وزیر اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کی حکومت کو شفاف ترین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تنقید سے گھبرانے والے نہیں اور نہ ہی اپنے نظریے پر سمجھوتہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو گذشتہ ڈیڑھ سال سے میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا ہے، اس لئے میں لوگوں کو کہتا ہوں کہ وہ اخبار نہ پڑھیں اور شام کو ٹی وی ٹاک شوز ہرگز نہ دیکھیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیووس میں پاکستان بریک فاسٹ میٹ میں اہم کاروباری شخصیات سے گفتگواورامریکی چینل کو انٹرویومیں کیا۔
عمران خان تنقید سے پریشان ہیں کیا؟
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹی وی چینل آخر ایسا کیا دکھا رہے ہیں جو وزیر اعظم صاحب کے ایجنڈے کی تکمیل میں مخل ہے؟ کیا کسی بھی خبر رساں ادارے کو یہ رپورٹ نہیں کرنا چاہیے کہ ٹراینسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2019 میں 2018 کے مقابلے میں زیادہ کرپشن ہوئی اور پاکستان 2017 اور 2018 کی اپنی 117ویں پوزیشن بھی برقرار رکھنے میں ناکام ہو گیا اور 120ویں نمبر تک گر گیا؟ عوام سے یہ حقیقت کیوں چھپائی جائے؟ اب فردوس عاشق اعوان صاحبہ کہتی ہیں کہ ٹرانسپرنسی کا طریقہ کار شفاف نہیں اور یہ رپورٹ کسی ’گٹھ جوڑ‘ کا نتیجہ ہے تو کیا یہ طریقہ کار 2007 میں شفاف تھا جب اسی ٹرانسپرنسی کی رپورٹ کی بنیاد پر وزیر اعظم صاحب نے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا؟ جب وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے متعلق اسی ٹرانسپرنسی کی رپورٹس کا حوالہ دیتے تھے، تب یہ عمل شفاف کیسے تھا؟ گذشتہ دس سالوں میں ٹرانسپرنسی کے مطابق کرپشن میں مسلسل کمی آتی رہی لیکن اب پہلی بار عمران خان کی اپنی حکومت میں کرپشن کے بڑھنے کا تاثر اسی ٹرانسپرنسی کی رپورٹ کے مطابق جا رہا ہے تو یہ خبر عوام سے دور رکھی جائے۔ یا کم از کم عوام کو اس سے دور رکھا جائے۔
میڈیا حمایت کرے تو اچھا، تنقید کرے تو برا
2010 سے لے کر 2018 انتخابات تک پاکستان کی کس سیاسی جماعت کے سربراہ نے ٹی وی چینلز کو سب سے زیادہ انٹرویوز دیے، یہ جاننے کے لئے ایک معمولی سا سروے بھی کافی ہوگا۔ اس ضمن میں خان صاحب کا مقابلہ صرف ان کے اپنے قریبی دوست شیخ رشید کے علاوہ کسی سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خود عمران خان ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ تحریکِ انصاف کو کئی سال صرف میڈیا نے زندہ رکھا اور اگر میڈیا نہ ہوتا تو پی ٹی آئی کبھی اقتدار میں نہ آتی۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ کئی سال جن بیچاروں نے ہارون الرشید کے کالم پڑھ کر ’کپتان‘ کو اپنا ’مسیحا‘ مانا تھا، انہی کو حکم ہے کہ ہارون الرشید کا کالم نہ پڑھیں۔ روزانہ کی بنیاد پر جس مبشر لقمان کا ’کھرا سچ‘ سن کر نوجوانوں نے عمران خان صاحب کی صورت میں اپنا ہیرو تراشا تھا، آج اسی کو تھپڑوں اور گھونسوں سے نوازا جا رہا ہے۔
ایک جیو نیوز ہوا کرتا تھا۔ خان صاحب ٹی وی پر آ کر اس کے حق میں دلائل دیا کرتے تھے کہ جیو سوپر کو کرکٹ سیریز کے رائٹس نہ دے کر بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔ اس چینل نے عمران خان کے لئے کیا نہیں کیا؟ اسی گروپ سے منسوب تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے 2013 انتخابات کے بعد ایک ٹوئیٹ کی تھی جس کے مطابق جیو نیوز نے پی ٹی آئی کو اشتہاروں کی مد میں دوسری تمام جماعتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ڈسکاؤنٹ دیا۔ انتخابات کی تاریخ 11 مئی تھی۔ 9 مئی کی رات 12 بجے کمپین ختم ہو گئی۔ لیکن 10 مئی 2013 کی رات کو یہ جیو نیوز ہی تھا جس نے کیپیٹل ٹاک میں تحریکِ انصاف کے تین پرجوش حامیوں شہزاد رائے، ماڈل نادیہ حسین اور تجزیہ نگار حسن نثار کو بٹھا کر خصوصی ٹرانسمیشن کی۔ اس موقع پر نادیہ حسین نے جو کرتا پہن رکھا تھا اس پر جا بجا عمران خان کی تصاویر موجود تھیں اور اس کا ٹی وی پر نشر ہونا الیکشن کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی تھی لیکن جیو نیوز نے اس کی پروا نہ کی۔ پھر یہی جیو نیوز زیرِ عتاب آیا اور چشمِ فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا جب محض ایک سال کے بعد عمران خان صاحب کے ’شیرو‘ جیو نیوز کی رپورٹرز کو سڑکوں پر ہراساں کر رہے تھے اور ان کے اسلام آباد دفتر پر پتھراؤ کر کے شیشے توڑ رہے تھے۔
تو معاملہ دراصل یہ نہیں کہ میڈیا کی رپورٹنگ ایجنڈے کی تکمیل میں کوئی رخنہ ڈال رہی ہے۔ مسئلہ تنقید سے ہے۔ جو کوئی بھی تنقید کرتا ہے، وہ موصوف کا دشمن ہے، ملک کا غدار ہے، مذہب کا گستاخ ہے، یا پھر مخالفین سے پیسے کھائے ہوئے ہے۔
صحافیوں کو گالیاں دینے کا رواج کس نے عام کیا؟
پاکستان میں سوشل میڈیا پر صحافیوں کو ’لفافی‘ کہنے کا رجحان بھی اسی جماعت نے ڈالا۔ اور ایسی ایسی غلیظ گالیوں سے صحافیوں کو نوازا گیا کہ ان بازاروں میں بھی کیا دی جاتی ہوں گی۔ یہی سوچ بھارت میں ہندوتوا وادیوں اور مودی بھگتوں کی بھی ہے جو صحافیوں کو prostitutes کے وزن پر presstitutes کہتے ہیں۔ امریکہ میں ڈانلڈ ٹرمپ اور ان کے حامی ایسی تمام خبروں اور ایسے خبر رساں اداروں پر فیک نیوز ہونے کا الزام لگاتے ہیں جو ان کی منشا کے مطابق خبریں نہ دیں۔ ڈانلڈ ٹرمپ تو گوگل پر بھی الزام لگا چکے ہیں کہ وہ ان سے متعلق منفی خبریں سرچ رزلٹس میں پہلے دکھاتا ہے۔
میڈیا منیجمنٹ یا استحصال؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر سپورٹرز اور ووٹرز میڈیا سے دور ہو جائیں گے تو ان کے پاس اطلاعات کا ذریعہ کیا رہ جائے گا؟ یقیناً پارٹی کے اپنے نیوز لیٹر اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس طرح تو اطلاعات کی یکطرفہ ترسیل سے سپورٹر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی قوت سے ہی عاری ہو جائیں گے۔ تو گذارش یہ ہے کہ اس سارے عمل کے پیچھے مطمع نظر ہی یہ ہے کہ لوگوں کی عقل پر پردے پڑے رہیں۔ ایک مخصوص زاویے کے علاوہ کوئی اور زاویہ ان کی نظروں کے سامنے ہی نہ آئے تاکہ جارج کارلن کے الفاظ میں obedient workers بننے کا سلسلہ جاری رہے۔ پھر اس کے لئے چاہے نیوز چینلز کے اشتہار بند کر کے اس کی ذمہ داری مالکان پر ڈالی جائے، سینیئر تجزیہ کاروں کے پروگرام بند کروانے پڑیں، چینلز ڈاؤن سائزنگ پر مجبور ہوں، تنخواہیں ادا کرنے سے معذور ہوں، صحافی خودکشیاں کرنے پر اتر آئیں، اس کی ہمت نہ رکھتے ہوں تو دل کا دورہ پڑنے سے مر جائیں، سوشل میڈیا پر ویب سائٹس بند کروانی پڑیں، ایک پوری صنعت تباہ و برباد ہو جائے، لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حضور شوق سلامت رہے، شہر اور بہت۔