'وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مالی کوششوں کا ایک منصفانہ توازن، جس نے قومی مالیاتی معاہدے کے دستخط کے ذریعے 18 ویں آئینی ترمیم کے مطابق اخراجات کی سرگرمیوں کو دوبارہ متوازن کرنے پر اتفاق کیا ہے، جو کہ صوبائی حکومتوں کو تعلیم، صحت، سماجی تحفظ کے لیے زیادہ خرچ کرنے کی ذمہ داری دیتا ہے اور علاقائی عوامی بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری، بہتر عوامی خدمات کی فراہمی کے قابل بناتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، صوبے اپنی ٹیکس جمع کرنے کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے، بشمول سروسز پر سیلز ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس۔ مؤخر الذکر پر تمام صوبے وفاقی ذاتی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کے نظام کے ساتھ قانون سازی کے ذریعے اپنے زرعی انکم ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور یہ یکم جنوری 2025 سے نافذ العمل ہو جائے گا'۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی پریس ریلیز نمبر 24/273، جولائی 12، 2024
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان تقریباً 7 بلین امریکی ڈالر کا 37 ماہ کے لئے توسیعی فنڈ سہولت کا معاہدہ جو سٹاف کی سطح پر 12 جولائی 2024 کو اختتام پذیر ہوا، یقینی طور پر انتہائی اہمیت اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کی قبولیت کے بعد اس کی ایگزیکٹو بورڈ سے مشروط منظوری اس کے 28 اگست 2024 کے مجوزہ اجلاس میں حاصل ہو جائے گی۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے 28 اگست 2024 کے مجوزہ اجلاس میں پاکستان کا نام شامل نہ ہونے پر سرکاری حلقوں میں تو افسردگی ہے ہی، مگر عوامی حلقے بھی اس کو حکومت کی ایک اور ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حکومتوں کے ساتھ اب ہمارے نام نہاد اہل علم و دانش بھی قرضوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ان کے ملنے میں تاخیر کو بھی پریشانی سے دیکھتے ہیں۔ محکوم قوموں کی یہی فطرت بن جاتی ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک مرتبہ پھر سب کو حوصلہ دیا ہے کہ ستمبر 2024 میں منظوری حاصل کر لی جائے گی۔ اس خبر سے ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ تاخیر سے ہی سہی مگر مزید قرضہ تو مل ہی جائے گا!
آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ دوست ممالک سے ان کو واجب الادا قرضوں کی ادائیگی میں مزید نرمی حاصل کی جائے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا۔ اس سال ہمیں بیرونی ادائیگوں کے لیے 26 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ دوست ممالک کو واجب الادا تقریباً 12 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی میں ایک سال کی تاخیر کی سہولت کے بعد بھی 14 ارب ڈالر کے مزید قرضہ جات کی ضرورت ہو گی۔
قرضوں کی ادائیگی کی اصل رقم کی واپسی تو بہت دور کی بات، اب تو ہم محض سود کی ادائیگی سے بھی قاصر ہیں۔ کاش حکمران اور سارا دن وٹس ایپ پر معاشی انقلاب برپا کرنے والے دانشور قرضوں سے نجات کا کوئی عملی پروگرام بھی پیش کریں اور عوام پر مزید ٹیکسز ہی کو اصل حل کے طور پر اپناتے ہوئے اس کا سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر منتقل نہ کرتے رہیں۔
اگر ہم اپنی کل قومی پیداوار کو دوگنا کرنے کے لئے کام کریں اور تمام وقت کو سوشل میڈیا ہی کی نظر نہ کر دیں تو قرضوں کا بوجھ بھی قابل برداشت ہو جائے گا اور معاشی ترقی سے سب کو فائدہ بھی حاصل ہو سکے گا۔ قومی سطح پر دولت اور تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے ہمیں محصولات کو متحرک کرنے، وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان ٹیکس وصولی کی تقسیم کے ساتھ ساتھ فرسودہ اور کم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے قومی ٹیکس نظام کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کو اصلاحات سے زیادہ دلچسپی وفاقی سطح پر پرائمری سرپلس (primary surplus) سے ہے۔ اس سلسلے میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے آئی ایم ایف کا مسلسل دباؤہے۔ سب کو معلوم ہے صوبوں کے حصص میں کمی ممکن نہیں جب تک ہم آئین پاکستان میں ترمیم نہیں کرتے۔ ظاہر ہے تمام صوبوں کی جانب سے اس کے خلاف مزاحمت موجود ہے۔
مالیاتی استحکام کا مسئلہ مرکز اور صوبوں کے درمیان فرض کردہ غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ کیک کے سائز یعنی قابل تقسیم پول (divisble pool) کا ہے۔ اس عرصے کے دوران فیڈریشن اور فیڈریشن یونٹس دونوں امیروں اور طاقتوروں پر ٹیکس نہ لگا کر ٹیکس کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے میں ناکام رہے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی 2016 کے بعد کوئی رپورٹ جاری کرنے میں ناکام رہا ہے جس سے پاکستان کی حقیقی ٹیکس صلاحیت کی نشاندہی کی جا سکے۔
IMF کی 2016 کی ایک رپورٹ، جس کا عنوان ہے، پاکستان کے محصولات کی صلاحیت کو غیر مقفل کرنا، پاکستان کی اصل ٹیکس صلاحیت کا تخمینہ 8 ٹریلین روپے کا دعوے کرتے ہوئے، ذکر کرتا ہے:
'تازہ ترین نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ نے، جس پر 2010 میں دستخط ہوئے، مالیاتی مسائل کو بڑھایا اور وفاقی ٹیکس محصولات میں صوبائی حصہ کو 45 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا، حالانکہ صوبوں کو زرعی آمدنی، جائیداد اور خدمات اور اکاؤنٹس پر ٹیکس لگانے کا خصوصی اختیار حاصل ہے اور کل عام سرکاری اخراجات میں اس کا حصہ صرف 35 فیصد ہے۔ نتیجتاً، جبکہ صوبائی ٹیکس محصولات گزشتہ تین سالوں میں تقریباً 0.3 فیصد پوائنٹس کے اضافے سے 2016 میں جی ڈی پی کے 1 فیصد تک پہنچ گئے، صوبائی حکومتوں کے پاس اپنے ذرائع آمدن کو بڑھانے کے لیے محدود ترغیبات ہیں اور اس کے بجائے وفاقی حکومت کی جانب سے منتقلی پر انحصار کرتے ہیں۔ زرعی شعبہ، مثال کے طور پر، صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں کل ٹیکس محصولات کا 0.1 فیصد سے کم پیدا کرتا ہے، حالانکہ یہ جی ڈی پی کا تقریباً 20 فیصد ہے اور قومی سطح پر 45 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے'۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
2016 میں 7 ویں این ایف سی ایوارڈ پر آئی ایم ایف کے اعتراض کا بنیادی سبب ٹیکس وصولی میں، خاص طور پر زرعی انکم ٹیکس کے حوالے سے 'صوبوں کی ناقص کارکردگی' تھا۔ زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کی مخالف لابی (anti agriculture tax lobby) کا کہنا ہے کہ کسانوں کی بھاری اکثریت تقریباً غربت کی سطح پر رہتی ہے اور وہ اس صوبائی زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کے قابل نہیں ہیں۔ معزز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کے مطابق، 2022 میں، ایک فیصد زمینداروں کی خالص آمدنی، جو پورے پاکستان میں 22 فیصد اراضی کے مالک ہیں، 2800 ارب روپے تھی، لیکن انہوں نے صرف 2 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا۔ دراصل مسئلہ، پاکستان میں امیروں اور طاقتور طبقوں پر ٹیکس نہ لگانے کا ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے 24 ویں توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کی کامیابی کو صوبائی 'زرعی انکم ٹیکس' کے نظاموں کو 'وفاقی ذاتی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کے ساتھ قانون سازی کے ذریعے مکمل ہم آہنگی سے جوڑا ہے' اور یہ 'یکم جنوری 2025 سے مؤثر ہونا ضروری ہے'۔
2024 میں ہمارے اقتصادی منتظمین اب بھی 7 ویں NFC ایوارڈ پر انحصار کر رہے ہیں، جس پر 30 دسمبر 2009 کو آئینی ایکٹ ( اٹھارہویں ترمیم) 2010 (عام طور پر 18 ویں ترمیم کہلاتا ہے) سے پہلے دستخط ہوئے۔ آئین کا آرٹیکل 160 (3A)، جو 18 ویں ترمیم کے ذریعے داخل کیا گیا ہے، واضح طور پر کہتا ہے؛ 'قومی مالیاتی کمیشن کے ہر ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ میں صوبوں کو دیے گئے حصہ سے کم نہیں ہو گا'۔ تاہم، آئین کے آرٹیکل 160 کے دائرہ سے باہر، مرکزی حکومت بجٹ کے فرق کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس لگا سکتی ہے جیسا کہ اس نے 2013 میں انکم سپورٹ لیوی ایکٹ 2013 کو نافذ کر کے کیا تھا، لیکن اگلے ہی سال اسے منسوخ کر دیا۔
جب وفاقی حکومت اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صوبوں کے ساتھ آمدنی کا اشتراک کیے بغیر کوئی ٹیکس/لیوی/سیس لگا سکتی ہے جیسا کہ پیٹرولیم لیوی کا معاملہ ہے تو پھر 7 ویں این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم پر بحث کی کیا ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ وفاقی حکومت اور صوبوں کی جانب سے ٹیکسوں کی ناقص وصولی کا ہے، دونوں ہی امیر اور طاقتور طبقات سے ٹیکس وصول نہ کرنے کے مجرم ہیں۔ یہ پاکستان کا اصل مخمصہ ہے۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد این ایف سی ایوارڈز کے مذاکرات کی تاریخ دلچسپ ہے۔ چونکہ 8 ویں اور 9 ویں NFC غیر نتیجہ خیز رہے، 10 ویں NFC کو 12 مئی 2020 کو تشکیل دیا گیا جو 23 اپریل 2020 سے نافذ العمل ہو چکا ہے، مگر کوئی بھی اس کی موجودہ حیثیت نہیں جانتا۔
10 ویں این ایف سی کا افتتاحی اجلاس اس کے قیام کے کئی ماہ بعد 18 فروری 2021 کو منعقد ہوا۔ اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت اس نے سیکٹرل سفارشات تیار کرنے کے لیے چھ ذیلی گروپ بنائے۔ پہلے اجلاس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے 'اپنی مخصوص محرومیوں کو دور کرنے کے لیے' اعلیٰ وسائل کا مطالبہ کیا۔ صوبوں کی مخالفت اور این ایف سی کی تشکیل کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد حفیظ شیخ کو 10 ویں این ایف سی کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اسے 21 جولائی 2020 کو دوبارہ تشکیل دیا گیا تھا، لہٰذا اس کی میعاد 20 جولائی 2025 کو ختم ہو رہی ہے۔
اجلاس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صحافیوں کو بتایا کہ 7 ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت اضافی وسائل کے استعمال کے لیے ناکافی صلاحیت کی کہانی زیادہ متعلقہ نہیں رہی بلکہ وفاق کی جانب سے صوبائی حصص کے تحت فنڈز کی تقسیم ہے۔ حکومت ایسی تھی کہ اس کے صوبے کو ہر مہینے کی 30 تاریخ کو ہمیشہ اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کتنا اوور ڈرافٹ درکار ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ 'اصل مسئلہ یہ تھا کہ گذشتہ دو تین سالوں میں ایف بی آر کی وصولیاں مالی سال 2017 کے مقابلے میں کم تھیں'۔
اگرچہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں چند میٹنگز ہوئیں لیکن اپریل 2022 میں اس کی حکومت کے خاتمے تک کسی ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) نے اپنے 16 ماہ کے اقتدار میں دو بجٹ پیش کیے لیکن این ایف سی کا ایک بھی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔
فی الحال، تمام وسیع البنیاد اور خوش آئند ذرائع آمدن وفاقی حکومت کے پاس ہیں اور کل ٹیکس محصولات میں صوبوں کا حصہ بمشکل 6 فیصد ہے، مجموعی قومی محصول (ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو) میں یہ تقریباً 8 فیصد ہے۔
جمہوریت کی دہائی (2008-18) کے دوران نہ تو پاکستان پیپلز پارٹی اور نہ ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذریعہ محصولات کی مناسب وصولی کو یقینی بنانے کی کوششیں کیں تاکہ ان کی خالص آمدنی کی تقسیم وفاق کے لیے مالی استحکام لا سکے۔ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے حکم کے مطابق صوبے مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیار دینے میں بھی ناکام رہے۔
اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومتیں اور خیبر پختونخوا میں دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومتیں بھی آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت ٹیکس وصولی اور منتقلی کو بہتر بنانے میں بری طرح ناکام ہوئیں۔
اس سے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئین کی سراسر خلاف ورزی اور لوگوں کی بھلائی اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے لیے مکمل بے حسی ثابت ہوتی ہے۔ اگر انہوں نے ذمہ داری سے کام لیا ہوتا تو 2008 کے بعد سے کم مراعات یافتہ اور غیر مستحق افراد کو بہت زیادہ معاشی تکلیف نہ ہوتی۔
مرکز ٹیکس پالیسی اور ٹیکس انتظامیہ کو وفاق کے اصول کے مطابق اختیار کرنے لیے تیار نہیں ہے۔ نتیجتاً کیک کا سائز اتنا چھوٹا ہے کہ یہ ملک کو قرضوں کے جال سے نکلنے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مناسب خرچ کرنے میں مدد نہیں دے سکتا۔ آگے کا راستہ قومی ٹیکس کونسل کے ذریعے جمع کیے جانے والے سامان اور خدمات پر ہم آہنگ سیلز ٹیکس ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ بحث اور اتفاق رائے کے بعد آئین میں مزید ترامیم کی جائیں تاکہ زرعی آمدنی سمیت ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا حق وفاقی حکومت کو تفویض کیا جائے تاکہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے، مالیاتی خسارے کو پورا کرنے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے امیروں اور طاقتوروں پر انکم ٹیکس یکساں سطح پر عائد کیا جا سکے۔ اس سے ہی پاکستان میں پائیدار مالیاتی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔