کابل ایئرپورٹ پر جلد ہی ایک تباہ کن حملہ ہونے کا امکان ہے: برطانوی وزیر

کابل ایئرپورٹ پر جلد ہی ایک تباہ کن حملہ ہونے کا امکان ہے: برطانوی وزیر
برطانوی مسلح افواج کے وزیر نے کہا ہے کہ کابل ایئرپورٹ پر جلد ہی ’ایک تباہ کن اور ہلاکت خیز‘ حملہ ہونے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ برطانیہ کے دفتر خارجہ نے رات گئے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ ہوائی اڈے کی طرف نہ آئیں اور جو لوگ وہاں موجود ہیں انھیں وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ وزیر جیمز ہیپی نے اس سے قبل برطانوی نشریاتی ادارے  کو بتایا تھا کہ حملے کےخطرے کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات ہیں۔
اس کے کچھ دیر بعد انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ وہ مصدقہ اطلاعات اس نہج پر پہنچ گئی ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ کابل میں ایک تباہ کن اور ہلاکت خیز حملہ ہو سکتا ہے۔
خطرے کے نوعیت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے ایک بہت پیچیدہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے کابل میں اور لندن میں کئی اہم فیصلے کرنے پڑیں گے۔
کابل ائیرپورٹ پر دھماکا کون کر سکتا ہے؟
بی بی سی نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کو درپیش دہشت گرد خطرے کے حوالے سے کوئی تفصیلات تو فراہم نہیں کی گئیں تاہم یہ بات طے ہے کہ خطرہ اتنا سنگین ہے کہ اس کے پیش نظر مغربی ممالک کی جانب سے انخلا کا کام سست پڑ گیا ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں میں ایسی اطلاعات بار بار سامنے آ رہی ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ (یا داعش) خراسان کے جنگجو کابل پہنچ چکے ہیں۔
دولتِ اسلامیہ افغانستان اور پاکستان میں داعش خراسان کے نام سے سرگرم ہے۔ خراسان موجودہ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں کا تاریخی نام ہے۔اس تنظیم کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی اور اطلاعات کے مطابق اس میں پاکستانی اور افغان طالبان کے سابق اراکین شامل ہیں۔
یہ گروہ افغان طالبان سے بھی زیادہ سخت گیر ہے اور خیال ہے کہ ان کی طالبان سے جانی دشمنی ہے کیونکہ یہ گروہ طالبان جنگجوؤں کو واجب القتل تصور کرتے ہیں۔
دولت اسلامیہ نے فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے ہونے والے معاہدے پر بھی تنقید کرتے ہوئے لڑائی جاری رکطنے کا عزم کیا تھا۔
حال ہی میں انھوں نے طالبان کے ملک پر قبضے کو بھی رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ انھیں خفیہ معاہدے کے تحت ملک کی چابیاں پکڑا کر چلا گیا۔
اس گروہ کو 2019 کے اوآخر میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور اگلے سال کے اوال میں ہی اس کے سینیئر رہنماؤں کو گرفار کر لیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد سے اس گروہ کی صلاحیتوں میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے اور اس نے امن مذاکرات کے دوران اور اس کے بعد ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ابتدائی طور پر دولتِ اسلامیہ خراسان کا دائرہ کار افغانستان اور پاکستان دونوں تک تھا تاہم مئی 2019 میں پاکستان کو ایک علیحدہ صوبہ قرار دے دیا گیا۔ دولتِ اسلامیہ خراسان نے ستمبر 2018 میں ایران میں ہنے والے ایک حملے کی بھی ذمہ داری قبول کی تھی۔