مولانا فضل الرحمٰن کسی طرح بھی قابو نہیں آرہے

مولانا فضل الرحمٰن کسی طرح بھی قابو نہیں آرہے
تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا۔ مولانا فضل الرحمن کسی طرح بھی قابو نہیں آئے تو پچاس کی دہائی سے آزمودہ نسخے کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام پر حسب سابق  شب خون مارنے کی تیاری ہے اور اس بار قرعہ فال مولانا شیرانی کے نام نکلا ہے۔ ویسے تو موصوف بڑے عرصے سے بلوچستان میں اپنا نظریاتی گروپ چلا رہے تھے لیکن اب کی بار تو مولانا شیرانی نے کمال ہی کر دکھایا۔ مولانا فضل الرحمن کے بھی خوب لتے لئے، عمران خان کو بھی پانچ سال کی آشیرباد دی اور سب سے اہم اور دلچسپ بیان یہ دیا کہ اسرائیل کو بھی تسلیم کر لیا جائے یعنی  کسی کو ان کی سمت کے تعین میں ذرا بھی شک نہ رہے۔

مولانا فضل الرحمن کے "مہربان" اگر تاریخ پڑھنے  کے عادی ہوتے تو انہیں پتہ ہوتا کہ جمعیت علمائے اسلام دو سو سال پرانی ایک نظریاتی سیاسی و مذہبی جماعت ہے اور ایسی جماعتوں کو اپنے نظم کی وجہ سے ایسے اختلافی گروہوں سے کم ہی فرق پڑتا ہے۔ لیکن کیا کریں بہت یقین دہانیوں کے باوجود مولانا قابو نہیں آ رہے۔ لیکن ابھی ترکش سے تیر ختم کہاں ہوئے ہیں. ن لیگ تمام تر تابعداری کے باوجود بےعزت ہوتے ہوئے دوبارہ ووٹ کو عزت دینے پر کمربستہ تو ہو چکی لیکن اب بھی رانا ثناءاللہ بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ ایف اے ٹی ایف اور نیب قانون میں مجوزہ ترامیم پر حکومت سے مذاکرات اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہوۓ تھے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب پوری ن لیگ باجماعت ہو کر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اضافہ کے قانون کو ووٹ دے رہی تھی اور آج اس سارے تام جھام کا الزام بھی انہیں دے رہی ہے۔

الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس نہ سننے کا طعنہ دے رہی ہے لیکن کچھ ہی عرصہ قبل چیف الیکشن کمیشن کا نام بلا چوں و چراں تسلیم بھی کر چکی ہے۔ بس اسٹیبلشمنٹ نے ملاقاتوں کو طشت از بام کرنے کی غلطی کی تو پھر سے مولانا کے بیانیہ میں پناہ لینا پڑی۔ مولانا کے پچھلے دھرنے نے بھی بڑوں بڑوں کے دل دہلا دئے تھے اور اسی بنا پر نوازشریف اور آصف زرداری کی نیب زدگی بھی ختم ہوئی اور مارچ تک الیکشن کا وعدہ بھی ملا۔ لیکن کوئی اتنی جلدی سبق کب سیکھتا  ہے۔ یہ سبق یاد ہوتا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت مغربی پاکستان کے سیاستدان بمعہ عوام سوئے نہ رہتے۔  یہ سبق حاصل کرنے کے باوجود بھٹو نے اسے کتنی دیر یاد رکھا۔

بھٹو بہت جلد سیاستدانوں سے کٹ کے رہ گئے۔ نیپ کی حکومت ختم کر دی۔ بلوچ اور پشتون قوم پرست سیاست دان غداری کے مقدمات بھگتنے لگے۔ بلوچستان پر پھر سے چڑھائی ہوئی۔اختلاف رکھنے والے سیاستدان عبرت کا نشان بنا دئے گئے حتٰی کہ اپنی پارٹی کے لوگوں کو بھی بدترین انجام سے دوچار کیا اور جب تنہا رہ گئے تو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو شہید نے بھی اپنی کمزوریاں ظاہر کرتے ہوۓ بہت سمجھوتے کئے لیکن انجام تو وہی ہوأ جو بھٹو کی "گستاخی"کی وجہ سے اس خاندان کا مقدر ٹھہرا۔ زرداری بھی سب پر بھاری ہونے کے زعم میں ایسے سمجھوتے کرتے پائے گئے کہ نہ اقتدار رہا اور پارٹی بھی صوبہ سندھ تک محدود ہو گئی۔  رہی سہی کسر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں ان کے کردار نے پوری کر دی۔ اس ساری خدمت کے باوجود پنجاب سے پیپلزپارٹی کی تین جیتی ہوئی نشستیں بھی اسے نہ ملیں حتٰی کہ دوبارہ گنتی رکوانے کیلئے چیف جسٹس ثاقب نثار کو اختیار نہ ہونے کے باوجود نوٹس لینا پڑا۔ اب سندھ حکومت اور نیب کیسز سے بچاؤ منزل مقصود ہے لیکن تمام تر تعاون کے باوجود پیپلزپارٹی کچھ حاصل نہیں کر سکی۔

ایسی صورتحال میں مولانا کے موقف پر رضامند ہونے میں ہی عافیت تھی۔ ذرا سا سانس بحال ہوتے ہی پیپلزپارٹی پھر اپنی پرانی روش پر جاتی نظر آتی ہے۔ آئی جی سندھ کے اغواء پر بلاول کے تعاون کےبعد بڑی امید تھی کہ انہیں گلگت میں سادہ سی اکثریت مل جائے گی لیکن وہ خواب بھی چکناچور ہوا۔ صاف ظاہر ہے پیپلزپارٹی ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتی. اب پی ڈی ایم کے ذریعے کچھ طاقت حاصل کرنے کے بعد لانگ مارچ, دھرنا اور اسمبلیوں سے استعفیٰ پر اپنی آمادگی دے کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے کا عمل جاری ہے۔ ہے نا مزے کا موقف کہ سلیکٹڈ تو بہت برا ہے اسے دھاندلی سے لایا گیا لیکن لانے والوں کا نام نہیں لینا چاہیے۔ شاید آصف زرداری چاہتے ہیں کہ جب سیاسی بحران پیدا ہو تو وہ ایک ثالث کا روپ دھارسکیں اور شاید ماضی قریب کی طرح سینیٹ کی ایک آدھ سیٹ بڑھانے کی بھی اجازت مل جائے.اسی لئے اپوزیشن کرنے کے باوجود کراچی کے نالوں کی صفائی پر اجلاس کی تصاویر ہوں یا علی وزیر کی گرفتاری ہر جگہ سندھ  حکومت نے اتنی اچھی معاونت کی۔

پیپلزپارٹی یاد رکھے ماضی کی طرح اب بھی ان سمجھوتوں سے اسے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ مہربانوں کو اس پارٹی کے ڈی این اے سے سدا بہار شکایت ہے۔ مزید سمجھوتے ہوتے رہے تو مرحوم پیرپگاڑا کی پیشگوئی پوری ہوتی نظر آتی ہے کہ بلاول ایک دن ضرور مسلم لیگی بنے گا۔ دراصل یہ مقابلہ مولانا فضل الرحمٰن اور مقتدر لوگوں کے درمیان ہے. طاقتور لوگوں کو یہ مان ہے کہ ان کے پاس مولانا کے کئی راز ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ راز تو مولانا کے پاس بھی ہیں اسی لئے تو مولانا قابو میں نہیں آ رہے۔ طاقتور لوگوں کو عمران خان نے بخوبی احساس دلا دیا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک چاہے صرف عمران خان کے خلاف ہو لیکن کسی کامیابی کی صورت میں سب کو جانا ہوگا.انہیں یاد ہے کہ بہت طاقت میں بھی مولانا فضل الرحمٰن کو انہیں بلوچستان،کےپی کی حکومتیں اور اور اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی دینا پڑ گیا تھا تو اب تو عمران اور اس کی تسلیم شدہ کارکردگی کی بدولت ضعف کا عالم ہے۔

ابھی حال ہی میں ایک کی بجائے تین لوگوں کے خلاف قرارداد سے بڑی مشکل سے جان چھوٹی ہے۔ مولانا کو اپنے مہربانوں کی طاقت کے ساتھ کمزوریوں کا بھی علم ہے اسی لئے تو وہ قابو نہیں آ رہے لیکن ترکش ابھی خالی کب ہوأ ہے. استعفے تو چھ ماہ زیر غور بھی رکھے جا سکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ مولانا ہیں۔ لہٰذا یہ بات زیر غور ہے کہ مولانا کو نیب کے ذریعے یا کسی بھی طریقے سے گرفتار کر لیا جائے۔ مریم نواز بھی گرفتار ہو جائیں اور اپوزیشن کی قیادت کسی حد تک پیپلزپارٹی کو مل جائے اور وہ ایک پھس پھسی تحریک چلا کے سب کو گھر بٹھا دے۔ ان سب اندیشوں کے باوجود مولانا قابو نہیں آ رہے۔ شاید انہیں اندازہ ہے کہ آخرکار بات انہیں سے ہوگی کیونکہ مسئلہ وہی پیدا کر سکتے ہیں۔

پیپلزپارٹی تو قومی سرمایہ ہننے کے باوجود اپنا وجود کھو رہی ہے کیونکہ اس کی کمزوریاں سب پر عیاں ہو چکی ہیں اور جس نظام کو وہ بچائے رکھنے کا دعویٰ کر رہی ہے اسی نظام سے سمجھوتوں کی بدولت ہی تو اس کی سیاست یہاں پہنچی ہے۔

اس سب کے باوجود گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ پر بڑا زور ڈالا جا رہا  ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت ایسی کسی تجویز کو سننے کیلئے تیار نہیں بلکہ اس نے تو اپنے سلیکٹرز کو بھی آگے لگا لیا ہے تو یہ ڈائیلاگ پھر کس سے ہوگا۔ جن صاحب نے یہ تجویز دی تھی ان کے ذہن میں بنگلہ دیش ماڈل تھا لیکن پھر وہ بھی اپنی مدت ملازمت میں  اضافے کے آسرے اور انتظار میں ریٹائر منٹ کی دنیا سدھار گئے بلکہ کسی اور کی مدت ملازمت میں اضافے کا نوٹس لے کر بھولا بسرا وعدہ یاد کرواتے بھی پائے گئے۔

لیکن سیاستدانوں کو حقیقت سے فرار کیلئے ایک نیا موضوع مل گیا حالانکہ انہیں اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ انیس سو تہتر کا آئین دراصل ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہی تو تھا۔ مسئلہ تو اس آئین کی تابعداری کا ہے اور  یہ ناممکن اگر ممکن بھی ہو جائے تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ پارلیمنٹ اور چیف ایگزیکٹو آفس کے اختیارات پر دوبارہ دھاوا نہیں بولا جائے گا۔  کیا وہ ضمانت انیس سو تہتر کے آئین سے بڑی ضمانت ہو سکتی ہے.عدلیہ کو بھی ضامن بنانے کی تجویز ہے یعنی جو فریق آئین کی خلاف ورزی اور اپنی حد سے تجاوز کرنے میں ملوث ہو اور باقاعدہ معاون کا کردار ادا کرتا رہا ہو وہ اب ضامن بن جائے۔ ظاہر ہے یہ وقتی فرار کی باتیں ہیں اور مولانا کو اس کے انجام کا علم ہے۔

وہ جانتے ہیں کہ مسائل اداروں کی طرف سے نہیں ہمیشہ افراد کے پیداکردہ ہوتے ہیں اسی لئے تو مولانا قابو نہیں آ رہے۔ مولانا کے قریبی حلقوں کے مطابق مولانا کو یہ یقین ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد نئے پاکستان کیلئے جو defining moment بھٹو نے ضائع کر دی تھی۔  قدرت نے اس کا موقع دوبارہ سے پیدا کر دیا ہے اور اب کی بار یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہئے.سیاسی قوتیں اپنے ضعف سے نکلنا چاہ رہی ہیں تا کہ عوام کی آواز سے آواز ملائی جا سکے تو مولانا اس موقع کو کیوں ضائع کریں گے۔ بس اسی لئے تو مولانا قابو نہیں آ رہے۔