پنجاب میں فارورڈ بلاک، تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بقاء کی جنگ

پنجاب میں فارورڈ بلاک، تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بقاء کی جنگ
لیّہ سے تحریکِ انصاف ایم پی اے سردار شہاب الدین کہتے ہیں کہ اگر ہمیں عزت نہ دی گئی تو نہ تو پارٹی رہے گی، نہ حکومت رہے گی اور نہ یہ بیوروکریسی رہے گی۔ اور اسی تنبیہہ کے ساتھ انہوں نے تحریکِ انصاف پنجاب کے اندر فارورڈ بلاک کا انکشاف کر دیا۔

اس فارورڈ بلاک میں جنوبی اور وسطی پنجاب کے 20 ایم پی ایز ہیں اور ان کا الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے کے اندر اعلیٰ سطحی بیوروکریسی میں  بے شمار تقرریاں و تبادلے کیے ہیں لیکن کسی میں بھی انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

کئی ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے یہاں تک خبریں چلائی ہیں کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے ہٹاکر سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ لیکن جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے رہنما سردار شہاب الدین نے واضح طور پر کہا کہ اگر کسی طرف سے بھی عثمان بزدار کو ہٹانے کی تبدیلی آئی تو ان کا گروپ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ گروپ صرف اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے معمول سے ہٹ کر تین ارب روپے کے فنڈز جاری کرانے کے لیے بنایا گیا ہے جسے پورا کرنے کی یقین دہانی وزیر اعلیٰ پنجاب نے کرا دی ہے۔

ان سے پوچھا گیا کہ ایسے وقت میں جب عثمان بزدار کی تبدیلی کی خبریں گردش کر رہی ہیں  تو یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید آپ نے سیاسی تبدیلی کے  لیے فارورڈ بلاک بنایاہے تو ان کا کہنا تھا یہ غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب عثمان بزدارکاتعلق جنوبی پنجاب سے، ان کے درمیان باہمی تعلقات بھی اچھے ہیں اور وہ جنوبی پنجاب کے مسائل حل کرنے میں بھی سنجیدہ ہیں تو  پھر  وہ ان کی تبدیلی کیوں چاہیں گے؟

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزداراور پنجاب میں بیوروکریسی کے نئے سیٹ اپ میں اختلافات کی اطلاعات سے تاثر ابھرا کہ شاید پی ٹی آئی قیادت پنجاب میں سیاسی تبدیلی پر غورکر رہی ہے۔ یہ تاثر خاص طور پر تب پختہ ہونے لگا جب جب عثمان بزدار کے حمایتی سمجھے جانے والے حکومت کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی ساتھی کامل علی آغا نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کا بیان دیا۔ اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی بھی ٹاک شوز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ عثمان بزدار کی کارکردگی سے اگر عوام خوش نہیں تو وہ ان کا کہاں تک ساتھ دے سکتے ہیں؟

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب سے چند ماہ قبل تک مسلم لیگ نواز کے اندر ایک فارورڈ بلاک بن رہا تھا اور اس میں قریب 20 لوگ شامل ہو چکے تھے۔ اب صورتحال یکایک ایسی بن گئی ہے کہ مسلم لیگ کا فارورڈ بلاک تو سامنے آیا نہیں، الٹا تحریکِ انصاف کے اندر فارورڈ بلاک بن چکا ہے اور گو وہ ابھی تک وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی حمایت میں کچھ نہیں کہہ رہا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مطالبات ہی منوانا تھے تو اس کام کے لئے فارورڈ بلاک بنانے کی کیا ضرورت تھی؟

یہ سب کچھ اچانک مسلم لیگ نواز کے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی غیر مشروط حمایت کے بعد ہونا اور بھی معنی خیز ہے۔ سہیل وڑائچ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ حکومت کے پاس محض تین سے چار ماہ ہیں۔

اس وقت وزیر اعظم عمران خان سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں موجود ہیں جہاں وہ ورلڈ اکنامک فورم میں ملک کی نمائندگی کریں گے۔ اس موقع پر ان کی ڈانلڈ ٹرمپ سے ملاقات بھی ہوئی ہے اور وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ اس ملاقات میں انہوں نے کشمیر کا موضوع اٹھایا ہے۔ تاہم، اس وقت وہ ایک ایسے وزیر اعظم ہیں جو ملک کے اندر ایک شدید سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں وہ نہ تو کشمیر کا مسئلہ موزوں انداز میں اٹھا سکتے ہیں اور ملک کے اندر ان کا معاشی ماڈل پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے تو ورلڈ اکنامک فورم پر جا کر وہ کیا بات کریں گے؟ ظاہر ہے ان کا موضوع ایک مرتبہ پھر کرپشن ہوگا اور وہ اپنے مخالفین کی economic mismanagement اور اختیارات کے ناجائز استعمال اور منی لانڈرنگ کا ذکر بھی لازماً کریں گے۔ اب سے چند روز پہلے انہوں نے سوشل میڈیا influencers سے ملاقات کے دوران بھی اپنے مخالفین سے متعلق ذلت آمیز لب و لہجہ اپنایا تھا۔ وزیر اعظم کے لئے یہ وقت انتہائی مشکل ہے۔ انہیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا کیونکہ ملک کی بہتری کے لئے ان کا جو بھی پروگرام ہے وہ تین ماہ میں پورا نہیں ہو سکتا۔ انہیں اپنے پروگرام پر عملدرآمد کے لئے اپنی ٹرم پوری کرنا چاہیے۔ اور اس کے لئے انہیں مخالفین پر الزامات لگانے کے بجائے، جیسے کہ انہوں نے سوشل میڈیا influencers سے ملاقات کے دوران لگائے، معیشت کی بحالی پر توجہ دینی چاہیے تاکہ حزبِ اختلاف کے ساتھ ان کے تعلقات بھی ٹھیک رہیں اور ورلڈ اکنامک فورم جیسے فورمز پر بھی ان کی سفارشات اور خیالات کو سنجیدگی سے دیکھا جائے۔