Get Alerts

درخواست ضمانت مسترد: کیا ایک اور سیاسی لیجنڈ جنم لے رہا ہے؟‎

درخواست ضمانت مسترد: کیا ایک اور سیاسی لیجنڈ جنم لے رہا ہے؟‎
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوموار، 25 فروری کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی خرابی صحت کی بنا پر ضمانت کیلئے دائر درج کی گئی درخواست مسترد کرتے ہوئے خارج کر دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ جو کہ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر پر مشتمل تھا اس نے اپنے نو صفحات کے فیصلے میں یہ تحریر کیا کہ عدالت یہ محسوس کرتی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان میں دستیاب بہترین طبی سہولتیں دی جا رہی ہیں اور میڈیکل رپورٹوں کی روشنی میں ایسا نہیں لگتا کہ نواز شریف کو خرابی صحت کے بارے میں زندگی کے خطرات لاحق ہیں۔ نواز شریف نے جب بھی صحت کی خرابی کی تشویش کے حوالے سے شکایت کی ہے انہیں بہتر سے بہتر علاج معالجہ فراہم کیا گیا ہے اس لئے عدالت اس درخواست کو رد کرتی ہے۔

کیا معاملات واقعی میں اتنے سادہ اور شفاف ہیں؟

بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں اور مسلم لیگ نواز کی اعلیٰ قیادت کا خیال تھا کہ نواز شریف کو خرابی صحت کی بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت مل جائے گی۔ جبکہ وہ دانشور اور ٹی وی اینکرز جو دھرنے کے دنوں سے تحریک انصاف اور اس کی پشت پر موجود قوتوں کا ساتھ دیتے آئے ہیں ان کے خیال میں نواز شریف اور مقتدر حلقوں میں مفاہمت ہو چکی تھی اور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد نواز شریف نے خاموشی سے مریم نواز کے ہمراہ لندن نکل جانا تھا۔ خود تحریک انصاف کے وزرا بھی ڈیل کی باتیں کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن ان دعؤوں اور باتوں کے برعکس نواز شریف کو عدالت سے ریلیف نہیں ملا۔ عدالتی فیصلہ آنے کے چند گھنٹوں بعد نواز شریف نے ہسپتال میں شہباز شریف سے ملاقات کی اور پھر جناح ہسپتال کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ انہیں کوٹ لکھپت جیل واپس منتقل کر دیا جائے۔ یوں نواز شریف دوبارہ جیل منتقل ہو گئے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی نواز شریف اور مریم نواز کے حوالے سے مقتدر قوتوں کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کاوشیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائی ہیں اور مقتدر قوتیں نواز شریف کو سبق سکھاتے ہوئے یہ پیغام ببانگ دہل دینا چاہتی ہیں کہ مسلم لیگ نواز صرف مائنس نواز شریف اور مائنس مریم نواز کی صورت میں ہی قابل قبول ہے۔



یہ بھی پڑھیے: سابق وزیر اعظم نواز شریف اور چیف جسٹس ثاقب نثار آمنے سامنے







یہ فارمولہ نیا نہیں ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں جب نواز شریف، شہباز شریف کو سعودی عرب جلاوطن کیا تھا تو بعد ازاں انہوں نے شہباز شریف کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ اگر وہ نواز شریف کو چھوڑ کر پاکستان واپس آ کر مسلم لیگ نواز کی قیادت سنبھال لیں تو معاملات سدھر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پھر 2014 میں جب مقتدر قوتوں نے عمران خان سے 126 دنوں پر مشتمل ایک طویل دھرنا کروا کر اور سیاسی نظام مفلوج کروا کے پھر سے نواز شریف کو استعفا دے کر مائنس ہونے کیلئے کہا تو نوا شریف پھر بھی نہ مانے اور بالآخر "عدالتی ہتھوڑے" کی ضرب لگا کر انہیں وزارت عظمیٰ اور سیاست دونوں سے نااہل کر دیا گیا۔ پاکستان میں منتخب عوامی رہنماؤں کیلئے مقتدر قوتوں سے لڑائی مول لینے کا انجام کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی صورت، کبھی بینظیر کی جلا وطنی کی صورت کبھی منتخب وزیراعظم پر طیارہ ہائی جیک کرنے اور اب جیل کے پیچھے وقت بسر کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یاد رہے کہ ایون فیلڈ کیس جس میں نواز شریف کو پہلے وزارت عظمیٰ سے نااہل کیا گیا تھا اور بعد میں سیاست سے، اس کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی معطل کر چکی ہے اور العزیزیہ ریفرنس کیس جس میں نواز شریف کو سزا سنائی گئی ہے اس کی سماعت ابھی تک ہائی کورٹ نے شروع ہی نہیں کی۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ بڑے بڑے انفراسٹرکچر اور بجلی کے منصوبے لگانے والے نواز شریف کے خلاف سرکاری خزانے میں خرد برد کا کوئی الزام موجود نہیں ہے بلکہ اس کے کاروباری اور نجی اثاثوں کو جواز بنا کر مقدمے قائم کر کے اسے سبق سکھایا جا رہا ہے۔

دوہرا معیار عدل اور برتاؤ

سابق آمر پرویز مشرف جس پر خصوصی عدالت میں آئین توڑنے اور سپریم کورٹ کے اعلیٰ منصفوں کو قید کرنے کی پاداش میں غداری جیسا سنگین مقدمہ چلایا جا رہا تھا اسے عدالت پیشی کے موقع پر اے ایف آئی سی منتقل کر دیا گیا اور خرابی صحت کو عذر بنا کر اسے وہیں محفوظ رکھا گیا۔ بیچارے سول اداروں یا عدالت کی کیا مجال تھی کہ اس ہسپتال کے آس پاس بھی پھٹکتے اور چند ہفتوں بعد خاموشی سے پرویز مشرف کو خصوصی طیارے کے ذریعے بیرون ملک منتقل کر دیا گیا اور عوام کو یہ بتایا گیا کہ پرویز مشرف اپنا علاج کرواتے ہی وطن واپس آ جائیں گے۔ ان دنوں پرویز مشرف کو نواز شریف کی مانند دل کا عارضہ لاحق نہیں تھا اور نہ ہی ان کے دل کا کوئی آپریشن ہوا تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=4S08I4Xba4k

اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے دبئی میں چھپائے گئے اثاثوں اور ٹیکس چوری کے باوجود ان پر کسی بھی قسم کا مقدمہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کوئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اس بات کا کھوج لگانے کیلئے مقرر کی گئی کہ انہوں نے یہ اثاثے بنائے کیسے۔ عدالت نے علیمہ خان پر جرمانہ عائد کیا جبکہ مریم نواز کو ایک ایسی دستاویز جسے محض واجد ضیا کی مہربانی کی بدولت جعلی مان لیا گیا اس پر سات برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سزا کو معطل کرتے ہوئے نیب اور واجد ضیا کی ٹیم کی سرزنش کی۔ اسی طرح عمران خان کی آف شور کمپنی "نیازی سروسز" کا معاملہ ہو یا ان کے اور ان کی جماعت کے خلاف ہنڈی کی مدد سے پیسے منگوانے اور غیر ملکیوں سے پیسے لینے کا فارن فنڈنگ کیس ہو، ان معاملات میں عمران خان کو کچھ بھی نہیں کہا گیا کیونکہ وہ ابھی مقتدر قوتوں کے "راج دلارے" ہیں۔ جبکہ دوسری جانب نواز شریف کو اس کے بیانئے کے باعث نہ صرف پابند سلاسل رکھا گیا ہے بلکہ اس کی سیاسی ساکھ کو مجروح کرنے کی بھی سرتوڑ کوشش کی گئی ہے۔

کیا بھٹو کی مانند ایک اور سیاسی لیجنڈ جنم لے رہا ہے؟

جب جنرل ضیاالحق نے مارشل لا نافذ کر کے بھٹو کا تختہ الٹا اور بھٹو کو پھانسی چڑھایا تو خود اسے اور اس کے ساتھیوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ بھٹو کو ایک ایسا لیجنڈ بنا رہے ہیں جو مر کر بھی اپنی جماعت کیلئے ووٹ حاصل کرتا رہے گا۔ ایک ایسا لیجنڈ جو ابھی بھی سندھ میں زندہ ہے اور پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی کے باوجود اسے سندھ کی حد تک سب سے مقبول جماعت بنائے رکھنے میں کامیاب ہے۔ جب 1987 میں بھٹو کی بیٹی بینظیر نے پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا تو مقتدر قوتوں کو ادراک ہوا کہ انہوں نے بھٹو کو مار کر ایک ایسا لیجنڈ تیار کر لیا ہے جو اب اپنے سولی چڑھنے کا بدلہ سندھ کے عوام سے ووٹ لے کر لیتا رہے گا۔ لیکن یہ سبق جلد ہی فراموش کر دیا گیا اور جب 1999 میں پرویز مشرف نے مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو اس نے بھرپور کوشش کی کہ نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں سزائے موت دلوا دے۔ اگر اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن جو نواز شریف کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے سعودی عرب کے ذریعے مداخلت نہ کرتے تو نواز شریف کا سولی چڑھنا طے ہو چکا تھا۔ بل کلنٹن نے سعودی عرب کی مدد سے مشرف کو قائل کیا کہ وہ نواز شریف کو پھانسی نہ دے اور اسے سعودی عرب جلا وطن کر دے۔

https://www.youtube.com/watch?v=lxqqr_SKLV0

لیکن نواز شریف 2007 میں وطن واپس آیا اور 2013 میں تیسری بار منتخب وزیراعظم بن کر مقتدر قوتوں کو یہ سبق دیا کہ عوامی رہنماؤں کی قسمتوں کے فیصلے مقتدر قوتوں کے اختیار میں نہیں بلکہ عوام کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اس کے بعد نواز شریف نے طاقت کی بساط پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا شروع کیا۔ خارجہ پالیسی کا محاذ خود سنبھالا اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ہمسایہ ممالک سے اچھے اور پرامن تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی اور پراکسی جنگوں کے بیانیوں کو الوداع کرنے کی کاوشیں شروع کر دیں۔ اس کے باعث ملک میں سیاسی عمل میں تبدیلی آنی شروع ہوئی اور مقتدر قوتیں اپنے آپ کو بیک فٹ پر پا کر کچھ خوش دکھائی نہیں دیں۔ نتیجتاً نواز شریف کی کردار کشی کی مہم کا آغاذ ہوا، بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کو اس کام میں ساتھ ملایا گیا۔ اسے نااہل کیا گیا پھر سیاسی انجیئنرنگ کے عمل کے ذریعے اسے انتخابی میدان میں شکست دی گئی اور بعد میں حوالات کی کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا۔



یہ بھی پڑھیے: اے قائدِ جمہوریت، اے بنتِ نواز







اس کی بیٹی مریم نواز میں اس وقت اس بینظیر کی جھلک نظر آتی ہے جو خاموشی اور ہمت کے ساتھ اپنے باپ پر ہونے والے مظالم برداشت کرتی رہی۔ مریم آگے چل کر بینظیر جیسا سیاسی مرتبہ حاصل کر پائیں گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن نواز شریف کیلئے مشکلات کے باوجود اس وقت قید یا رہائی دونوں صورتوں میں جیت ہی ہے۔ اگر دوران قید نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے تو بھٹو کی مانند نواز شریف ساری عمر ووٹ حاصل کرتا رہے گا۔ اور اگر نواز شریف رہا ہو کر باہر آ جاتا ہے تو اس کے بیانئے کو اور زیادہ تقویت ملے گی۔ اس وقت صورتحال بھٹو اور ضیا کے دور کی مانند ہے یعنی مردے دو ہیں اور قبر ایک۔ یا تو مقتدر قوتوں کی مطلق العنانیت اس میں دفن ہو گی یا نواز شریف اور اس کا بیانیہ۔ دونوں ہی صورتوں میں ہم ایک ایسے سیاسی لیجینڈ کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جس کا مقتدر قوتوں کے خلاف تیار کردہ سیاسی بیانیہ پنجاب جیسے واحد روایتی سٹیٹس کو کے حامی صوبے میں مقبول سے مقبول تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

https://twitter.com/HamzaTpmln/status/1100010621783949313

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔