Get Alerts

پاکستان کے نئے منتخب وزیر اعظم کو پہلی تقریر میں کیا کہنا چاہیے؟

پاکستانی حکومتوں نے اپنے شہریوں کی امیدوں کو غیر فطری طور پر بڑھانے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطرجھوٹ کو ترویج دینے کی عادت اپنا لی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تصویر خوش کُن نہیں ہے۔ اس دورِ حکومت میں آپ وہی کچھ سنیں گے جو حقیقت ہے اور ہم عوام سے درخواست کریں گے کہ ہماری رہنمائی کرے۔

پاکستان کے نئے منتخب وزیر اعظم کو پہلی تقریر میں کیا کہنا چاہیے؟

8 فروری کے عام انتخابات کے نتائج پر دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتوں کے قیام کے باوجود عدم استحکام کے جاری رہنے کے خدشات باقی ہیں۔ انتخابات کے انعقاد سے کچھ دن پہلے ایک عزیز دوست سے ایک ذاتی نشست میں گفتگو ہو رہی تھی۔ اُنہوں نے مشورہ دیا کہ میں وزیرِ اعظم کی تقریر لِکھ ڈالوں۔ میرا پہلا ردِعمل تھا کہ شاید وہ یہ بات ازراہِ تفنن کر رہے ہیں۔ لیکن جب وہ مُصر رہے تو میں نے بھی اِس پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا۔ کیا مضائقہ ہے؟ آخر ہم ہر وقت بحث کرتے ہیں کہ وزرائے اعظم کو کیا کرنا چاہیے اور حکومتوں کو کن پالیسیوں کا نفاذ کرنا چاہیے۔ قصہ مختصر فیصلہ کیا کہ ایک تقریر لکھی جائے۔ ایک ایسی تقریر جس میں اُن پالیسیوں کا ذکر ہو جو میری دانست میں اہم ہیں۔ خاص طور پر ان حالات میں جن سے یہ مُلک گزر رہا ہے اور کئی دہائیوں سے گزرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ بھی ضروری تھا کہ اس غیر معمولی صورتِ حال میں توازن اور معروضیت کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ اِس تحریر اور تقریر کا تعلق کسی خاص وزیرِ اعظم کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ تقریر میرے خیالات کا اظہار ہے۔ میں اِسے قارئین کی خدمت میں اِس لئے پیش کر رہا ہوں تا کہ اِن نکات پر مزید بحث ہو سکے۔ اس تقریر کا انگریزی متن ڈان میگزین میں شائع ہو چکا ہے۔ عزیز دوست رضا رومی کی رضا مندی سے انگریزی متن کا ترجہ نیا دور میں اشاعت کے لیے پیشِ خدمت ہے۔

میرے ہم وطن پاکستانیو!

سب سے پہلے تو میں اُن سب شہریوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری پارٹی کو ووٹ دیا۔ آپ کے اس اعتماد نے میرے اور میری ٹیم کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد کر دی ہے لیکن اسی ذمہ داری کا احساس مجھے حکومتی انتظام و انصرام کو چلانے میں معاون ہوگا۔ پاکستانی ووٹروں کی تعداد میں لاکھوں کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔ جن میں 64 فیصد 30 سال سے کم عمر ہیں اور 29 فیصد 15 سے 29 سال کے درمیان ہیں۔ اِن نوجوانوں کی نئی اُمنگیں ہیں، جو مایوسی میں بدل گئی ہیں۔ کیونکہ اس ملک کو جس طرح سے چلایا گیا ہے وہ اُن کی اُمنگوں سے متصادم ہے۔ اس حقیقت نے میری اس کوشش کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ ان نامساعد حالات میں حکمرانی کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانا بہت ضروری ہیں۔

مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ سبھی شہریوں نے میری پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ میری نوزائیدہ حکومت کو پارلیمان کے اندر اور باہر سے اختلاف کا سامنا ہے۔ جمہوری ماحول کو قائم رکھنے کیلئے حزب اختلاف کا یہ فرض عین ہے کہ وہ حکومت کی تعمیری تنقید کے ذریعے مدد کرے۔ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ حکومت کو مربوط انداز سے چلانے کیلئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان چند بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ خاص طور پر چند ایسے کلیدی نکات پر متفق ہونا ضروری ہے جن کی مدد سے ہم آگے بڑھ سکیں۔ افراط و تفریط کے اس ماحول میں تمام سیاسی فریقوں پر لازم ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ وہ دشمنی اور عداوت میں ڈھل جائیں۔ مت بھولیے کہ ملک اور معاشرہ عدم استحکام کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

حزبِ اختلاف سے میری یہ استدعا ہے کہ وہ ایک شیڈو گورنمنٹ اور کابینہ ترتیب دے۔ حزبِ اختلاف کے شیڈو وزراء حکومتی کابینہ کے وزراء سے رابطے میں رہیں اور اُن سے نا صرف مشاورت کر سکیں بلکہ تعمیری تنقید کے ذریعے اُن کی معاونت بھی کر سکیں۔ اس تنقیدی معاونت سے حکومتی وزراء اپنے فرائض زیادہ بہتر انداز میں ادا کر سکیں گے۔ اس طرح کا ارتباط میرے دفتر اور قائد حزب اختلاف کے باہمی تعلق کیلئے بھی ازحد ضروری ہے۔

اس نوعیت کے ارتباط اور باہمی تعاون کی فضا قانون سازی اور کمیٹیوں کے کام کی انجام دہی کیلئے بھی ضروری ہے۔ عرصہ دراز سے ہم قانون سازی سے احتراز کرتے رہے ہیں اور اکثر اوقات ملکی معاملات کو آرڈینیسوں کی مدد سے چلایا جاتا رہا ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے ارکان کی حیثیت سے ہم پارلیمان کو وہ اہمیت نہیں دیتے کہ جس کی وہ مستحق ہے تو ہم دوسرے اداروں سے اس کی توقع نہیں کر سکتے۔ پارلیمان کے باہر سے دباؤ ڈال کر اہم فیصلے کرنے کیلئے اُسے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو عمومی طور پر پارلیمان کو نظر انداز کرتی ہیں، اس عمل میں فوج کی معاونت پر انحصار کرتی رہی ہیں اور قانون سازی کی بابت آرڈینیسوں پر اکتفا کرتی رہی ہیں۔

وفاقی سطح پر قانون سازی کیلئے پارلیمان کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ پارلیمان کے ذریعے کی جانے والی قانون سازی شہریوں کی زندگی، روزگار، مفادات، ان کے حقوق اور ذیلی قوانین پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ قانون سازی عدالتی فیصلوں اور حاکمیت کے انداز و اطوار کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس لئے اس امر کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہاں پر کثیر الجہتی پارلیمانی عوامل کی اہمیت کو اجاگرکرنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ پارلیمانی کمیٹیوں کا کام ہے کہ وہ بیرونی ماہرین کی مدد سے مختلف بلوں پر اپنی آراء کو مرتب کریں تاکہ پارلیمنٹ میں اُن پر مفید اور سیر حاصل گفتگو ہو سکے۔ پیش کردہ بلوں کا بغور مطالعہ کر کے اراکین کو ایوان میں آ کر ووٹ ڈالنا چاہیے۔

قانون سازی کے عمل کیلئے تسلسل کی پالیسی پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بیشتر مسائل پالیسی سازی میں عدم تسلسل کی پیداوار ہیں۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ قانون سازی پر وقت صرف کیا جائے تاکہ اس عمل کے نتیجے میں پائیدار اور منطقی بنیاد پر استوار پالیسیاں مرتب کی جا سکیں، جو میرے دور اقتدار کے بعد بھی مؤثر طور پر جاری رہ سکیں۔

اب مجھے وزیر اعظم کے دفتر اور کابینہ کے ارکان سے متعلق کچھ کہنا ہے۔ وزیراعظم کو ہفتے کے دو دن پارلیمان کے ارکان کے سوالات کے جواب دینے کیلئے مختص کرنے چاہئیں۔ میں اپنے دور اقتدار میں اسی طرز پر کاربند رہوں گا۔ بدقسمتی سے کابینہ کے ارکان میں پارلیمان کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کی روایت نہایت کمزور رہی ہے۔ حکومتی وزراء کی پارلیمنٹ سے غیر حاضریاں اس ادارے (پارلیمان) کی اہمیت میں کمی کا باعث بنی ہیں، یہی ادارہ انہیں حق حکمرانی اور اقتدار تفویض کرتا ہے۔

اِسی لئے میں کابینہ کے ارکان کو ہدایت کروں گا کہ وہ ہفتے میں ایک دن پارلیمنٹ کو اپنی کارکردگی سے آگاہی اور سوالات کے جوابات کیلئے مختص کریں۔

وزراء کا حقیقی کام وزیر اعظم کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا ہے، نہ کہ اُن پر پردہ ڈالنا۔ صورت حال کو صحیح کہنا جب اصل حقیقت اس کے برعکس ہو، کم از کم بے ایمانی ضرور ہے اگر بے وفائی نہیں۔ وزراء اور تمام ایسے افراد جو مجھے مشورہ دینے کی پوزیشن میں ہیں انہیں ہر صورت وزیر اعظم کو حقائق کی بنیاد پر رپورٹ دینی چاہیے اور کسی بھی قسم کی افسانہ طرازی سے گریز کرنا چاہیے۔ خوشامد اور چاپلوسی عدم تحفظ کا شکار حکمرانوں کے باعث پنپتی ہے۔ ہمارا نظام اس سماجی بیماری کا شکار ہو چکا ہے۔ خوشامد ایک نشے کی طرح ہوتی ہے جس کو استعمال میں لا کر اپنے مفاد کی تکمیل کی جاتی ہے۔ جب مفاد پورا ہو جاتا ہے تو رویہ بھی بدل جاتا ہے۔ میرے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کہاں ناکام رہے ہیں اور کیوں؟ حکومتی سرگرمی میرے لیے تلخ سچائیوں کا مجموعہ ہے، نہ کہ خوش کن خواب۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

میں تین سینیئر وزراء کو یہ ذمہ داری سونپوں گا کہ وہ اپنے محکمانہ امور کی انجام دہی کے علاوہ مجھے اور کابینہ کے دیگر ارکان کو خبردار کرتے رہیں کہ ہم کہاں پر کوتاہی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ہمیں کن پہلوؤں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ حضرات ایک طرح سے کابینہ کے محتسب ہوں گے اور انہیں صاف گوئی کی وجہ سے کسی بھی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

سچ بولنا اور سچائی اس حکومت کے بنیادی اصول ہوں گے۔ سالہا سال سے ہم اس خوش گمانی کا شکار رہے ہیں کہ ہم دنیا کیلئے بہت اہم ہیں اور وہ ہمیں کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتی چنانچہ ہم غلط پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومتی ڈھانچے کی کمزوری اور اصراف کا ارتکاب اس طرح کرتے ہیں جیسے اُس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ جھوٹ ہے اور آج اس جگہ پر میں وہی کہہ رہا ہوں جو کہ حقیقت ہے۔ ہمیں اس چیز کا اِدراک کر لینا چاہیے کہ اگر ہم دنیا پر مثبت انداز میں اثر انداز نہیں ہوں گے تو دنیا ہمیں پیچھے چھوڑ دے گی۔

پاکستانی حکومتوں نے اپنے شہریوں کی امیدوں کو غیر فطری طور پر بڑھانے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطرجھوٹ کو ترویج دینے کی عادت اپنا لی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تصویر خوش کُن نہیں ہے۔ اس دورِ حکومت میں آپ وہی کچھ سنیں گے جو حقیقت ہے اور ہم عوام سے درخواست کریں گے کہ ہماری رہنمائی کرے۔

ہم ایک اور بُری روایت کا شکار ہیں۔ ہر آنے والی حکومت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی پیشرو حکومت کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتی ہے۔ ماضی کے چند سالوں کے دوران احتساب کے بارے میں بہت بات ہوتی رہی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو ڈاکو اور لٹیرے کہا جاتا رہا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ اس ملک میں احتساب کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے، جس کا استعمال بنیادی طور پر سیاسی انتقام کیلئے کیا جاتا رہا ہے۔ ہر پارٹی جو اقتدار میں آئی، اس نے یہی کیا اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوئی، تو اسی عمل قبیح کا نشانہ بنی۔ ایسی سیاسی جماعتیں تو احتسابی انتقام کا خصوصی شکار بنیں، جو بوجہ فوج کی سرپرستی سے محروم ہو گئیں۔ میں اپنی جماعت سے ارکان کو دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے متعلق عامیانہ بیانات دینے سے گریز کرنے کی سخت تاکید کرتا ہوں۔ میری دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی یہی درخواست ہے۔ ناظرین ٹیلی وژن پر ہونے والے سیاسی مناظروں سے تنگ آ چکے ہیں، جہاں پر سیاسی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے اور باہمی نفاق کی خلیج کو بڑھایا جاتا ہے۔ لیکن میری اس بات سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہ کیا جائے کہ احتساب نہیں ہو گا، وہ ہو گا اور ضرور ہو گا۔ البتہ ہمیں احتساب کے نظام پر شہریوں کے اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ میں آپ سب کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ احتساب کے عمل کی ابتدا میری ذات سے ہو گی۔ ہمارے احتساب کے ادارے مکمل طور پر آزاد اور شفاف ہوں گے۔ مزید براں، وہ اعلیٰ اقدار اور انصاف کے تمام تر تقاضوں کی عملی تجسیم ہوں گے۔

اب میں شہریوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ کبھی ہم نے یہ استفسار کیا کہ اس ملک کے شہری کس طرح کی زندگی جینے پر مجبور ہیں؟ وہ سرکاری اہلکاروں اور محکموں کا سامنا کس طرح سے کرتے ہیں؟ اگر ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں کہ سرکاری اہلکاروں کا عوام کے ساتھ برتاؤ کیسا ہے تو ہم نظام حکومت میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں؟

ہمارے جیسے لوگ جو مقتدر نشستوں پر فائز ہیں، ہم سب اپنے روابط اور تعلقات کو استعمال کر کے قواعد و ضوابط سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں۔ ہم ترجمانی رویوں کو اپنانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بالکل آقاؤں کی طرح قانون اور ضابطے سے کھیلنا ہم اپنے لیے باعثِ اعزاز تصور کرتے ہیں۔ شہری اور مقتدرین دو متوازی دنیاؤں میں رہ رہے ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب ایک دنیا میں رہیں۔ پروٹوکول اور تکبر جو کہ ہمارے طبقہ امراء کا خاصہ بن چُکا ہے اُس سے اپنی جان چھڑائیں۔

کوئی بھی ریاست اہل اور دور اندیشی سے مزین بیوروکریسی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ میرا سول سرونٹس کو بہت ہی سادہ سا پیغام ہے۔ آپ پالیسی کے نفاذ کے لیے حکومتی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں لیکن عوام سے آپ کے تعلق کی نوعیت بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ نوآبادیاتی آقاؤں کی تھی۔ یاد رہے عوام ہمارے آقا ہیں اور ہم اُن کے خادم۔ یہ آپ کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

اکثر اوقات آپ نے اپنے سیاسی آقاؤں کی خدمت کی، قربت کی تمنا کی ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ اُن کو درست سمت میں سفر کرنے کی تحریک دیتے۔ اس کے لیے میں صرف آپ کو موردِ اِلزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ یہ ہم سیاست دانوں کی بہت بڑی خامی ہے کہ ہم کام کرنے کی اہلیت و صلاحیت سے زیادہ وفاداری کا تقاضا کرتے ہیں۔ میرا عزم ہے کہ میں ہر سول سرونٹ کو اُس کی اہلیت کے مطابق ذمہ داری سونپوں گا۔ اگر کسی مشکل ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت کسی میں نہیں ہو گی تو ہم نجی شعبہ سے اہل افراد کو بھرتی کریں گے۔ مُجھے ذاتی وفاداری نہیں، کام اور اہلیت چاہیے۔

حالات جو کہ حالیہ انتخابات پر منتج ہوئے، ان کا اثر الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بھی پڑا ہے۔ دھاندلی کے الزامات کی زد میں آنے والے یہ آخری انتخابات ہونے چاہئیں۔ میری یہ حتی الامکان کوشش ہو گی کہ کمیشن حقیقی معنوں میں خودمختار ہو۔ میں اس کو یقینی بناؤں گا کہ کوئی حکومتی یا فوجی ادارہ کمیشن پر اثر انداز نہ ہو سکے۔

اب میں اس ملک کو درپیش سول ملٹری مسئلے کی طرف آپ کی توجہ دِلانا چاہتا ہوں۔ ہم نے سیاسی انجینئرنگ دیکھی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ حکومتوں کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ ان تجربات سے مُلک کا صرف نقصان ہوا ہے۔ نہ سیاست دانوں اور نہ ہی فوج کو کوئی فائدہ ہوا ہے۔ اپنے گرد و نواح کے پیش نظر ہمیں ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے۔ ہم فوج کو کمزور کر کے اس علاقے میں سٹریٹجک توازن برقرارنہیں رکھ سکیں گے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر اس مساوات کے سویلین پہلو کو مضبوط کیا جائے۔ اس کے لیے ہمیں عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہو گا، جس کے لیے اتفاق اور اتحاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک میں بہتری کو ممکن بنایا جا سکے۔ علاوہ ازیں فوج کو قومی قوت سے ہم آہنگ ہو کر ایک اکائی کی حیثیت سے رہنا ہو گا اور شہریوں کے حق رائے کا احترام کرنا ہو گا۔ پرانے اور گھِسے پِٹے تجربات کا وقت ختم ہونا چاہیے۔

ہم ایک ایسا طریقہ کار بنائیں گے جہاں حکومت اور فوج شفاف طریقے سے بات چیت کر سکیں اور جہاں بھی فائدہ ہو ہم اُن کا تعاون حاصل کریں گے۔ میر ے عرصۂ اقتدار میں فوج اور سویلینز کے درمیان ایک مثبت گفتگو ہو گی۔

میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کے بڑے چلینجز پر قابو پانے کے لیے ایک وسیع تر قومی مکالمے اور مفاہمتی عمل کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی قیادت اور ملکی اداروں کو بغیر کسی استثنیٰ یا رعایت کے شامل ہونا چاہیے۔ یہ سیاسی اختلافات کو دور کرنے، سکیورٹی کے خطرات کا مقابلہ کرنے، معیشت کو بحال کرنے اور معاشرتی دراڑ کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے۔ میں اس ضروری اقدام کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔

آخر میں، ملک کے مستقبل کے لیے پالیسی کے 6 اہم شعبوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ ان شعبوں میں مستقل پالیسی کی کوششوں کی ضرورت ہو گی، بشمول ان کے ذیلی شعبوں کے۔ سب سے پہلے تعلیم اور صحت کے شعبہ جات ہیں۔ تعلیم یافتہ اور صحت مند انسانی وسائل کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی جو کہ 2021 میں مرتب کی گئی، کو شہریوں اور ان کی فلاح و بہبود کے ساتھ مربوط کیا گیا۔ اگر اس پالیسی کا مرکز و محور شہری ہیں تو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔ جب سے ہمارے اشرافیہ نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانا اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کروانا شروع کیا ہے، یہ شعبہ جات فیصلہ سازوں کے لیے سرد خانے میں چلے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت میں سرمایہ کاری اس حکومت کی اولین ترجیح ہو گی۔

ایسا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں میں دوسری پالیسی کا ذکر کروں گا۔ اُس کا تعلق معیشت کے ساتھ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہر لحاظ سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ وجوہات بہت ہیں اور میں یہاں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ لیکن جو نکتہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ آسان ہے؛ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے بہت محنت کرنی پڑے گی۔ اس کے لیے سخت فیصلے لینے کی ضرورت ہو گی جو ممکنہ طور پر زیادہ مقبول نہیں ہوں گے۔

اس حوالے سے میں عوام کا درد کے طرز کی روایتی باتوں کے پیچھے نہیں چھپوں گا۔ ہم شہریوں کی خواہشات، صلاحیتوں اور حقوق کے حوالے سے یقیناً شہریوں کے سامنے جوابدہ ہیں۔ میں یہاں عوام کے درد کے بارے میں بات نہیں کروں گا، اس لیے نہیں کہ مجھے اس کی پروا نہیں بلکہ اس لیے کہ یہ نعرہ سیاسی طور پر ایسے فیصلے لینے کا ایک کوریڈور رہا ہے جن کے اثرات دیرپا نہیں تھے۔ اپنے سیاسی فائدوں کے لیے ایسے اداروں کو تشکیل دیا جاتا رہا ہے جن پر اخراجات تو بہت ہوتے ہیں لیکن ہمارے شہروں قصبوں کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اور نوجوانوں کی تعلیم کیلئے ایسے اداروں اور پراجیکٹوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ پارلیمنٹ کے اراکین ان اداروں اور سکیموں پر خرچ کرنے کے لیے ترقیاتی فنڈز کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں تا کہ اپنے ووٹ مستحکم کر سکیں۔ وفاقی پارلیمان کے ممبران کا اس طرح کی سکیموں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ اس دفتر میں رہتے ہوئے میں محض اپنی پارٹی نہیں چلا رہا، مجھے یہ ملک چلانا ہے اور اسے اس بنیاد پر چلایا جائے گا کہ اس ملک کے لیے کیا اچھا ہے، نہ کہ پارٹی کے لیے کیا فائدہ مند ہے۔

اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز یا پاکستان سٹیل ملز کو دیکھ لیں، وہ ڈوب چکے ہیں۔ یہی کچھ پاور سکیٹر میں ہوا۔ سیاسی فائدے کے لیے ہم ناکارہ پروجیکٹس لگاتے ہیں جن سے وسائل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے شہروں اور قصبوں کو رہنے کے قابل بنانے اور اپنے نوجوانوں کو تعلیم دینے سے زیادہ فضول خرچی میں دلچسپی ہے۔ اگر اس دفتر میں میرا وقت ضائع نہیں ہونا ہے تو فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہوں گے۔ ایسے ادارے جو کہ سفید ہاتھی بن چُکے ہیں اُن سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر آپ بنیادی مالیاتی مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔

پاکستان غریب ملک نہیں ہے لیکن ہماری فضول خرچیوں نے ہمیں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ گورننس کے لیے ایک خاص فریم ورک اور درجہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے ہر قیمت پر اقتدار میں آنے کی خواہش کی ہے۔ اس عادت کو ختم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ میری پارٹی اور اتحادیوں کے لیے میرا پیغام صاف ہے۔ یہ حکومت یہاں سیاسی طاقت کی وجہ سے نہیں ہے۔ ہم یہاں پرفارم کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اس کے لیے تکبر نہیں، احساسِ ذمہ داری کی ضرورت ہے۔

اب کچھ بات اشرافیہ کی سماجی، معاشی اور سیاسی گرفت کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اشرافیہ جن میں سیاسی جماعتیں، فوج اور بہت سے نجی شعبے شامل ہیں، کو صرف اپنے مفادات کے تحفظ سے غرض ہے۔ میں یہاں کسی پاپولزم سے متاثر نہیں ہوں۔ اشرافیہ کسی بھی ملک کی خوشحالی اور دانشورانہ سرمائے کے لیے ضروری ہے۔ دولت پیدا کرنا جرم نہیں، ضرورت ہے۔ لیکن جب میں اشرافیہ کی گرفت کا ذکر کرتا ہوں تو میں بالخصوص اُس نظام کا حوالہ دیتا ہوں جو اُن کے فائدے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے اور مکمل طور پر ان کے قابو میں ہے۔ اس نظام کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔ کئی دہائیوں سے ہم نے بیرونی نقدی کے بہاؤ پر انحصار کیا ہے۔ دنیا سے پیسہ لے کر اسے اپنی اشرافیہ میں تقسیم کیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس پالیسی سے شہری فیض یاب نہیں ہو سکے لیکن ملک کی معیشت تباہ ہو گئی۔ کسی فرد یا سیاسی کُنبے کو مستقل اقتدار میں نہیں رہنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے پاس ادارہ جاتی طاقت ہونی چاہیے۔ توسیعات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ان کی وجہ سے اداروں کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔

ہماری ترجیحات اتنی بگڑی ہوئی ہیں کہ جب کوئی ہمیں پیسے دیتا ہے تو ہم جشن مناتے ہیں۔ بھیک مانگنا اس قدر معمول کی بات ہو گئی ہے کہ IMF اور دوسرے ڈونرز سے پیسے مانگنے کے تجربے پر شرمندہ ہونے کے بجائے ہم اپنے بائیوڈیٹا میں اس کا تذکرہ سٹار اینٹری کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ حکومت ایک حقیقی تقسیم کی پالیسی وضع کرنے کی سمت میں کام کرے گی۔ اگر اس سے کچھ لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے، جو اکثریت سے وسائل ہتھیانے کے عادی ہو چکے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ اپنی عادات درست کریں۔

تیسرا، ہمیں یہ بہانہ چھوڑ دینا چاہیے کہ ہمارے خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے نظر انداز کرتے ہوئے ہماری معیشت کو کسی طرح سے دوبارہ پٹری پر لایا جا سکتا ہے۔ ہم اپنے چار میں سے تین پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بگاڑ کر معاملات بہتر نہیں کر سکتے۔ علاقائی سفارت کاری ہماری خارجہ پالیسی کا کلیدی عنصر ہو گی اور ہمیں اپنے مقام سے معاشی طور پر فائدہ اٹھانے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔ جیو اکنامکس ہمارے لیے نئی اقتصادی راہیں کھولے گی اور میں چاہتا ہوں کہ پرائیوٹ سیکٹر اس کام کی قیادت کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔ پبلک سیکٹر، پرائیوٹ سیکٹر کو سہولت فراہم کرے گا اور راستے سے ہٹ جائے گا۔ آج کی دنیا میں معاشی کامیابی قانون کی پابندی کرنے والے نجی شعبے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

چوتھا اہم نقطہ مقامی حکومتوں کے حوالے سے ہے۔ یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے۔ جمہوریتوں کی نشوونما میں مضبوط مقامی حکومتیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ صوبے وفاق سے اختیارات لینے میں پیش پیش رہے ہیں لیکن اس منطق کو مقامی حکومتوں تک دینے سے انکاری رہے ہیں۔ مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام میری حکومت کا ایجنڈا ہے۔ ہمارے ہاں مقامی حکومتیں کئی نئی طرزوں میں وجود میں تو آئیں لیکن صوبائی حکومتوں کی طرف سے رکاوٹیں پائی گئیں اور مالی طور پر انہیں مضبوط اور آزاد نہیں کیا گیا۔ مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانے کی ٹھوس وجہ ہے۔ سب سے پہلے وہ شہریوں کے سب سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ دوسرا، خدمات کی فراہمی اور بنیادی گورننس مقامی سطح پر شروع ہوتی ہے۔ تیسرا، اگر سیاسی جماعتوں کا اس ملک میں کوئی مستقبل ہونا ہے، تو قیادت کو مقامی حکومتوں سے اُٹھنا اور سامنے آنا چاہیے اور قیادت کے عہدوں پر فائز افراد کو صوبائی اور قومی مقصد کی طرف بڑھتے ہوئے پرورش پانا چاہیے۔ آخر کار، مقامی سطحوں پر نئے چہرے پارٹیوں کے لیے سیاسی خاندانوں کی گرفت سے نکلنے کے لیے ضروری ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ یقین کرنے کا واحد راستہ ہے کہ نظام میں ان کا حقیقی حصہ ہے۔

میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مقامی حکومتیں بااختیار کیوں نہیں ہیں۔ صوبائی اور وفاقی اراکین پارلیمان، جیسا کہ وہ اکثر مقامی سیاسی خاندانوں سے آتے ہیں، اعلیٰ سطح پر پالیسی سازی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اپنے حلقوں میں سرمایہ کاری کرتے رہتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جو مقامی حکومت کی قیادت کا کام ہے۔ مقامی حکومتوں کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لیے بنیادی ضرورت کم از کم ان کے پاس اپنے مالی وسائل کا ہونا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے نظام کو اس طرح مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی نظام میں دھاندلی نہ کر سکے۔ یہ حکومت اس مقصد کے لیے کام کرے گی۔ میری پارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مقامی حکومت کے رہنما اُن خاندانوں سے نہ آئیں جو صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں منتخب ہوتے ہیں۔

پانچواں، ان تمام معاملات میں آگے بڑھنے کے لیے ایک شرط ہے؛ شہری کے لیے انصاف۔ ہمارا نظام انصاف سیاسی سمجھوتوں اور طاقتور مفادات کے زیر اثر ہے۔ اگر یہ حکومت اس کا رخ نہیں موڑ سکتی تو باقی سب بے کار ہے۔ اگر پانچ سالوں میں پاکستان کی عدالتیں کم ازکم انصاف فراہم کرنا شروع نہیں کرتیں تو پھر ہم نے اپنا وقت ضائع کر دیا ہے۔ یہ ایک آسان کام نہیں لیکن اسی پر کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔

میں اپنی سیاست اور معاشرے کے سب سے زیادہ غیر اخلاقی پہلو کا تذکرہ نہ کرنے میں کوتاہی کروں گا۔ اس پہلو کا تعلق مذہب کارڈ کے استعمال سے ہے۔ اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ہم مذہب سے متاثر ہونے کا بہانہ کرتے ہیں لیکن درحقیقت ہم اسے سیاسی مقاصد اور ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے جیسے اس قسم کی پرہیزگاری میں اضافہ ہوا ہے، اخلاقی قدروں کا معاشرے میں فقدان ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مذہب کو سیاست دانوں، فوج اور سماجی مفادات رکھنے والے گروہ باقاعدگی سے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ہماری سیاست اور معاشرہ ایک بدبودار تالاب بن گیا ہے۔ مذہبی تشدد اور دہشت گردی کی کچھ شکلوں نے بھی اس قبیح عادت سے جنم لیا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے۔ میں یہ بھی کہتا چلوں کہ اس صورت حال کو درست کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ جرثومہ معاشرے میں سرایت کر چُکا ہے لیکن ہم اسے حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

میں یہ کہہ کر بات ختم کرتا ہوں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے، لیکن بلاشبہ یہ ایک بدقسمت ریاست بن چکا ہے۔ جن لوگوں کو معاملات ٹھیک کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی رہی ہے وہ مسلسل مایوس کرتے رہے ہیں۔ ہم اب دہانے پر کھڑے ہیں اور راستہ بدلنے کے لیے ہمیں سچ بولنا چاہیے، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے، باہمی تعاون کرنا چاہیے اور شہریوں کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ حکومت کو آئینی و قانونی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے حکومت کرنا اور اپنی رٹ کو قائم کرنا چاہیے۔ یہ اصلاح یہاں اور آج میرے ساتھ شروع ہونی چاہیے۔

میں یہ بھی تسلیم کروں گا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔ سامعین آسانی سے بہت سے پہلوؤں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں، جن کا اس نظام کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اُس وژن سے بہت دور ہیں جو میں نے پیش کیا ہے۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ سمت کا تعین کریں اور آگے بڑھنا شروع کریں۔

اس بات کو یقینی بنانا کہ ہمارے پاس صرف جمہوریت نہیں بلکہ آئینی جمہوریت ہے اور ہم فوجی آمریت سے سویلین آمریت کی طرف جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت میں صرف نقشہ پیش کر سکتا ہوں۔ آنے والے دنوں میں مجھے امید ہے کہ میری حکومت آپ کو عمل کے ذریعے یہ دکھانے کے قابل ہو گی کہ میں نے آج جوکچھ کہا ہے وہ برقرار رہے گا۔

اعجاز حیدر معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔