سائنس اور ٹیکنالوجی کی جو نئی جہتیں بڑی تیزی سے ہماری دنیا اور انسانی معاشرے کو تبدیل کر رہی ہیں ان میں مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، جینیاتی طب، ڈرون، تھری ڈی پرنٹنگ اور بلاک چین ٹیکنالوجی سرفہرست ہیں۔ جو قوم آگے بڑھ کر انہیں تسخیر کر لے گی کل دنیا کی قیادت کا تاج اسی کے سر سجے گا۔ 2023 کے رخصت ہوتے ہوتے جہاں کئی بری خبریں اداسی دل اور مایوسی کا سبب بنیں، وہیں یہ خوشخبری سن کر اطمینان اور مسرت حاصل ہوئی کہ پروفیسر نسیم نقوی جو ڈاؤ میڈیکل کالج کے گریجویٹ ہیں اور این ایچ ایس انگلستان میں فالج کے معالج ہیں، کو شاہ چارلس نے بلاک چین ٹیکنالوجی میں غیر معمولی میدان سر کرنے پر اعلیٰ سرکاری اعزاز سے نوازا ہے۔
ہم نے پروفیسر صاحب سے بات چیت کی۔ اپنی بے تحاشہ مصروفیات کے باوجود انہوں نے بہت صبر و تحمل سے اس انتہائی تکنیکی میدان علم کی آسان زبان میں وضاحت کی۔
بلاک چین ٹیکنالوجی کیا ہے؟
پروفیسر نسیم: بلاک چین ٹیکنالوجی کو آپ بنیادی طور پر ایک خاص سافٹ ویئر پروگرام یا ڈیٹا بیس سمجھ سکتے ہیں جس میں سمائی ہوئی معلومات بہت شفاف انداز میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ ہر نئی معلومات کو ایک بلاک یا اینٹ مان لیں جو اگلی اینٹ سے جڑ کر ایک زنجیر یا رہگزر بناتی چلی جاتی ہے۔ ایک دفعہ اس اینٹ میں محفوظ معلومات میں تبدیلی یا ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ کوئی چھیڑ خانی یا چالاکی ممکن نہیں۔ یعنی یہ معلومات پھر امر یا ناقابل تغیر ہو جائیں گی۔ ہر انٹری تاریخ اور وقت کے ساتھ ریکارڈ کا حصہ بن جائے گی جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ معلومات کی اس زنجیر کو آپ بہت بڑا رجسٹر کہہ سکتے ہیں جو بہت سارے کمپیوٹرز پر موجود ہوتا ہے اور کسی ایک شخص، فریق یا ادارہ کو اس میں رد و بدل کی اجازت نہیں کیونکہ ایسا کرنے کے لئے اسے ہزاروں لاکھوں کمپیوٹرز میں ایک ہی وقت میں وہ تبدیلی لانی ہو گی۔
اس ٹیکنالوجی کو کہاں کہاں استعمال کیا جا سکتا ہے؟
پہلے یہ اہم بات سمجھ لیں کہ بلاک چین صرف معلومات کا انٹرنیٹ نہیں بلکہ قدر یا ویلیو کا انٹرنیٹ ہے۔ جو ساری معلومات اس میں ذخیرہ ہیں وہ دراصل اپنی قیمت یا قدر رکھتی ہیں۔ یہ قیمتی معلومات کسی کی ذاتی شناخت، ووٹ، جائیداد کی رجسٹری، صحت کا ریکارڈ، ٹیکسیشن، سفری تفصیلات، پیدائش یا موت کا سرٹیفیکیٹ، تعلیمی اسناد، تخلیقی اور فنی استعداد، ریسرچ پیپر، انٹلیکچوئل پراپرٹی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بلاک چین ان ساری گراں قدر اور حساس اطلاعات سے بھرپور ایک بڑے سے لیجر یا رجسٹر کا نام ہے۔
کیا بلاک چین ٹیکنالوجی کرپٹو کرنسی یا بٹ کوائن کا دوسرا نام ہے؟
یہ ایک عام مغالطہ ہے۔ کرپٹو بلاک چین کی صرف ایک ایپلیکیشن ہے جس طرح ای میل انٹرنیٹ کی صرف ایک ایپلیکیشن ہے، یہ سارا انٹرنیٹ نہیں۔
نظام صحت میں بلاک چین ٹیکنالوجی کی کیا افادیت ہے؟
بہت زیادہ۔ آج برطانیہ کے کسی شہری کا جو ڈیٹا ایک جنرل پریکٹیشنر کے پاس ہے اس تک پاکستان کے کسی اسپتال کی رسائی ممکن نہیں۔ کیونکہ آپ کے ذاتی ڈیٹا کی ملکیت آپ کی نہیں بلکہ ایک تھرڈ پارٹی اس کی مالک ہے۔
بلاک چین آپ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ آپ اپنے ڈیٹا کے مالک بن جائیں اور بحیثیت مریض آپ اس بات کا فیصلہ کریں کہ آپ کی دی ہوئی کنجی یا پاس ورڈ سے کون اسے دیکھ سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صحت سے متعلق ریسرچ، کلینکل ٹرائل، اس سے جڑے انٹلیکچوئل پراپرٹی کے قضیے، ریسرچ کی گرانٹ اور فنڈنگ، کمپنیوں کو اس تک محفوظ راستہ فراہم کرنا؛ یہ سارے معاملات بلاک چین ٹیکنالوجی کی نگرانی میں کیے جا سکتے ہیں۔ حال ہی میں فرد کے جینوم اور کروموسوم کے ڈیٹا کی تنظیم میں بلاک چین کے استعمال پر مقالہ شائع ہو چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اردن میں مقیم جنگ زدہ شامی پناہ گزینوں جن کے پاس کوئی شناختی کارڈ بھی نہیں تھا، میں اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام کے تحت آئی غذا کی تقسیم ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔ اس موقع پر ان مہاجرین کی آنکھوں کی آئرس کو سکین کر کے بلاک چین پر سٹور کیا گیا جو ہر فرد کی مختلف ہوتی ہے۔ اس طرح غذا کی تقسیم بہ آسانی اور شفاف طریقے سے ممکن ہو سکی۔
کیا بلاک چین ٹیکنالوجی دنیا میں امن لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے؟
بلا شک و شبہ! بلاک چین ٹیکنالوجی میں ایک دفعہ ڈالے گئے ڈیٹا میں تحریف ممکن نہیں، اس لئے اسے ایک اینٹی کرپشن تکنیک کہہ سکتے ہیں۔ افریقہ کی مثال لیں جہاں 90 فیصد زمین کی کوئی سرکاری لینڈ رجسٹری نہیں۔ طاقتور افراد غریب آدمی کو اس کے گھر سے کسی بھی وقت بے گھر کر سکتا ہے۔ اگر ملکیت کا ریکارڈ ایک دفعہ بلاک چین پر آ جائے تو اس کو جلایا جا سکتا ہے اور نا اس پر قلم سے خط تنسیخ پھیرنا ممکن ہے۔ ایسی دستاویز کی دوبارہ تصدیق کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ بلاک چین فرد کا وقار اور خود اعتمادی بحال کرنے والی مشین ہے۔
کیا یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہے؟
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ سب سے پہلے تو بلاک چین کوئی ایک نہیں بلکہ مختلف الاقسام ہیں۔ ان میں سے کچھ کم خرچ بالا نشین ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ اسے کس مقصد میں زیر استعمال لانا چاہتے ہیں، اس ٹیکنالوجی کا جدید تعلیم میں استعمال اس کے ووٹنگ میں استعمال سے مختلف ہو گا۔
آپ میڈیکل ڈاکٹر ہیں، بلاک چین کی طرف رحجان کیونکر ہو گیا؟
بلاک چین پچھلے 15 سال سے موجود ہے۔ میں نے جب اس کا مطالعہ کیا تو مجھے میر کا شعر یاد آ گیا؛
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کریں اور ہم کو عبث بدنام کیا
مجھے لگا کہ یہ ٹیکنالوجی ہمیں اپنے ڈیٹا پر پورا اختیار فراہم کرتی ہے اور اتنی طاقتور ہے کہ ہمارے رہنے سہنے اور کام کرنے کے رنگ ڈھنگ کو یکسر بدل کر رکھ سکتی ہے۔ انٹرنیٹ کی آمد سے معلومات کو شیئر کرنا بہت سہل ہو گیا لیکن ساتھ ہی حساس، قیمتی اور ذاتی معلومات کی حفاظت ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا۔ آج ہم فیک نیوز، کاپی پیسٹ اور جعلی دستاویزات کے عہد میں جی رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ادارے تیزی سے ساکھ کھو رہے ہیں۔ بڑی ٹیک کمپنیوں نے سوشل میڈیا کو وبا کی طرح پھیلا دیا ہے اور یہ خواب بھی فروخت کیا کہ یہ مفت ہے لیکن درحقیقت یہ مفت نہیں بلکہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ یعنی ہمارا ڈیٹا ان کے پاس گروی رکھا ہوا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں علم کہ وہ کہاں، کس وقت اور کس طرح ہمارے اپنے یا کسی اور کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اگر آج انسٹاگرام آپ کا اکاؤنٹ بند کر دے تو آپ اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ بلاک چین ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے ڈیٹا کے مالکانہ حقوق حاصل کر لیں۔
کیا بلاک چین ٹیکنالوجی غریب اور امیر اقوام کے درمیان تفاوت کو مزید بڑھانے اور جدید نوآبادیاتی نظام کو تقویت دینے کا سبب نہیں بنے گی؟
بلاک چین ٹیکنالوجی سے غریب ممالک کے عوام کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ کچھ بنیادی غلط فہمیاں دور کر لی جائیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی پر توانائی بہت خرچ ہوتی ہے جو درست نہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی بہت سی ایپلیکیشن گرین اور ماحول دوست ہیں۔
ایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ جب تک ٹیکنالوجی کی تمام باریکیاں آشکار نہ ہو جائیں، اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ آج ایک آدمی کو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے اس کی کوڈنگ یا ایچ ٹی ٹی پی ایس سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ بھی واہمہ ہے کہ بلاک چین سے چیزیں آٹومیٹک ہو جائیں گی، مشینیں انسان کی جگہ لے لیں گی، بے روزگاری عام ہو گی۔ انٹرنیٹ نے آ کر پرنٹنگ پریس کو چلتا کر دیا لیکن ساتھ ہی نوکری کے نت نئے اور زائد مواقع بھی تخلیق کئے۔
ترقی پذیر ممالک میں فی الفور جدید اور سائنسی تعلیم کو ہنگامی بنیادوں پر عام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اور سرکاری اداروں میں اس ٹیکنالوجی کو لاگو کرنے سے وقت کی بچت ہو گی اور نظام میں شفافیت آئے گی۔
ہر ملک کو بلاک چین میں اپنا روڈمیپ لکھنا ہو گا۔ برطانیہ کے لئے یہ روڈمیپ میں نے 2021 میں تحریر کیا۔ غریب ممالک کی اعانت کے لئے بوٹ کیمپس لگائے جا سکتے ہیں۔
آپ این ایچ ایس میں کل وقتی ملازم ڈاکٹر ہیں، ایک نئی سائنس کی ترقی اور ترویج کے لئے وقت کہاں سے نکالتے ہیں؟
مجھے اس ٹیکنالوجی کی شکل میں انسانیت کا بہت بڑا نجات دہندہ نظر آتا ہے، یوں اس کی تعلیم و ترویج میرا بہت بڑا مقصد حیات بن گیا۔ میں اپنی شامیں، ویک اینڈ اور اہل خانہ کے لئے مختص وقت کا اکثر حصہ اس ضمن میں استعمال کرتا ہوں۔
برطانیہ نے آپ کو ممبر آف دی برٹش ایمپائر کے اعلیٰ خطاب سے نوازا، حکومتی ویب سائٹ پر آپ کی توصیف میں لکھے کلمات پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ ایک انسان چند سالوں میں اتنا کچھ حاصل کر سکتا ہے!
میں دنیا کا پہلا انسان ہوں جس نے مبنی بر شواہد یا ایویڈنس بیسڈ بلاک چین ٹیکنالوجی کی اصطلاح دنیا بھر میں روشناس کرائی۔
میں اس ٹیکنالوجی کا پروفیسر اور 2017 میں قائم ہونے والی عالمی نان پرافٹ تنظیم برٹش بلاک چین ایسوسی ایشن کا بانی اور صدر ہوں۔ ہمارا مشن دنیا کو اس بارے میں آگاہی دینا اور اصول وضع کرنا ہے۔ اس پلیٹ فارم سے ہم نے برطانیہ کی بلاک چین حکمت عملی ترتیب دی۔ ایک ریسرچ سینٹر قائم کیا جہاں بلاک چین ٹیکنالوجی کے مبنی بر شواہد استعمال پر کام ہوتا ہے۔ 2018 میں میں نے دنیا کے پہلے بلاک چین جرنل کا اجرا کیا جس کے ادارتی بورڈ میں دنیا بھر کی 300 سے زائد یونیورسٹیوں کے پروفیسر شامل ہیں۔ میں نے اس موضوع پر دنیا کی ابتدائی کانفرس منظم کی اور بی بی اے کی چھتری تلے گلوبل فورم متعارف کرایا جہاں اس وقت 50 سے زائد ملکوں کی تنظیمیں آپس میں مشاورت کرتی ہیں۔
برطانوی معاشرے کا رویہ آپ کے ساتھ کیا رہا؟
برطانیہ ایک ترقی پسند معاشرہ پے جہاں ٹیلنٹ کی قدر کی جاتی ہے۔ رواج سے ہٹ کر ایجاد اور جدت طرازی کرنے والوں کی پذیرائی کی رسم قائم ہے۔ تیسری دنیا میں پھیلے غیر سائنسی خیالات بڑا منفی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کوئی نیا علم سامنے آتا ہے تو اس کے خلاف تجاہل، تغافل اور تساہل ہمیں اس کی مزاحمت پر اکساتے ہیں۔ میرا بیش تر وقت کرہ ارض پر مختلف پالیسی میکرز اور فیصلہ کرنے والی شخصیات کو آگاہی دینے پر صرف ہوتا ہے تاکہ اس غیر معمولی ٹیکنالوجی کا فیض عام انسانوں تک پہنچ سکے۔