میں نے صدر عارف علوی سے سوال کیا کہ عمران خان نے اب جنرل باجوہ کے خلاف ایک چارج شیٹ بنا لی ہے کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا، اس میں کتنی سچائی ہے۔ اس کے جواب میں صدر مملکت نے جواب دیا کہ 2018 کے سینیٹ الیکشن میں جنرل باجوہ نے عمران خان کی مدد کی تھی۔ ایوان صدر کی جانب سے جو وضاحتی بیان جاری کیا گیا ہے وہ ایک طرح کا اعتراف ہے۔ صدر کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں پیش کیا گیا۔ بہتر ہوتا ایوان صدر وضاحت کے بجائے تفصیل جاری کرتا کہ کون سی بات صدر نے کی تھی اور کون سی بات من گھڑت اور خود ساختہ تھی۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی مظہر عباس کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تقریب میں صدر علوی کی گفتگو کو محور آڈیو ویڈیو لیکس تھا۔ صدر نے سیاسی حالات پر بھی بات چیت کی۔ صدر نے کہا تھا کہ نیب کے معاملات میں مداخلت تھی۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مسائل اکتوبر سے پہلے سے چل رہے تھے۔ اس دوران جب تحریک عدم اعتماد کی بات چل رہی تھی توآرمی چیف نے مجھے کہا کہ آپ کوئی کردار ادا کریں جس کا جواب دیتے ہوئے میں نے آرمی چیف سے کہا کہ آپ تو خود پلیئر ہیں۔ تقریب میں صدر نے کچھ باتوں میں عمران خان سے اتفاق کیا اور کچھ میں عمران خان سے اختلاف کیا۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پرعارف علوی کا کہنا تھا کہ میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے اس معاملے کو کس طرح سنھبالا اور یہ میرے لیے بہت بڑی آزمائش تھی۔
مظہر عباس نے کہا کہ 2013 کے الیکشن میں عمران خان کو کراچی میں ریکارڈ ووٹ پڑا تھا مگر پنجاب میں وہ (ن) لیگ کا ووٹ بینک نہیں توڑ پا رہے تھا۔ سیٹوں کو پورا کرنے کے لیے کراچی میں مصطفیٰ کمال کے ذریعے سے کوشش کی گئی۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کو توڑ کر بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی۔ عمران خان کے کل جو اتحادی تھے وہ آج پی ڈی ایم کے اتحادی ہیں، تو یہ دونوں کام غلط ہیں۔ اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ (ق) لیگ ہے۔ عمران خان کو پورا سچ بولنا چاہئیے کہ جو اس کی حکومت لے کر آئے تھے، انہوں نے ہی ان کی حکومت بعد میں گرائی بھی۔
کالم نگار مزمل سہروردی نے کہا کہ ملک احمد خان باجوہ صاحب کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ عمران خان کا اس وقت کیس تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ جمائما کو رسیدیں مل گئی ہیں، تو اس وقت سمجھ لگ رہی تھی کہ عمران خان کو صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ مل رہا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار بھی سو موٹو لیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کو سب پتہ ہے۔ اگر ان کو سب پتہ تھا تو پھر وہ پارٹی تھے۔ عمران خان جیسے نالائق امیدوار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑی جس میں اس دور کی عدلیہ کا بھی برابر کا کردار تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ نے سار گیم پلان تیار کیا۔ عمران خان اپنے اتحادیوں کے خلاف بھی کیسز بنوانے میں پیش پیش رہتے تھے۔ عمران خان کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے 2016 سے 'سیاسی عریانی' کا مظاہرہ کیا۔ علی افضل ساہی پہلی دفعہ ایم پی اے بنے ہیں۔ آج کل تخت پنجاب ان کے پاس ہے۔ وہ پرویز الہٰی کے بھی قریب ہیں اور زمان پارک کی آنکھ کا تارا بھی ہیں۔ پرویز الہٰی کو لاہور ہائیکورٹ سے وقت ملنا اور چودھری شجاعت کے خط کو عدالت کی جانب سے مسترد کر دیا جانا، یہ سب علی افضل ساہی کی وجہ سے ہی ممکن ہو رہا ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ جنرل باجوہ نے اس وقت کے چیف جسٹس کو کہا کہ عمران خان کے بنی گالا والے گھر کی بے قاعدگی کے کیس میں ان کی مدد کریں۔ اس کے علاوہ انہوں نے عمران خان کو کہا کہ جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے تیار ہو جائیں تا کہ توازن برقرار رکھا جا سکے۔ پاکستان میں عدلیہ اور انتظامیہ سب استعمال ہوتے رہے ہیں۔ پرویز مشرف سے سوال کیا گیا تھا کہ غداری کے مقدمے کے باوجود آپ کیسے ملک سے باہر چلے گئے تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے عدلیہ سے مجھے ریلیف دلوایا تھا۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔