Get Alerts

توہین مذہب کے نام پر ایک اور قتل: اچانک مذہبی شدت پسندی کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟

توہین مذہب کے نام پر ایک اور قتل: اچانک مذہبی شدت پسندی کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟
گستاخانہ مواد پر بحث و تکرار کے نتیجے میں نجی سکیورٹی کمپنی کے ایک سکیورٹی گارڈ نے اپنے ہی ساتھی سکیورٹی گارڈ کو قتل کر ڈالا۔ قاتل جماعت علی نے سکیورٹی رائفل کے فائر سے دوران نیند محمد اعظم کو قتل کیا اور خود فرار ہو گیا۔ قتل کا واقعہ لاہور کے علاقے کرول گھاٹی میں پیش آیا جہاں اختر نامی سٹیل ملز میں ایک نجی سکیورٹی کمپنی کے دو گارڈز کے درمیان مذہبی حوالے سے بحث و تکرار ہوئی۔

پولیس کے مطابق واقعہ 17 اگست کی صبح 4 بجے پیش آیا۔ قاتل جیا موسیٰ شاہدرہ کا رہائشی ہے۔ جب کہ مقتول کا تعلق بہاولنگر کی تحصیل منچن آباد سے ہے۔ واقعہ کا مقدمہ دفعہ 302 کے تحت مقتول کے بھائی محمد فیاض کی مدعیت میں درج کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق جماعت علی اور محمد اعظم کے درمیان بحث ہوئی، بات لڑائی جھگڑے تک پہنچی تو جماعت علی نے محمد اعظم کو 12 بور پمپ کی رائفل سے سر پر فائر مارا جس سے وہ موقع پر ہی جہاں بحق ہو گیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے تاہم قاتل ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکا۔ جبکہ مقتول اعظم کی لاش کو ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے جسے 18 اگست کی دوپہر کو منچن آباد میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

اہل خانہ کا کہنا ہے کہ محمد اعظم پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ حافظ قرآن تھے اور گذشتہ تین سالوں سے مقامی مسجد میں بچوں کو ناظرہ پڑھاتے تھے مگر انہیں اس کی خاص فیس نہیں ملتی تھی۔ دو ماہ قبل اعظم نے لاہور کا رخ کیا اور ایک سکیورٹی کمپنی میں گارڈ بھرتی ہو گیا۔

اعظم اور جماعت علی کے کچھ دوسرے ساتھیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اعظم نے مذہبی حوالے سے کچھ لٹریچر لکھا تھا جس پر جماعت علی کو اس سے اختلاف تھا۔ دونوں کے بیچ کئی کئی گھنٹوں بحث بھی ہوتی تھی۔ واقعے کی پچھلی شام دوران ڈیوٹی بحث لڑائی جھگڑے میں تبدیل ہوئی اور آدھی رات کو جماعت علی نے اعظم کو دوران نیند ہی قتل کر دیا۔

واضح رہے کہ ایک ماہ میں پیش آنے والا یہ دوسرا واقعہ ہے جب توہین مذہب اور گستاخانہ مواد کے الزام میں ماورائے عدالت قتل ہوا۔ اس سے قبل مشعال خان، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور مسیحی وفاقی وزیر شہباز بھٹی بھی اسی طرز کے الزامات میں قتل کیے گئے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب اور گستاخی کے الزامات میں اب تک ایک سو کے قریب افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔

محمد اعظم کے بھائی اور ماموں کے مطابق انہیں پولیس کی جانب سے محض اتنا بتایا گیا تھا کہ وہ آ جائیں، ان کے بھائی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ لاہور آنے کے بعد انہیں قاتل کا نام بتایا گیا لیکن کوئی مزید کارروائی تاحال نہیں کی گئی۔ ان دونوں کا کہنا تھا کہ اعظم پڑھا لکھا تھا اور کچھ نہ کچھ لکھ بھی لیتا تھا لیکن گستاخی وغیرہ کی بات ان کے لئے ناقابلِ فہم تھی۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ گذشتہ ایک ماہ میں ملک بھر میں دوسرا واقعہ ہے جس میں ایک شخص کو گستاخی یا توہینِ مذہب کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پشاور میں ایک شخص کو خالد نامی نوجوان نے قتل کر دیا تھا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اس نے بعد ازاں دعویٰ کیا تھا کہ اس کو خواب میں رسولؐ اللہ نے قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس واقعے کے خوفناک ترین پہلو یہ تھا کہ یہ قتل کرنے کے لئے اس کو پستول عدالت کے اندر ہی ایک وکیل نے فراہم کی تھی جب کہ اس کی پہلی پیشی کے موقع پر نہ صرف وکلا اور عدالت کے عملے کے لوگ اس کے منہ اور ماتھے کو چومتے رہے، پولیس اہلکار جو کہ دراصل قانون نافذ کرنے کے لئے ملازمت میں بھرتی کیے جاتے ہیں بھی اس کے ساتھ سیلفیاں بنواتے پائے گئے۔ دوسری جانب ٹی وی اداکار شہروز سبزواری جو کہ گذشتہ چند ہفتوں سے اپنی پہلی بیوی سائرہ یوسف کو طلاق دے کر ماڈل و اداکارہ صدف کنول کے ساتھ شادی کرنے کے باعث تنقید کا سامنا کر رہے تھے، انہوں نے بھی قاتل کی تصویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کی اور انہیں ایک شیر سے تشبیہ دیتے ہوئے ’غازی‘ قرار دیا۔

اسی ایک ماہ کے دوران صبا قمر اور بلال سعید کی جانب سے لاہور کی مسجد وزیر خان میں ایک شوٹ کے دوران رقص کے انداز میں گھومنے کا منظر فلمانے پر ان کے خلاف توہین کے الزامات لگائے گئے اور سوشل میڈیا پر چند روز ان کے خلاف مہم چلنے کے بعد اس معاملے میں تحریکِ لبیک پاکستان بھی کود پڑی اور صبا قمر اور بلال کے خلاف ایک مقدمہ درج کر لیا گیا جس پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

اسی موضوع پر نیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں سماجی حقوق کی کارکن ماروی سرمد نے صبا قمر کا دفاع کیا تو پروگرام میں موجود ایک عالمِ دین ہشام الٰہی ظہیر نے ان کے ساتھ انتہائی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد ماروی ہی کی ایک ٹوئیٹ پر ان کے خلاف بھی گستاخی کے فتوے لگائے جانے لگے اور ٹوئٹر پر ان کے خلاف ٹرینڈ بنایا گیا جس میں ان پر توہینِ مذہب سے متعلق شقوں کے تحت مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

یہ سب کچھ محض ایک ماہ میں ہوا ہے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کس تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اب سے قریباً دو سے تین دہائیوں پہلے القاعدہ اور ایسی دیگر تنظیموں نے عالمی سیاست کے موضوعات پر دہشتگردی شروع کی تھی اور ان تنظیموں کے ہدف اکثر امریکہ، بھارت یا دیگر ایسے ممالک اور حکومتیں ہوا کرتے تھے جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی میں یا پھر عالمِ اسلام کے خلاف کسی قسم کی سازش یا جنگ میں ملوث تھے۔ اس کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان جیسی تنظیموں نے سر اٹھانا شروع کیا جن کا ہدف ابتداً افغانستان اور پھر پاکستان کی حکومتیں بنیں۔ ان کا بنیادی مقصد ان دونوں ممالک میں اسلامی حکومتیں قائم کرنا تھا لیکن ان کا طریقہ واردات القاعدہ کے مقابلے میں تھوڑا مختلف یوں تھا کہ یہ شیعہ اور بریلوی مسلک کے افراد کو خصوصی طور پر ہدف بناتی تھیں۔ امام بارگاہوں، عاشورہ کی مجالس، ربیع الاول کی محفلوں اور مزارات پر حملوں کے ذریعے انہوں نے دہشتگردی کو بین الاقوامی اور بین المذاہب سیاست سے بین المسالک مسائل پر مرکوز کر دیا۔

لیکن اس کی بدترین حالت اس وقت پاکستان میں موجود ہے کہ جہاں یہ معاملہ نہ تو اب ملکوں کے درمیان ہے، نہ ہی ریاست پر قبضے کی کوئی جنگ ہے اور نہ ہی کسی مسلک کے خلاف۔ اس وقت دہشتگردی مزید محدود ہو کر شخصی اختلاف کی حد تک آ گئی ہے اور اس میں کسی مذہب یا مسلک کی تفریق کے بغیر کسی بھی شخص کے خلاف کسی بھی وقت گستاخی کے نام پر مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ اس کی ابتدا سلمان تاثیر سے ہوئی تھی جو کہ خود بھی ایک مسلمان، سنی گھر سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہیں گستاخی کے الزام میں مارا گیا۔ اس کے علاوہ آسیہ بی بی، شہباز مسیح، مشعال خان، جنید حفیظ، 2017 میں اغوا ہونے والے سوشل میڈیا بلاگرز، پروفیسر خالد حمید، پشاور کے طاہر احمد نسیم، بہاولنگر کے محمد اعظم کے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں جب کہ ماروی سرمد اور صبا قمر کے خلاف چلنے والی مہم بھی اس کی مزید خوفناک شکلیں یوں ہیں کہ جانی مانی شخصیات اور سلیبرٹیز جو کہ ہر وقت عوامی نگاہ میں رہتی ہیں، ان کا کوئی بھی عمل کسی بھی وقت گستاخی قرار دے کر ان کے خلاف ایک مہم شروع کی جا سکتی ہے جب کہ ان کی کہیں بھی نیت توہین کرنے کی نہ ہو۔

یہاں ریاست کا کردار انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ دہری مصیبت تو یہ ہے کہ ریاستی ادارے خود ان تنظیموں اور ان نظریات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے پر برتری کی خاطر انہی نظریات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات ہوں یا توہین کے نام پر قتل کے، خود مظلوم کے خلاف ایک فریق بنے کھڑے ہوتے ہیں، اور عوام کو مذہب کے نام پر اس قدر بیوقوف بنایا جا چکا ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں اب تمیز کرنے سے قاصر ہیں۔ صورتحال کی گھمبیرتا ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو اس کی گہرائی اور گیرائی کا ادراک تک نہیں۔