موجودہ سیاسی منظرنامے میں مقبولیت کے دعوؤں، ہمدردیوں کے خدشات اور غیر مساویانہ رویوں سے متعلق کئی خبریں گردش کر رہی ہیں جن کا صحیح اندازہ لگانے کے لئے پرویز مشرف کی حکومت کے بعد 2008 سے لے کر تاحال سیاسی منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لینا پڑے گا۔
اگر تین بڑی سیاسی جماعتوں کو اس کینوس پر رکھ کر دیکھیں تو 2008 کے انتخابات میں تو کسی بھی جماعت کو جانبداری کی کوئی خاص شکایت نہیں رہی اور پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا جس کے پیچھے بے نظیر کی شخصیت اور شہادت کی ہمدردیاں بھی شامل حال تھیں اور مسلم لیگ ن کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر عمل پیرا رہتے ہوئے پہلی دفعہ جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کا ریکارڈ بنایا۔ اس دوران ان کو مُک مُکا کے طعنے بھی ملے اور مشکلات بھی کھڑی کی جاتی رہیں۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو نا اہل کر دیا گیا۔ علامہ طاہرالقادری نے دھرنا بھی دیا اور اس دوران پوری کوشش کی جاتی رہی کہ اسملبی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر پائے۔
اسمبلی تو اپنی مدت پوری کر گئی مگر پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت کو قائم رکھنے میں ناکام رہی۔ یوں 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو مرکز میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا اور پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا جبکہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کو بھی اچھی خاصی سیٹیں مل گئیں۔ کے پی کے میں بھی اے این پی اور جماعت اسلامی اپنی مقبولیت کو قائم نہ رکھ پائیں اور تحریک انصاف کو وہاں اتحادی حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ یہ ایک سنہری موقع تھا کہ پی ٹی آئی اپنی کارکردگی دکھا کر عوام میں اپنی ساکھ بنا سکتی۔
2013 سے لے کر 2018 تک مسلم لیگ نواز نے مشکلات کے باوجود اچھی کارکردگی دکھائی۔ ان کی حکومت کے خلاف پاکستانی تاریخ کے طویل ترین دھرنے ہوئے اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حکومت گرانے میں تحریک انصاف کی کھل کر حمایت کی گئی۔ اسی دوران 2017 میں نواز شریف کو اقامے کے بنیاد پر ایک انتہائی کمزور مقدمے میں نا اہل کر کے اگلے انتخابات سے قبل کئی مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت بنوائی گئی اور جس طرح بنوائی گئی یہ آج ایک کھلی کتاب کی طرح ہر ایک کو معلوم ہے۔
یوں 2018 سے لے کر 2022 تک تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں کے علاوہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اپنے ساتھ ہونے والی دھاندلی اور ناانصافیوں پر، جن میں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور جمیت علماء اسلام شامل ہیں، مسلسل احتجاج کرتی رہیں اور اس دوران ہونے والے ضمنی انتخابات میں برابری کی بنیاد پر شرکت کا مطالبہ کرتی دکھائی دیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کو اداروں کی طرف سے ہر طرح کی حمایت حاصل رہی جس کا تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے سہولت کار اعتراف بھی کر چکے ہیں۔
اس کی بنیاد پر تحریک انصاف کی مقبولیت کے آج بھی ڈھنڈورے پیٹے جا رہے ہیں مگر اس کی اصولوں کی بنیاد پر زمینی حقائق سے مطابقت کو ثابت کرنا یا اس کے جائز ہونے کو جمہوری جواز فراہم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ کیونکہ بیساکھیوں کے سہارے حاصل کی گئی مقبولیت کی تقویت اب کھو چکی ہے اور اس کی واپسی کی بھی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ اس لئے اب اگر مقبولیت کے پیمانوں کو اصولی تقاضوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو 2008، 2013 اور 2018 کے انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حقیقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔
2008 میں تحریک انصاف کے پاس کوئی بھی نشست نہیں تھی جبکہ 2013 میں کے پی کے میں ان کی جماعت اسلامی کی حمایت سے سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنی تھی جہاں آج بھی ان کی پوزیشن مستحکم دکھائی دیتی ہے۔ مرکز میں ان کے پاس 272 میں سے 28 سیٹیں تھیں اور چار سیٹوں پر ان کے دھاندلی کے اعتراضات تھے۔ ان چار کو بھی اگر ملا لیا جائے تو 32 سیٹیں بنتی ہیں جو تحریک انصاف کی اصل مقبولیت تھی۔ اگر 2018 میں ان کی سہولت کاری کی محنت کو بھی شامل کر لیا جائے تو بھی الیکٹ ایبلز اور دوسری پارٹیوں جنہیں دباؤ ڈال کر حکومت میں شامل کیا گیا، اس کے باوجود بھی 123 نشستیں حاصل کر سکے تھے اور یوں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بندوبست کے ذریعے سے آزاد، مسلم لیگ ق، باپ، ایم کیو ایم اور عوامی مسلم لیگ کی سیٹیں ملا کر سادہ اکثریت سے حکومت بن پائی تھی جسے بقول عمران خان کے فون کالوں کے ذریعے سے چلایا جاتا رہا تھا۔ پہلے چند ماہ کے اندر ہی ان کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کا غیض و غضب انگڑائیاں لینے لگا تھا اور تین سال میں تو لاوے کی صورت اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ بالآخر جیسے ہی بیساکھیوں نے ڈولنا شروع کیا تو عدم اعتماد سے ان کی حکومت جاتی رہی۔
یہ تو تحریک انصاف کی قسمت اچھی ثابت ہوئی کہ عدم اعتماد سے ان کی حکومت چلی گئی اور عوامی غیض و غضب کا لاوا پھٹتے پھٹتے پی ڈی ایم کی شامت آ گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کا سارا ملبہ ان پر گر گیا جسے وہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ وگرنہ اگر ان کی حکومت عدم اعتماد سے ختم نہ ہوتی تو تحریک انصاف کا حال بھی پیپلز پارٹی کی طرح ہی ہوتا جو 2008 سے 2013 تک کی اپنی حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے آج بھی مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آ سکی۔ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی اس 17 ماہ کی حکومت کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ نون کو ہوا جس کی 2013 سے لے کر 2018 تک کی کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت سب سے بہتر تھی جس کی دلیل 2022 میں عدم اعتماد سے پہلے تحریک انصاف کے ممبران کا مسلم لیگ نون سے رابطے کرنا ہے۔ اس دوران آئے روز پی ٹی آئی کا کوئی نہ کوئی ممبر اگلے انتخابات کے لئے ن لیگ کے ٹکٹ کا خواہاں دکھائی دیتا تھا۔
مگر جیسے ہی اپریل 2022 میں حکومت تبدیل ہوئی اور پی ڈی ایم مہنگائی کو کنٹرول نہ کر سکی تو مقبولیت کا گراف بھی بدلنے لگا اور چونکہ وزارت عظمیٰ، خزانہ اور داخلہ مسلم لیگ کے پاس تھی اس لئے سب سے زیادہ نقصان بھی انہی کو ہوا لیکن اس کے باوجود بھی اگر موجودہ سیاسی منظرنامے پر نظر دوڑائی جائے تو اب بھی مسلم لیگ نون دوسری جماعتوں سے بہتر پوزیشن میں ہے۔
اس کا اندازہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد یا سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ میں ان کے رجحان سے لگایا جا سکتا ہے جس کی وجہ ان کا مسلم لیگ نون کی سابقہ کارکردگی پر اعتماد اور معاشی مسائل پر قابو پانے کی صلاحیتوں پر قائم امیدیں ہیں۔ اسی طرح کا رجحان ان کے ٹکٹ کے حصول کے لئے امیدواران میں مقابلے کی کشمکش سے بھی لگایا جا سکتا ہے جبکہ دوسری جماعتوں کے امیدواران بھی پورے نہیں ہو پا رہے۔ اسی طرح کا رجحان عوام میں بھی موجود ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عام سمجھ بوجھ تو ہر کوئی رکھتا ہے اور اگر مشرف کی حکومت کے بعد کے تینوں ادوار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہر جماعت کو مرکز اور صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے اور اب کوئی بھی یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ اس کو خدمت کا موقع نہیں ملا مگر کارکردگی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو ترقیاتی کاموں اور عام آدمی کو مہیا آسائشوں کی بنیاد پر مسلم لیگ نون کا 2013 سے 2018 کے دور کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یوں عوام کا بھی رجحان مسلم لیگ نون کی طرف ہونا ایک فطری عمل ہے جس کی عکاسی موجودہ نئے سروے میں بھی نظر آ رہی ہے۔
پچھلے 17 ماہ کی حکومت کا ان کی مقبولت پر اثر ضرور پڑا ہے جس کے لئے ان کی دو تہائی کی حکومت کا چانس خطرے میں دکھائی دیتا ہے جس کے لئے ان کو سخت محنت درکار ہو گی اور اس کے لئے وہ مختلف جماعتوں کے ساتھ سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کر کے جمہوری طریقوں سے اپنی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے سہولت کاری کا تاثر پیش کیا جا رہا ہے جو ٹھیک دکھائی نہیں دیتا۔ جمہوریت اور سہولت کاری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں آزادی رائے سے حمایت کی جاتی ہے جبکہ سہولت کاری میں دباؤ کا عنصر ہوتا ہے جس کا موجودہ سیاسی منظرنامے میں کوئی اظہار یا اعتراف نہیں مل رہا۔
جہاں تک سیاسی جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کا حق دینے کی بات ہے تو اس پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ سب کو برابر ٹریٹ کیا جانا چاہئیے۔ اس بارے مختلف جماعتوں کی طرف سے تحفظات بھی سامنے آ رہے ہیں جن میں تحریک انصاف پہلے نمبر پر ہے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کا ازالہ ہر صورت ضروری ہے جس کا تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کوئی حل ڈھونڈنا چاہئیے۔
ان خدشات اور الزامات کی بنیاد نواز شریف کے مقدمات میں بریت، تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور دوسرے قائدین کے خلاف مقدمات اور ان کے ممبران کی جانب سے جماعت کو چھوڑنے کے واقعات کو بنایا جا رہا ہے۔ اس کی حقیقت تو یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف ان مقدمات کو تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں، جب تمام وسائل ان کو مہیا تھے، بھی ثابت نہ کر سکی اور دوسرا اب تک ان مقدمات کے جھوٹے ہونے کی کئی شہادتیں سامنے آ چکی ہیں بلکہ عدلیہ کے اندر سے بھی ناقابل تردید مخبریاں موجود ہیں اور نیب بھی ان جھوٹے مقدمات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے جس کو تفصیلی طور پر میں پچھلے کالموں میں بیان کر چکا ہوں۔
جہاں تک برابری کی بنیاد پر انتخابات میں شمولیت کے خدشات اور تحفظات کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ بھی سیاسی حالات سے ابھرتے اشاروں سے لگایا جا سکتا ہے، جیسے چند دن قبل وزیر داخلہ نے استعفیٰ دینے کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تحریک انصاف کا جہاں تک تعلق ہے تو انہوں نے اسمبلیوں سے استعفے دے کر خود دوسری جماعتوں کو نگران حکومتیں مقرر کرنے کا موقع فراہم کیا تھا جس کے کچھ نہ کچھ اثرات بھی ہوں گے لیکن 9 مئی کے مقدمات سے بھی یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ ان کے خلاف سختی ہو رہی ہے۔ حالانکہ یہ سب ان کی اپنی سیاسی حکمت عملیوں سے جنم لینے والی مجرمانہ سرگرمیوں کے نتائج ہیں جن کی پاداش میں صرف ان کے کارکن ہی زیر تفتیش نہیں بلکہ فوج کے ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ افسران بھی محکمانہ تفتیش کا سامنا کر چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ان پر سختیوں کا سبب ان کا اپنا کردار اور رویہ بھی ہے جس کی دلیل ان کا ریاستی اداروں کے خلاف الزام تراشیوں اور سہولت کاریوں پر مبنی بیانیہ ہے جسے وہ ماضی میں خود کو میسر سہولتوں پراستدلال کر کے خدشات کی بنیاد پر افواہوں کی صورت پھیلا رہے ہیں۔ یہ ان کی مکمل آزادی کو سیاسی عدم استحکام کے خطرات سے منسوب کرنے کا تاثر پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا ان کی اپنی حکمت عملیوں کا کچھ خمیازہ تو ان کو بھگتنا ہی پڑے گا۔
اس کا حل یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کا اختیار کسی منظم اور پر امن تعارف کی حامل حامد خان جیسی شخصیت کو دیں تا کہ ان کے بارے عمومی تاثر کو بہتر بنایا جا سکے۔ ان کے جمہوری و عوامی مینڈیٹ کا احترام بہرحال ان کا حق ہے جو ان کو ملنا چاہئیے جس کی سپریم کورٹ ہدایات بھی جاری کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کے چیئرمین الیکشن کمیشن پر اعتراض پر تینوں جماعتوں نے مخالفت کرتے ہوئے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور تحریک انصاف کے کارکنان یا امیدواران پر بے بنیاد الزامات پر پکڑ دھکڑ اور خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش بھی قابل مذمت ہے۔
سیاسی جماعتوں پر سختیاں آتی رہتی ہیں لیکن اگر کارکن مستقل مزاج اور مضبوط ہوں تو سختیوں کو جھیل کر بھی مقابلہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت کا اظہار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس طرح 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز پر سختیوں کے باوجود انہوں نے حالات کا مقابلہ کیا۔ نواز شریف اور مریم نواز جیل میں تھے اور ججز کو یہ کہا جا رہا تھا کہ انتخابات سے قبل ان کو باہر نہیں آنے دینا، ورنہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ لیکن اس سے پی ٹی آئی پر موجودہ سختیوں کا جواز بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح اگر آج تحریک انصاف کے کارکن بھی جرات، اصولی سیاست اور جمہوری اقدار کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے میدان میں آئیں تو مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں اور جہاں جہاں ان کی حقیقی مقبولیت ہے وہاں وہ اپنے جلسے اور کنونشن کرنے میں اب بھی کامیاب ہیں جس کی دلیل کے پی کے ہے۔ وہاں ان کے پاس جماعت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے امیدوار ہیں اور وہاں ان کے کارکن اپنی انتخابی کمپین بھی چلا رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باقی صوبوں میں ان کی مقبولیت اب پہلے کی طرح نہیں رہی، وگرنہ کے پی کے کی طرز پر ہر طرف ان کی سیاسی ہلچل ضرور نظر آتی۔
اسی طرح اگر سوشل میڈیا کے ذریعے سے ابھرنے والے تاثرات سے اندازہ لگائیں تو تحریک انصاف دوسری جماعتوں سے لیڈ کر رہی ہے مگر اس کو انتخابی سیاست میں کامیابی کے اندازوں کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس کے مصنوعی ہونے کے خدشات کے ساتھ ساتھ اس میں حلقوں، شہریت اور ووٹ کی اہلیت کی بنیاد پر کوئی حوالہ موجود نہیں ہوتا اور اس میں انٹرنیٹ تک رسائی اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی مہارت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے جس سے حتمی اندازہ لگانا مشکل امر ہے۔