اردو صحافت نے کبھی بھی جنا ح کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تاکہ ایک غیر جانبدرانہ طریقے سے حقائق آنیوالی نسلوں تک پہنچائے جاسکیں ۔ یہ المیہ ہے کہ برصغیر کے اس حصے کی صحافت مذہبی قدامت پرستوں کے ہاتھوں میں رہی جن کی عینک کبھی بھی نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کو اس کی اصل روح کے مطابق دیکھنے کی بصیرت پیدا نہ کر سکی ۔ اردو صحافت نے کبھی بھی ترقی پسند ادیبوں (ڈاکٹر عائشہ جلال ، زیڈ ایچ زیدی ،سٹینلے فولپرٹ)کو جگہ نہیں دی کیونکہ وہ سوال اٹھاتے تھے ۔قیام پاکستان کے بعد صحافت بلخصوص ان علاقوں (پنجاب)میں جہاں کی اشرافیہ اہم سرکاری عہدوں پر قبضہ کرچکی تھی ، ہمیشہ یہی کوشش کی کہ نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان ایک مخصوص رنگ میں پیش کرکے الجھائے رکھا جائے تاکہ اس اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہوسکے!یہ ضروری نہیں ہوتا کہ محض آئین میں نظریہ پاکستان کے تحفظ کی ضمانت دینے سے وہ نظریہ محفوظ ہوجائے اس کیلئے منطقی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تبدیل ہوتے وقت کیساتھ نظریہ اپنے تاریخی حقائق کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ 76 سال گزرنے کے باوجو ریاست صحافت کو ابھی تک سینسر شپ کی زنجیروں میں قید رکھنے کی روش پر قائم ہے ۔ آج کے پاکستان میں جناح کی زندگی پر تحقیق کرنے کی آزادی نہیں ، ایسے میں کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم مستقبل کی نسل کو پاکستان کی حقیقی اساس سے روشناس کرواسکیں گے؟آج محمد علی جناح کا 148واں یوم پیدائش ہے یہ کسی بھی ترقی پسند قوم کیلئے اپنے محسن کو خراج تحسین پیشن کرنے کا سنہری موقع ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ دن نظریاتی تفریق پیدا کرنے والے بعض نام نہاد دانشوروں کو ایک ایسے موقع کے طور پر میسر آتا ہے جہاں وہ اپنی دکان چمکا سکیں۔
جناح کی سیاسی جدوجہد ، ازدواجی زندگی اورقیام پاکستان
جناح نے پاکستان بنانے کی جدوجہد کا آغاز اگرچہ 1906 میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہونے کیساتھ ہی کردیا کردیا تھا ، لیکن 1913 میں جب محمد علی جناح نیشنل کانگریس سے مایوس ہوگئے تو انھوں نےآل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا، جس کے پیش نظرمسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد اور اتحاد اولین مقصد تھا ۔ اور پھر 3 سال بعد ہی تاریخ نے جناح کی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیکھا جب 1916 میں معاہدہ لکھنوء سامنے آیا جس میں محمد علی جناح نے کلیدی کردار ادا کیا جس نے نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کو مل کر برصغیر کیلئے خودمختاری کا مطالبہ کرنے پر راضی کیا ۔ لیکن جلد ہی محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے خیال سے باہر آگئے جس کی وجہ 1920میں فرقہ وارانہ ہندو مسلم فسادات اور نیشنل کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کے مفادات کو نظر انداز کرنا تھا ۔ پھر 1930 کی دہائی کے اس عرصے میں محمد علی جناح کو ڈاکٹر محمد اقبال کے دو قومی نظریئے کی طرف مائل ہونے پر مجبورہوئےجسکے بعد بلاا ٓخر محمد علی جناح مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست کے مطالبے کیلئے جدوجہد کرنے پرتیار ہوگئے،جو 1947میں قیام پاکستان کی صورت انجام کو پہنچا اور یوں پاکستانی قوم کو محمد علی جناح کی صورت میں قائداعظم مل گیا ۔۔۔لیکن سفر یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تکمیل پاکستان کی جدوجہد کا سفر یہاں سے شروع ہو نا تھا اس سے پہلے کہ قدرت انہیں مزید موقع دیتی انہیں ٹی بی جیسے موذی مرض نے آن لیا اورجس نے بعد میں پھیپھڑوں کے کینسرمیں مبتلا کردیا، وہ زندگی کی بازی ہار گئےاور 11 ستمبر 1948 کو خالق حقیقی سے جاملے ( یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ شدید بیماری کے سبب جب انہیں کراچی جس ایمبولینس میں منتقل کیا جارہا تھا وہ راستے میں ہی خراب ہوگئی تھی )۔
سیاسی جدوجہد کے اس عرصے کے دوران محمد علی جناح کو ذاتی زندگی میں بھی کئی مشکلات کا سامنا رہا جسےپاکستان کی سیاسی تاریخ پرسند کا درجہ رکھنے والے مؤرخین نے اپنی تحریروں میں قلم بند کیا ہے ۔محمد علی جناح نے 18 سال کی پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی ریتی پٹیل سے شادی کی جس نے شادی سے قبل ہی اسلام قبول کرلیا تھا ،جناح شادی کے بعد اپنے سیاسی معاملات میں اس قدرمصروف ہوگئے کہ وہ ریتی کیلئے وقت نہ نکال سکے ، برطانونی مصنف Stanely Wolpert اپنی کتاب "Jinnah of Pakitan"(صفحہ 134)میں لکھتے ہیں:”Ruttie’s marriage to Jinnah was tragic failure…she married a man who was sixteen years her senior, and who was totally absorbed in his work… Ruttie’s desire for independence and her frustration with Jinnah’s neglect of her eventually led to their separation.”
ریتی جناح کےہاں 15 اگست 1919میں ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی جس کا نام دینا واڈیا جناح رکھا گیا ، لیکن ریتی کچھ ہی عرصہ بعد علیل رہنے لگیں ، اور وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریتی جناح اپنی وفات سے کچھ مہینے قبل ہی محمد علی جناح سے علحیدگی اختیار کر چکیں تھیں لیکن طلاق تک نوبت نہیں پہنچی تھی ،ریتی جناح 29 سال کی عمر میں 20 فروری 1929 میں انتقال کرگئیں۔
کیا محمد علی جناح کا پاکستان ایک سیکولر ریاست تھا ؟
قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 11اگست کی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ پاکستان ایک سیکو لر ریاست ہوگا ،ان کے الفاظ شاید آج کے پاکستان کو بھی اپنی سمت درست کرنے کا پیغام دیتے ہیں :You are free to go to your temples; you are free to go to your mosques or to any other place of worship in the State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed- that has nothing to do with the business of the State.”
تقریر کے ان نکات سے تو جناح نے پاکستان کے بطور ریاست خدوخال کو واضح کردیا تھا لیکن پھر تاریخ نے دیکھا کہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا اشرافیہ نے اس ریاست کو قدامت پرستی اور مذہبی انتہا ء پسندی کی طرف دھکیلنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔آج کے دانشور کو سمجھنا چاہیے کہ جس معاشرے میں نوجوان نسل کو جب تک حقیقت کی آنکھ سے حقائق دیکھنے کی آزادی نہیں ہوگی وہ معاشرہ طبقاتی طور پر مزید تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جائے گا ۔اور یہ دانشور طبقے اور آزاد صحافت کی ذمہ داری ہے کہ حقائق چاہے وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں ، ان پر ہرگز سمجھوتا نہ کیا جائے ۔
ڈاکٹر عائشہ جلال کی تحریریں تحریک پاکستان پر سند کا درجہ رکھتی ہیں،دنیا انھیں پاکستان کے بارے میں جاننے کیلئے خصوصی لیکچرز کیلئے مدعو کرتی ہےلیکن ریاست نے ان پر سینسر شپ عائد کررکھی ہے ۔ڈاکٹر عائشہ جلال اپنی کتاب(The Sole Spokesman: Jinnah, the Muslim League and the Demand for Pakistan)
میں محمد علی جناح کی شخصیت ، سیاسی جدوجہد اور مسلم لیگ کیساتھ ان کے تعلقات کا وسیع احاطہ کیا ہے۔ کیا محمد علی جناح کا پاکستان ایک مذہبی ریاست تھا ؟ اس بارے ڈاکٹر عائشہ جلا ل اپنی کتاب کے صفحہ 201 پر لکھتی ہیں کہ Jinnah’s Pakistan was not intended to be a theocratic State, but a modern democratic state with a Muslim majority.”
جبکہ جناح کی قائدانہ صلاحیتوں اورمسلم لیگ کیساتھ تعلقات کے بارے میں ڈاکٹر عائشہ جلال کا کہنا ہےکہ (صفحہ123)“Jinnah’s leadership was not based on any emotional appeal to the masses, but on his ability to persuade and negotiate with the British and other Indian leasers.”
صفحہ 156پر مسلم لیگ کیساتھ تعلقات کے بارے ڈاکٹر عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ :Jinnah’s relationship with the Muslim League was complex and often tumultuous…He had to navigate the intrigues and rivalries within the party to maintain his relationship.”
محمد علی جناح پر زیڈ ایچ زیدی کی کتاب Jinnah Papers ( جو قائداعظم کے تاریخی خطوط اور دستاویزات پر مبنی ہے) جس پر ضیاء دور میں پابندی لگادی گئی، وہ محمد علی جناح کے پاکستان اور اسکے مستقبل کے آئین کو لے کر لکھتے ہیں (صفحہ345):“The constitution of Pakistan should be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam.”
پاکستان کے بطور مذہبی ریاست کے حوالے سے قائداعظم کے لیاقت علی خان کو لکھے ایک تاریخی خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں (صفحہ 305)“I am not in favor of a theocratic state… We must have a modern, democratic government…”
پاکستان ، صحافت اور ریاست
ان تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناح نہ تو کبھی پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی صدارتی نظام کے حامی رہے ، لیکن مخصوص دانشور طبقے نے معاشرے میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ صحافت نے بھی اس ضمن میں اپنا کردار خوب ادا کیا ، تحریک پاکستان کو تحریک آزادی کشمیر سے منسلک کیا گیا ، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر نظریاتی ریاست کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان تقاضوں کی تکمیل کیلئے ہم اپنی نئی نسلوں کے ذہنوں کو ابہام میں مبتلا کردیں ،تاریخی حقائق تک ان کی رسائی کو ناممکن بنادیں ، نصاب میں غیر جانبدرانہ لٹریچر شامل کرنے سے ہی پاکستان کی نظریاتی بنیادیں مضبوط ہوسکتی ہیں ۔ ایک طرف پاکستان میں صحافت کو بھی اپنی روش تبدیل کرنے کی ضرورت ہے 76سال کسی بھی ریاست میں صحافت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے کافی ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں صحافت نہ صرف مخصوص مفادات کی آماجگاہ بن کر رہی گئی ہے بلکہ عوام کو تاریخی حقائق کا شعور دینے کی بجائے مزید انتشار کا شکار کررہی ہے۔ اور دوسری طرف ریاست ففتھ جنریشن وار سےلے کر ڈیجیٹل دہشتگردوں کے تعاقب تک اپنی تمام توانائیاں خرچ کرنے میں مصروف ہے۔ ایسے میں ڈیجیٹل نیشن کا خواب کیسے تکمیل کو پہنچے گا یہ آنیوالے وقت پر منحصر ہے!