محب وطن کون ہوتا ہے؟

محب وطن کون ہوتا ہے؟
پاکستان کے وہ ریاستی باشندے جو رشوت خوری، کمیشن خوری، نا انصافی، بد عنوانی اور بدد یانتی نہیں کرتے وہ محب وطن ہیں۔ محب وطن شہری کی یہی پہچان ہے کہ وہ اپنے ملک، ریاستی آئین کے ساتھ وفادار ہے، ریاست عوام کے اجتماعی طور ایک نظم کے تحت رہنے اور زندگی گزارنے کا نام ہے۔ ریاستی عوام کے ساتھ دوستانہ برتاؤ، ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور اجتماعی فلاح و بہبود میں حصہ داری حب الوطنی ہے۔ محب وطن شہری ریاست کے ایک گملے کو بھی نقصان نہیں پہنچاتا اور نہ ہی وہ اپنے ہم شہری یا ہم وطن کے ساتھ ظلم و زیادتی یا نا انصافی کا مرتکب ہوتا ہے۔

محب وطن آزادی پسند، انصاف پسند اور امن پسند ہوتا ہے وہ اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ ریاست یا ملک اس وقت ہی مضبوط ہو سکتا ہے جب اس کے شہری آزاد اور معاشی طور پر خوشحال ہوں گے، محب وطن نفرتوں کا کاروبار نہیں کرتا بلکہ محبتوں کو رواج دیتا ہے۔ محب وطن بلاتفریق رنگ و نسل اور مذاہب و مسالک اپنے ہم وطنوں سے محبت کرتا ہے اور کسی قسم کی تفرقہ بازی اور منافرت سے گریز کرتا ہے۔

محب وطن کے یہی اوصاف اسے دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں اور وہ قوموں کی زندگیوں اور تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بلند مرتبہ رہتا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری اس امر سے واقف ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال کس قدر تشویشناک منظر پیش کر رہی ہے، وطن پاک کا جسم زخم زخم ہونے کے ساتھ زہر آلود بھی ہو رہا ہے جس کی حفاظت کرنا محب وطن شہریوں پر فرض ہے اور لازم بھی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا۔



اس صورتحال سے ہر شہری واقف ہے تاہم یاد دہانی کے لئے ضروری ہے کہ بتایا جائے۔ اس وقت چیخ چیخ کر 22 کروڑ عوام کی مالا جپنے والے تماشا گروں نے ہی ملک کو اس صورتحال سے دو چار کیا ہے۔ سیاسی پارٹیاں مفاداتی گروہ کا روپ، دھار چکی ہیں، آج لوگ حکمران پارٹی سمیت دیگر جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں وہاں کمیشن خور، رشوت خور، کوٹہ کھانے والے اور قومی اداروں میں لوٹ مار کرنے والوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اقتدار سے باہر سیاسی پارٹیاں محض اقتدار کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ پارٹی کارکنوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کارکنوں کے جذبات، امنگوں کو فروخت کر کے پارٹی کے رہنما اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں۔ پارٹی کارکنوں کی سیاسی تربیت، تحریکی امور اور سیاسی حکمت عملی سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی من مانیاں کر سکیں اور اپنے رشتہ داروں اور بچوں کو ہی آگے لایا جا سکے، عوام الناس کے سامنے زندہ مثالیں موجود ہیں۔

پاکستان سویلین الائنس کا ظہور اسی رد عمل کا نتیجہ ہے کہ ایسی تمام تر سیاسی خرافات کے خلاف منظم مزاحمت کی جائے اور محب وطن شہریوں کو سامنے لا کر ریاست کی باگ ڈور ان کے ہاتھ دینے کے لئے عملی جدو جہد کا آغاز کیا جائے۔ الحمدللہ پاکستان سویلین الائنس کی جدوجہد کا آغاز ہو چکا ہے اور اس عملی جدو جہد میں لوگ تیزی کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ محب وطن مندرجہ بالا تعریف کے مطابق پاکستان سویلین الائنس کا حصہ بن سکتے ہیں تاہم کسی بھی سیاسی پارٹی کا عہدیدار یا پانچ سال سے زائد پارٹی وابستگی کا حامل شہری پاکستان سویلین الائنس میں بیان حلفی کے ساتھ شامل ہو گا کہ وہ اپنا سابقہ کردار فراموش کر کے نیا سفر شروع کرنے کا خواہش مند ہے۔ اسے خوش آمدید کہا جائے گا۔



پاکستان کی 15 کروڑ سے زائد آبادی خط غربت کے نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہے۔ جو وقت آنے پر وطن کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور جنہوں نے قیام پاکستان کی تحریک کے دوران اپنے بزرگوں کونثار کیا ہے۔ پاکستان کے قومی وسائل پر عیاشیاں کرنے والے اور قومی وسائل کی لوٹ مار کر کے بیرون ممالک اثاثے بنانے والوں اور سیاست کے نام پر کاروبار کرنے والوں کے خلاف مزاحمت سے ملک کی نظریاتی سرحدوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے اور پاکستان کے محب وطن شہریوں کو ان کے حقوق دیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان سویلین الائنس غریب عوام کے حقوق کی تحریک ہے، پاکستان سویلین الائنس عوام کی معاشی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ امن کا قیام، دہشت گردی کا خاتمہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب عوام کو معاشی حقوق حاصل ہوں اور عوام کا دال روٹی، روزگار کا مسئلہ حل ہو اور مہنگائی ختم کی جائے۔ جب تک عوام کے بنیادی انسانی مسائل حل نہیں ہوتے ہیں اور بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل نہیں ہوتی اس وقت تک مذاکرات، آپریشن، قرضہ سکیم اور دیگر معاملات محض وقت گزار نے کے لئے ہوں گے۔

اس عمل سے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی امن کا قیام ممکن ہوگا بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ پاکستان کے عام لوگوں کا آج یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ انتظار کرنے یا کسی مسیحا کو ڈھونڈنے کی بجائے خود قدم اٹھائیں اور خود فیصلہ کریں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور آج کے عہد کی کیا ضرورت ہے۔

جب تک عام محب وطن شہری قدم نہیں اٹھائے گا تب تک حالات درست ہونگے اور نہ ہی عام محب وطن شہریوں کو غربت، بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات ملے گی، نجات کا واحد راستہ محب وطن شہریوں کی اجتماعی بیداری ہے اور یہی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔