عائشہ ٹک ٹاکر اور اقرار الحسن کے آنسو: کیا عائشہ کی لیکڈ آڈیو یہ ثابت کرتی ہے کہ واقعہ ایک ڈرامہ تھا؟

عائشہ ٹک ٹاکر اور اقرار الحسن کے آنسو: کیا عائشہ کی لیکڈ آڈیو یہ ثابت کرتی ہے کہ واقعہ ایک ڈرامہ تھا؟
عائشہ ٹک ٹاکر حملہ کیس کو لے کر پاکستانی عوام کے جذبات ٹھنڈے گرم ہو رہے ہیں۔ کبھی عائشہ پر ترس اور رحم کے جذبات جوش پکڑتے ہیں تو کبھی نفرت اور غصے کی زہریلی پھوار اس جوش کی لہر کو مار دیتی ہے۔ عوام کے ساتھ ساتھ اپنی جانب سے ملک و قوم کے مسیحا اینکرز اور صحافی بھی اسی قسم کے جذباتی جھولے پر سوار ہیں۔ حمایت کریں یا مخالفت افسوسناک بات یہ ہے کہ تمام آرا انتہائی تعصب سے لبریز فیصلہ کن نعروں پر مبنی ہیں جن میں اصول، ضابطے اور قانون کی کوئی بات سنائی نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر پہلے اے آر وائی کے سر عام مارکہ اقرار الحسن اس اندوہناک واقعہ کے بعد عائشہ کے گھر پہنچے۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اظہار یکجہتی کیا۔ اس سب میں بھی جذباتی دکھاوا غالب رہا۔ کسی قسم کی کوئی منطق کم ہی دکھائی دی۔ تاہم اب اقرار الحسن نے مینار پاکستان کیس میں نامزد ملزموں سے پیسے حاصل کرنے کے حوالے سے مبینہ آڈیو سامنے آنے کے بعد عوام سے معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کی حمایت کرنے پر شرمندہ ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں پولیس کے ہاتھ ایک ایسی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ آئی تھی جس میں ٹک ٹاکر عائشہ اور اس کا ساتھی ریمبو حراست میں لیے گئے ملزموں سے پیسے لینے کی بات کر رہے تھے۔ پولیس حکام نے اس آڈیو کا فرانزک کر کے اسے کیس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اب اقرار الحسن نے بھی یہ آڈیو سننے کے بعد اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں عائشہ اکرم کی حمایت کرنے پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرا ماضی دیکھتے ہوئے، اس کے صدقے مجھے معاف کر دیں۔ اس دوران بھی وہ یچکیاں لے لے کر روتے رہے جب کہ ناظرین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس سب میں رونے کی کیا منطق تھی؟ بہر حال۔ ساتھ ہی انہوں نے عائشہ کو ایک جسم فروش خاتون سے بھی بد تر قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کر ڈالی۔ اب یہاں بھی کسی قسم کی کوئی منطق نہیں۔
اس صورتحال کا ایک معروضی تجزیہ کرتے ہیں۔ جو کچھ سانحہ مینار پاکستان میں ہوا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے آگے چلیں تو اب صورتحال یہ ہے کہ ملزمان گرفتار ہیں جب کہ عائشہ مبینہ طور پر ان سے روپے لینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا پیسے لینے کی جو آڈیو سامنے آئی ہے وہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ عائشہ کے ساتھ جو مینار پاکستان پر ہوا وہ سب سوچا سمجھا ہوا ڈرامہ تھا؟ پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ مینار پاکستان کے واقعہ کی وجہ ریمبو اور عائشہ کی انسٹا ویڈیوز کو کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی کا کوئی ویڈیو بنانا اس پر حملے اور ریپ کی کوشش کا جواز پیدا کر سکتا ہے؟ ہمارے قانونی نظام میں کیا کسی جرم یا نقصان کے بدلے قصاص و دیت کی رقم نہیں دی جاتی؟ اور کیا اس حوالے سے متاثرین اور ملزموں کے لواحقین یا خود ان کے درمیان بات چیت طے نہیں ہوتی؟ اس بات چیت کو کب جرم اور کب جائز قرار دیا جائے گا؟ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ عائشہ اس تمام صورتحال میں ملزمان سے پیسے نکلوانا چاہتی ہے اور یہ ایک جرم ہے تو تب بھی ابھی بات ارادہ جرم سے آگے نہیں بڑھی اس کو لے کر اس کے ساتھ ہونے والے خوفناک واقعے کی تفتیش کا رخ کسی بھی جانب کیوں اور کیسے موڑا جا سکتا ہے؟ اس معاملے میں جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ کسی بھی خاتون کا جو بھی جنسی کردار رہا ہو وہ قانونی حفاظت کا مکمل حق رکھتی ہے۔ انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ اس حوالے سے نامناسب الفاظ قانونی فیصلوں میں نہ لکھے جائیں اور کسی خاتون کا جنسی کردار پولیس کی تحقیقات اور عدالتی کارروائی میں حوالہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ اصول ملک کی اعلیٰ ترین عدالت وضع کر چکی ہے۔ عائشہ ٹک ٹاکر کا کیس بھی اسی زاویے سے دیکھیں تو مسئلہ حل ہو جائے۔
یہاں یہ امر بھی تشویش سے خالی نہیں کہ پولیس جو تحقیقات کر رہی ہے، اس کی پل پل کی خبر میڈیا کو کیوں دی جا رہی ہے؟ تفتیش کا دائرہ کار واقعے کے وقت یا اس سے پہلے کی منصوبہ بندی، اگر کوئی تھی تو، تک محدود کیوں نہیں رہا؟ وہ پھیل کر واقعے کے بعد کی فون کالز تک کیسے وسیع ہو گیا اور اب اس کو تفتیش کا حصہ بنانے کا کیا مقصد ہے؟ وجہ اس کے سوا کوئی نظر نہیں آتی کہ ان پولیس اہلکاروں اور افسران کی معطلی کے بعد سے محکمہ پولیس نے ایک ضد باندھ رکھی ہے کہ جس لڑکی کی وجہ سے یہ سب ہوا، اس کو نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ یہ اصول طے ہو سکے کہ کسی لڑکی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں موجود پولیس اہلکار اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی پاداش میں معطل کر دیے جائیں۔ عدالت کو چاہیے کہ نہ صرف پولیس کو فوری طور پر حکم جاری کرے کہ اس کیس کو کیس کے میرٹس کے مطابق لڑا جائے، اس میں زبردستی غیر متعلقہ واقعات کو لا کر اور ان کی تشہیر کر کے لڑکی کو بدنام کرنے کی کوشش بند کی جائے، بلکہ ساتھ ہی اسے ان افسران کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دینا چاہیے جو یہ کہانیاں خود سے گھڑنے یا لیک کرنے میں ملوث ہیں۔
رہ گئے اقرار الحسن تو ان کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ شہرت کے لئے بھوکوں منگتوں کی طرح ہر چیز کو کیش کروانا بند کر دیں، راہِ راست پر آ جائیں اور ان قوتوں کے آلہ کار بننے سے باز آ جائیں جو قانون کی عملداری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔