سوشل میڈیا میں ایک نامی گرامی صارف یہ کہہ کر اپنے فالورز کو باور کرا رہے تھے کہ یوکرین کے صدر اچھے مزاح نگار ہیں۔ وہ ہر وقت کہہ رہے ہیں کہ روس کا اگلا ٹارگٹ میں اور میرا خاندان ہے اور ہم اس وقت سخت ترین مشکلات میں جی رہے ہیں۔
مجھے ایک پل ایسا لگا کہ یہ ذمہ دار اور قابل صارف سچ کی گہرائیوں سے ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں اس کی گہرائیوں میں جانے ہی والا تھا کہ ٹویٹر پر ایک قیامت خیز خبر نے زمین کو لرزا دیا۔
امریکی پرست صارف ارشادِ بائیڈن فرما رہے تھے کہ ہماری عظیم امریکی صدر نے روس کو کرارا جواب دیتے ہوئے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کو ٹویٹر پر ان فالو کر دیا ہے۔
لاکھوں تعارف سہی، دنیا کی سپر پاور کو لیڈ کرنے والے بائیڈن، پیوٹن کو ان فالو کرنے سے روس اور یوکرین کی مابین جنگ کو ختم کر سکتے ہیں؟ صارفین کی علم میں لانے کے لیے ارشادِ ٹویٹر یہ ہے کہ ٹویٹر کی ان فالو اور پیسبک کی ان فرینڈ دونوں کے الفظ الگ سہی معنی ایک رکھتے ہیں۔ ان فالو اور ان فرینڈ کرنے سے ایک صارف سے دوسرے صارف کی سماجی رابطہ ہی کاٹ سکتا ہے۔
ویسے کیا فائدہ سماجی رابطہ منقطع کرنے کا۔ جنگ روس اور یوکرین کے مابین چل رہی ہے۔ لوگ تو اُدھر مر رہے ہیں۔ کھنڈرات تو یوکرین میں بن ریے ہیں۔ خوف یوکرین میں پیدا ہو رہا ہے۔ زندگی کی موجیں، امیدیں یوکرین کی سرزمین پر خاک میں مل رہی ہیں۔ بائیڈن، پیوٹن کو ٹویٹر پر ان فالو کرنے میں لگے ہیں۔ اور بدقسمتی سے ٹویٹر پر ان فالو کرنے سے جنگ ختم نہیں ہوگی بلکہ پیوٹن کو معاشی، اقتصادی طور پر ان فالو کرنے سے اور یوکرین کا ساتھ دینے سے یہ جنگ ختم ہوگی۔
اس جنگ میں کچھ لوگ روس کو اور کچھ یوکرین کو موردِ الزام ٹھرا رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ البتہ تاریخ ایک ایسی خطرناک شے ہے جو کسی کو نہیں بخشتی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 2014 سے روس نے یوکرین کی کریمیا پر حملہ کرکے اسے اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔ تاریخ کے مطابق کریمیا پر حملے کے بعد یوکرین کے روسی نسل کے لوگ جنگجو بن گئے تھے۔
روسی حمایت یافتہ جنگجوؤں نے آزادی کے لیے لوہانسک اور ڈونیسک میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی تھیں۔ یوکرینی فوج کے ساتھ جنگ کی تھی اور اب روس نے ان علاقوں کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
تاریخ یوکرین کو سوویت یونین کے زمانے میں روس کہتا تھا۔ سوویت یونین جب روس ہوا تو یوکرین نامی ایک علاقے نے اپنی آبادی کے ساتھ ایک نیا ملک تشکیل کیا جسے یوکرین کہتے ہیں۔
پیوٹن فرماتے ہیں کہ روس، یوکرین کو پھر اپنے قبضے میں لانا چاہتا ہے۔ حالانکہ اب تو یوکرین ایک آزاد ملک ہے۔ یوکرین ایک آزاد خطہ ہے، ایک ریاست، اپنے شہری اور اپنا دفاع رکھتا ہے۔
اگر روس پھر سے سوویت یونین بنانا چاہتا ہے تو کرغزستان پر جنگ کیوں نہیں کرتا؟ ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، قازکستان، آذربائیجان، آرمینیا اور استونیہ پر جنگ کیوں نہیں کرتا؟ یہ بھی تو سوویت یونین ختم ہونے کے بعد آزاد ہوئے تھے اور آج اپنی آزاد اور خود مختار ریاستیں رکھتے ہیں۔
یوکرین بھی ایک آزاد ریاست ہے۔ یوکرین کی آزادی ساری دنیا کے نقشے میں موجود ہے۔ روس سامراج ہو کر حملہ کر رہا ہے اور یوکرینی اپنی قوم، ملک، وسائل اور اپنی آزاد ریاست کی دفاع میں روس سے جنگ لڑ رہے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادو میر زلنسکی بقول اُس صارف کے صدرِ کامیڈین کو امریکہ نے پیشکش کی کہ ہم آپ کے لیے جیٹ لا کے آپ کو بحفاظت امریکہ پہنچائیں گے تو جواباً یوکرینی صدر نے کہا مجھے جیٹ کی نہیں بلکہ جنگی ٹینکوں کی ضرورت ہے اور میں اپنی سرزمین کی دفاع کے لیے آخری سانس تک روس سے مقابلہ کروں گا۔
اب مجھے یہ بتائیے کہ یوکرینی صدر ولادیمیر زلنسکی کامیڈین ہیں، غدار ہیں یا محّبِ وطن؟
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔