منگل کی صبح وزیر اعظم عمران خان ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے لئے سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے۔ اس موقع پر انہوں نے ماضی کی طرح بہترین تقاریر کیں اور وہ بھی فی البدیہہ۔ فورم کی سائیڈ لائنز پر انہوں نے دنیا کے بڑے لیڈران سے ملاقاتیں بھی کیں جن میں جرمنی کی چانسلر آنگلا مرکل اور امریکہ کے صدر ڈانلڈ ٹرمپ کا ذکر لازمی ہے۔ اس دوران انہوں نے انٹرنیشنل میڈیا کونسل سے بھی خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران ان سے دو انتہائی اہم سوالات کیے گئے جن کے جواب خاصے دلچسپ تھے۔
پہلا سوال یہ تھا کہ پاکستان کی معیشت اور کاروباری صلاحیت اس وقت بھی انتہائی مخدوش ہے تو ایسے حالات میں سرمایہ دار آپ کے ملک میں سرمایہ کاری کیوں کریں گے؟
وزیر اعظم عمران خان کا جواب تھا کہ ماضی کی حکومتوں میں مصنوعی طریقوں سے پاکستان کی شرح نمو اچھی رکھی گئی تھی کیونکہ یہ نمو درآمدات پر مبنی تھی جب کہ ان کی حکومت نے درآمدات کم کی ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 70 فیصد تک کم کیا ہے اور کرنسی devalue کی ہے تاکہ پاکستانی ایکسپورٹرز کی مصنوعات عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ پاکستان کی فوج ماضی میں سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی آئی ہے تو اس کی موجودگی میں آپ معاملات کو ٹھیک کیسے کریں گے؟
جواباً وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ماضی میں فوج اس لئے مداخلت کرتی تھی کہ حکمران کرپٹ تھے اور وہ فوج کو اپنے زیرِ اثر لانا چاہتے تھے لیکن فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو ہمیشہ پتہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ کس قدر کرپٹ ہیں، اور یہی وجہ تھی کہ فوج ان حکمرانوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھی لیکن اس وقت چونکہ حکومت بالکل صاف شفاف ہے، اس لئے اسے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے، اور اس وقت وہ جو بھی خارجہ پالیسی بنا رہے ہیں فوج اس پر عمل کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کسی بھی حکومت کو فوج کی طرف سے اتنی حمایت میسر نہیں آئی جتنی ان کی حکومت کو حاصل ہے۔
فوج کی حکومت کے لئے حمایت اور پی ٹی آئی کی شفافیت پر بعد میں آتے ہیں، لیکن پہلے ذرا عمران خان کے ان دعوؤں سے متعلق بات کر لی جائے جو انہوں نے ملکی معیشت کے حوالے سے کیے ہیں۔
یا تو وزیر اعظم عمران خان کو صحیح طرح سے brief نہیں کیا گیا تھا یا پھر ان کا معاشیات کے بارے میں علم کمزور ہے۔ درحقیقت عمران خان حکومت نے ابھی تک جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں وہ IMF کے کہنے پر اور اس کی شرائط کے عین مطابق اٹھائے گئے ہیں۔ یہ اقدامات پی ٹی آئی کے منشور اور اس میں کیے گئے وعدوں سے یکسر مختلف ہیں۔ روپے کی قدر میں گراوٹ بھی IMF کے کہنے پر کی گئی اور اس سے درآمدات کم ہو گئیں کیونکہ ان کی قیمت یکدم بہت بڑھ چکی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے ایکسپورٹرز کو فائدہ ہوا لیکن برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کی وجہ کئی ماہرینِ معاشیات بیان کر چکے ہیں کہ پاکستان کی برآمدات عالمی منڈی میں دیگر ترقی پذیر ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم کرنا IMF کی سب سے بڑی شرط ہے اور اس پالیسی کی رو سے ترقیاتی خرچوں میں کمی کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے 17 مہینوں میں ایک بھی میگا پراجیکٹ نہیں شروع کیا گیا اور سی پیک کے منصوبے بھی زیر التوا پڑے ہیں۔ تمام غیر جانبدار معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حکومت کی پالیسیاں پاکستان کی معیشت کو وقتی طور پر stabilize تو کر دیں گی لیکن شرح ترقی میں اضافہ فی الحال ممکن نہیں رہے گا۔ اور معیشت کے سکڑنے سے manufacturing sector پر شدید منفی اثر پڑا ہے اور سینکڑوں کارخانے بند ہو چکے ہیں جب کہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں مزدور نوکریوں سے محروم ہو گئے ہیں۔
اس طرح کے معاشی اقدامات کا سہرا اپنے سر لینا خان صاحب کی سیاسی بصیرت پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتی ہے۔
فوج عمران خان حکومت کے پیچھے کھڑی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی حکومت ہو، اور دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو، اگر ریاست کا ایک اہم ترین ستون یعنی انتظامیہ کے تعلقات اس کے ساتھ ٹھیک نہ ہوں تو وہ حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ فوج بھی انتظامیہ ہی کا ایک حصہ ہے۔ اور عمران خان صاحب کو چاہیے کہ اپنی فوج سے قربتوں پر اتراتے ہوئے اس چیز کا خیال ضرور رکھا کریں کہ فوج پر بطور ادارہ کوئی سوال نہ اٹھایا جا سکے۔ مثلاً اگر وہ صرف اتنا بھی کہہ دیتے کہ انہیں فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے تو بات مکمل ہو جاتی لیکن انہوں نے صرف یہ نکتہ اٹھانے کے لئے کہ ان کی حکومت انتہائی شفاف ہے اور ان کے مخالفین سب کے سب کرپٹ، فوج کی سیاست میں مداخلت پر بھی تبصرہ نگاری کر دی۔ انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اب وہ ایک وزیر اعظم ہیں، اور ان کا ہر ہر لفظ عمران خان کی نہیں، پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔
اور رہی بات کرپشن کی تو یہ بھانڈا بھی اس خطاب سے اگلے ہی دن ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل نے پھوڑ دیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی کی عالمی رینکنگ ہر سال جاری کی جاتی ہے اور خود عمران خان ماضی میں اس رینکنگ کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے رہے ہیں۔ 2007 میں جب انہوں نے ماضی کے حریف اور آج کل ان کے روٹھے ہوئے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کو ’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘ قرار دیا تھا تو اس کے پیچھے یہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہی کی رپورٹ تھی جس کے مطابق پنجاب میں اس وقت کرپشن انڈیکس 67.5 پوائنٹس تھا۔ عمران خان اس حقیقت کا حوالہ بھی مختلف پروگرامز میں دیتے رہے تھے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن
اب وہی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں کرپشن گذشتہ دو سالوں کے مقابلے میں بڑھی ہے۔ 2017 اور 2018 میں پاکستان 180 میں سے 117ویں نمبر پر تھا، جو کہ یقیناً کوئی قابلِ فخر کارنامہ نہیں لیکن اس برس پاکستان اس سے بھی نیچے یعنی 120ویں نمبر پر ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ چند برسوں میں پاکستان بدستور اپنی پوزیشن بہتر کرتے کرتے 100 میں سے 33 پوائنٹس پر پہنچا تھا جو کہ تاریخ میں پاکستان کی بہترین پوزیشن تھی۔ اس برس پاکستان کو اسی ادارے نے 100 میں سے 32 نمبر دیے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ نمبر محض perception کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں مگر دنیا بھر میں کرپشن رینکنگ کا بہترین نظام اسی انڈیکس کو سمجھا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں اتنی ہی کرپشن ہوئی ہے جتنی کہ perception یعنی عوامی تاثر ہے؟ اس بات کا فیصلہ تو ظاہر ہے کہ عدالتوں، نیب اور نظامِ انصاف سے متعلق دیگر ریاستی اداروں کو کرنا ہے لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں آٹے اور چینی کا بحران ہے۔ یہ بحران کیسے پیدا ہوئے؟
آٹے کی مصنوعی قلت سے کس کا فائدہ ہوا؟
گندم کے بحران پر ایک جامع رپورٹ نیا دور کے یوٹیوب اکاؤنٹ پر موجود ہے۔ سکرین کے دائیں کونے میں دیے گئے لنک پر کلک کر کے آپ اس رپورٹ کو سن سکتے ہیں۔ اس کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ برس میں 6 لاکھ 93 ہزار میٹرک ٹن گندم پاکستان سے برآمد کی گئی، اور نتیجتاً جب ملک میں گندم کا ایک بحران کھڑا ہو چکا ہے تو کابینہ نے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس حوالے سے انکوائری ہونی چاہیے کہ آخر یہ کون لوگ تھے جنہوں نے یہ بحرانی صورتحال پیدا ہونے دی اور پھر یہ بھی ضرور پتہ لگایا جانا چاہیے کہ اب یہ گندم درآمد کہاں سے کی جا رہی ہے اور اس میں کون کون سے کردار شامل ہیں۔
اور اب چینی کا بحران
انگریزی روزنامے پاکستان ٹوڈے کے مطابق اس وقت چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے پیچھے بااثر چینی مل مالکان اور ذخیرہ اندوزوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت لاہور میں چینی 85 سے 90 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے جب کہ ایک مہینہ قبل اس کی قیمت 70 روپے فی کلو تھی۔ اب کون لوگ ہیں جو ان قیمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ اس وقت حکومت میں اہم ترین عہدوں پر شوگر مل مالکان بیٹھے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی خسرو بختیار ہوں، حکومتی اتحادی چودھری برادران ہوں، معاشی امور کے وزیر حماد اظہر کے والد میاں اظہر ہوں یا عمران خان حکومت کے مہربان ترین جہانگیر ترین ہوں، یہ سب اور اپوزیشن کے بہت سے رہنما چینی ملوں کے مالکان ہیں۔
اطلاعات کے مطابق جہانگیر ترین کی جمالدین والی، صادق آباد، گھوٹکی، ڈہرکی اور دیگر علاقوں میں کئی شوگر ملز موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ریکارڈ 52 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے ذریعے شوگر ملز مالکان نے اکتوبر 2018 سے دسمبر 2019 کے دوران 155 ارب روپے اضافی کمائے ہیں، اور گذشتہ 14 ماہ میں retail market میں چینی کی قیمت 53 روپے فی کلو سے 82 روپے فی کلو ہو چکی ہے اور شہری علاقوں میں کہیں کہیں اس کی قیمت 90 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔
پنجاب میں کیوں آئے روز ٹرانسفر پوسٹنگز ہوتی ہیں، اس کا کوئی مناسب جواز نہیں پیش کیا جا سکتا۔ اور جواز کی عدم موجودگی میں ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، جس کا بیان کرنا اس لئے مناسب نہیں کہ یقیناً کچھ تقرریاں اور تبادلے میرٹ پر بھی کیے گئے ہوں گے اور ان افسران کے کرداروں پر انگلی اٹھانا غلط ہوگا۔ جس ملک میں ایک مہینے میں چینی جیسی بنیادی ضرورت کی چیز کی قیمت 70 روپے کلو سے 90 روپے کلو ہو چکی ہو، اس کے حکمران کا یہ دعویٰ کرنا کہ میری حکومت بہت شفاف ہے واقعی بہت گردے کا کام ہے۔ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ اور چینی اور آٹے کے بحران کی روشنی میں ریاستی اداروں کی حکومت کے لئے حمایت اور مخالفت کو جانچنے کے لئے عمران خان ہی کے دیے گئے criteria کو مان لیا جائے تو یہ حمایت کتنے دن اور جاری رہے گی، اس پر کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔