بھی نارمل آیا۔ آپریشن کے بعد اس کی شفایابی کا عمل آپریشن سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا۔ ادوایات، تکلیف، تھکاوٹ، عدم توجہ، اضطرابی کیفیت، روشنی کا سامنا کرنے اور حرکت کرنے میں تکلیف کا اسے سامنا کرنا پڑا۔ دوروں سے بچاؤ کی ادوایات کو چھوڑنے کا عمل اور بھی تکلیف دہ تھا۔ اور یاسرکی تکلیف کی وجہ سے ہم سب بھی تکلیف زدہ تھے۔

خیر جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ میرے بالوں کی پونی ابھی بھی موجود ہے، گو ٹینشن کی وجہ سے اب میرے کافی بال جھڑ چکے ہیں۔ یاسر کے آرٹسٹک ہاتھ بھی اب تک ہیں، اور ہم دونوں اب بھی ایک ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں، گو وہ جو اتنے سارے وعدے کیے تھے، سب پورے نہیں کیے۔

مصنفہ Women's Advancement Hub کی بانی ممبران میں سے ہیں۔