حالیہ مہینوں میں میں نے امریکہ میں اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے ساتھ پاکستانی سیاست اور معیشت سے جڑی غیر یقینی صورت حال سے متعلق بات چیت کی ہے۔ میرے لیے یہ بے پناہ حیرت انگیز بات تھی کہ ان میں سے اکثر اب بھی اس فنکار کی حمایت کرتے ہیں جسے پہلے 'کپتان' کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ عمران خان نے تواتر کے ساتھ ان تارکین وطن پاکستانیوں کے تخیل پر اپنی مضبوط گرفت جما رکھی ہے۔
ایک بہت ہی کامیاب اور ذہین پاکستانی فنانس پروفیشنل نے مجھے بتایا کہ ' عمران خان وہ واحد شخص ہے جو فوج کے سامنے ڈٹ جائے گا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتا ہے'۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عمران خان بذات خود فوج کی پیداوار ہے (درحقیقت پاکستانی سیاست دانوں کی بھاری اکثریت ایسی ہی ہے) اور اپنے پہلے ناکام دور حکومت میں تمام تر کوشش کے باوجود فوج کو قابو کرنے میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی جو اس طرح سوچتے ہیں اگرچہ پرجوش اور نیک نیت ہیں، وہ اس حقیقت سے انکاری نظر آتے ہیں کہ ہمیں دیوالیہ ہونے کے جس خطرے کا سامنا ہے اس کی ایک بڑی وجہ فیول پر دی جانے والی وہ سبسڈی تھی جو عمران خان نے اپنی حکومت کی رخصتی سے چند دن پہلے دی تھی۔ ان سبسڈیز نے ایک نازک وقت میں قومی خزانے کو مزید نقصان پہنچایا اور آئی ایم ایف کے معاہدے کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ معاشی لحاظ سے بے تکا فیصلہ تھا اور یہ بعد میں آنے والی حکومت کو سبوتاژ کرنے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کا حربہ تھا۔ یہ کسی ایسے لیڈر کا کام نہیں تھا جو ملک کے مفادات کو اپنے مفاد پر مقدم رکھتا ہو۔
بعد میں آنے والی پی ڈی ایم حکومت کو اس سبسڈی کو واپس لینا پڑا مگر تب تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ یہ اسی طرح کی غیر معقول طور پر غلط جگہ سے وابستہ ہونے والی نیک خواہشات ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کو متاثر کرتی ہیں جو اب بھی سوچتے ہیں کہ ٹرمپ اس 'دلدل کو ختم کر دیں گے' جبکہ حقیقت میں انہوں نے اپنے انتخاب کے بعد اس دلدل کو اپنے ساتھ واشنگٹن ڈی سی منتقل کر دیا تھا۔ جس طرح ٹرمپ کے حامیوں کو یقین ہے کہ وہی مسائل کا واحد حل ہیں، بہت سے پاکستانی اب بھی سوچتے ہیں کہ عمران خان کسی طرح پاکستانی معیشت کو بچا لے گا۔ یہ اس ناقابل تسخیر حقیقت کے سامنے خیالی تصور کی طرف ایک دفاعی پسپائی ہے کہ عمران خان شاید دوسرے نااہل اور بے وقوف رہنماؤں سے بھی زیادہ نرگسیت پسند اور نااہل ہے جنہوں نے پاکستان کو چلانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں ناکام رہے۔
کم نفیس غیر ملکیوں کا ایک اور گروہ یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کامیاب ہو گا کیونکہ 'وہ بدعنوان نہیں ہے اور خود کو مالا مال کرنے کی کوشش نہیں کر رہا' جیسا کہ بے شرمی سے بھٹو/ زرداری اور شریف خاندانوں نے کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان کرپٹ نہیں ہے لیکن انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ عمران خان کے معاملے میں یہ اردگرد کے یہ لوگ وہی بدعنوان، لکیر کے فقیر فائدہ اٹھانے والے ٹولے پر مشتمل ہیں جو فوج کے ساجھی دار ہیں اور پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان کی غیر منصفانہ سیاست پر ایک دھبہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ فوج کے ساتھ مل کر اس ملک کو لوٹتے رہے، عمران خان کی نگرانی میں لوٹتے رہے اور جب انہوں نے دیکھا کہ مزید چلنا دشوار ہو رہا ہے تو انہوں نے فوج کو چھوڑ دیا اور آخرکار وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے غلط دھڑے والی طرف جا پہنچے۔
تاہم یہ دونوں قسم کے بیرون ملک مقیم پاکستانی دھڑے ایک بات درست کہتے ہیں کہ اگر کل انتخابات ہو جائیں تو عمران خان کلین سویپ کر جائے گا۔ وہ بلاشبہ ملک کے سب سے مقبول سیاست دان ہیں اور انہوں نے لاتعداد نوجوانوں کو متحرک کیا ہے جو اگر عمران خان نہ ہوتا تو سیاست میں دلچسپی نہ لیتے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے نادانستہ طور پر پاکستان کے حقیقی کٹھ پتلی آقاؤں کو بے نقاب کر دیا ہے، اس کی غیر تسلی بخش اور تعصب پسند فوج اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پردے کے پیچھے فوجی وردی میں ملبوس سرکردہ لوگوں کو عوامی غم و غیض کا مرکز بنا دیا ہے۔
عمران خان کی حمایت کرنے والے ناکام حکمران طبقے اور اشرافیہ پر مبنی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جائز شکایات رکھتے ہیں اور عمران خان کو اپنی آخری امید کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ اسی طرح کا اثر ہے جو برنی سینڈرز کا امریکہ میں 1980 کی دہائی میں پیدا ہونے والے لوگوں اور جنرل زیڈ پر پڑا ہے۔ فرق یہ ہے کہ برنی سینڈرز حقیقت میں ترقی پسند، کارکن نواز، صحیح معنوں میں پاپولسٹ پالیسی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ عمران خان ایک نااہل، نادان، سماجی طور پر قدامت پسند، دائیں بازو کی پاپولسٹ شخصیت ہے۔ وہ ایک فرقے کے رہنما جیسے ہیں جن کا ٹریک ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ وہ ملک سے زیادہ پروا اپنی انا کی کرتے ہیں۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انہیں پھر سے قبولیت کا سرٹیفکیٹ مل جائے تو وہ اس کے سامنے کھڑے ہونے والے کے بجائے اور بھی زیادہ فرماں بردار نکلے گا کیونکہ تمام نرگسیت پسندوں کی طرح وہ بھی سب سے زیادہ پروا اقتدار کی کرتا ہے اور اپنی ذاتی شہرت اور میراث کو مقدم سمجھتا ہے۔
علاوہ ازیں برنی سینڈرز کے برعکس عمران خان کی سیاست پاکستان کو درپیش مسائل کے طبقاتی تجزیے کو خاطر میں نہیں لاتی۔ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ آمرانہ سوچ کا مالک ایک اور مضبوط آدمی اور انہی پرانی نیو لبرل پالیسیوں میں حل تلاش کرنے کے بجائے پاکستان کی مشکلات کا جواب ملک کے محنت کش طبقے کے لوگوں کو اقتدار واپس کرنے میں مضمر ہے۔ مثال کے طور پر صحیح معنوں میں بائیں بازو اور سوشلسٹ سیاسی جماعتوں کی مقامی نچلی سطح کی تنظیموں جیسے مزدور کسان پارٹی، عوامی خلق پارٹی اور عوامی ورکرز پارٹی کے ذریعے اقتدار اور طاقت عوام کے حوالے کیا جائے۔ عمران خان جس طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے، میرا اور میرے دوست فنانس پروفیشنل کا بھی اسی سے تعلق ہے، اس طبقے میں شامل کسی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ پاکستان کے معاملات درست کر دے گا۔
پاکستان معاشی، سیاسی اور فلسفیانہ لحاظ سے دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اسے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک نیا ماڈل ہے؛ ایک حقیقی عوامی طاقت والی حکومت جس کی قیادت محنت کش طبقے کے رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہو، برازیل میں سامنے آنے والے لُولا دا سلوا کی طرح جس کے پاس عوام کی اکثریت کا مینڈیٹ ہو گا کہ وہ ترقی پسند پالیسیوں کو نافذ کر سکے گی جیسے کہ ریئل سٹیٹ پر ٹیکسوں میں اضافہ کرنا جو کہ پاکستان کے طبقہ اشرافیہ کے لیے سرمایہ کاری کی سب سے محفوظ اور منافع بخش شکل ہے۔ اس طرح کی تحریک دقیانوسی اور قدیم زمانے سے قائم زرعی اجارہ داریوں کا خاتمہ کرنے کے لئے انتہائی ضروری زمینی اصلاحات کا بھی آغاز کرے گی۔ یہ تحریک ایف 16 طیارے خریدنے کے بجائے محنت کش عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولیات دینے میں سرمایہ کاری کرے گی اور یہ ان نیو لبرل اداروں کا مقابلہ کرے گی جو پاکستان کی معیشت پر قابض ہیں۔ مثال کے طور پر بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ اداروں (آئی پی پیز) کے ساتھ کاروبار کی تباہ کن شرائط کو تبدیل کرکے جو بجلی کی بار بار ہونے والی قلت کی مرکزی وجہ ہیں جس کے نتیجے میں بے شمار پیداواری دن ضائع ہوتے ہیں اور نجی اداروں کے منافع میں کمی آتی ہے اور جس نے پاکستان کو اندھیروں اور صنعتی شعبے کی تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
حقیقی تبدیلی تبھی آتی ہے جب لاکھوں کی تعداد میں محنت کش لوگ اس کا مطالبہ کریں اور جب یہ لوگ انصاف کا تقاضا کریں۔ پھر بااثر لوگوں کے پاس اس مطالبے کا جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ آخر کار پاکستان کو بچانے والی واحد قوت پاکستان کے عوام ہیں، فوج نہیں، اشرافیہ نہیں، تاجر نہیں، نیو لبرل معاشی ماہرین یا شخصیت پرستی پر مبنی فرقہ نہیں بلکہ ملک کے محنت کش طبقے کے لوگ ہیں۔ بصورت دیگر پوٹیمکن کے تمام عارضی دیہاتوں کی طرح یہ تبدیلی بھی ناپائیدار ثابت ہو گی۔
ارسلان ملک کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔