برسوں پرانی بات ہے، دنیا کے کسی کونے میں ایک گاؤں ہوا کرتا تھا، عجیب سا نام تھا اس کا، مغلوبستان،پتا نہیں اسے مغلوبستان کیوں کہتے تھے حالانکہ نمبردار کا کہنا تھا کہ وہ کبھی کسی سے مغلوب نہیں ہوا، گاؤں کا چودھری عوام سے بہت خار رکھتا تھا، وہ کسی بدیش سے پڑھ کر آیا تھا،گاؤں کے لوگوں کو ”ہڈی فول“ کہتا تھا،لیکن ٹھہریں! کہانی سننے سے پہلے اہم کرداروں کا تعارف ہو جائے۔
سب سے اہم کردار چودھری اور نمبردار کا تھا، یہ دونوں کردار حکمرانی کے دعویدار تھے، لیکن ظاہر ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں کیسے سماتیں؟ اس لیے دونوں مل بیٹھے، ایک طویل مشاورتی اجلاس ہوا،طویل بیٹھک کے بعد ایک نقطے پر اتفاق ہو گیا، حکمرانی چودھری کے حصے میں آئی جبکہ فیصلہ کرنے کا کلی اختیار نمبردار کو دے دیا گیا، گاؤں پر ان کا مکمل قبضہ مکمل تھا،زمینیں، کالج، ادارے، اونچے بنگلوں سمیت ہر سہولت صرف ان کی آل اولاد کے لئے تھی، گاؤں کے لوگوں کو کام کے بدلے اتناکھانا مل جاتا تھا کہ ان کی روح چلتی رہے، چودھری صاحب تو اس حق میں بھی نہیں تھے لیکن نمبردار نے انہیں سمجھایا کہ ان کا زندہ رہنا ضروری ہے، اگر یہ مر گئے تو حکمرانی کس پر کی جائے گی؟
گاؤں کا دوسرا اہم کردار بھانڈ تھے، نمبردار اور چودھری کے ہر کام اور بات کا دفاع کرنا ان کا پیشہ تھا،اگر مالک کہہ دیتے کہ ہفتے میں دس دن ہوتے ہیں تو ان کا کام تھا ان کی بات کو ثابت کرنا، بدلے میں انہیں مالکوں کی طرف سے باقاعدہ ٹریننگ اور معاوضہ بھی فراہم کیا جاتا تھا، تیسرا کردار گاؤں کا مولوی تھا مسلمانوں کا گاؤں تھا اور لوگ مولوی صاحب کی بڑی عزت کرتے تھے اور ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے اس لیے اسے ساتھ ملانا ضروری تھا،پانچواں کردار چودھری اور نمبردار کے وہ رشتہ دار تھے جو گھی، چینی، آٹا اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کیا کرتے تھے، نمبردارنے اپنے فیصلوں سے چودھری اور چودھری نے اپنی حکمرانی سے نمبردار کو خوش رکھا ہوا تھا،سب کچھ روٹین کے مطابق جا رہا تھا کہ اچانک ایک رولا ہو گیا۔
گاؤں کے لوگ جب نمبرداروں اور چودھریوں کے لیے الگ سکول،کالج، عالی شان بنگلے، امپورٹڈ گاڑیاں اورلگژری سہولیات دیکھتے تو احساس محرومی کی آگ میں جلی سرگوشیاں کرتے، سرگوشیاں آوازوں کا روپ دھارنے لگیں، ان کی جائیدادوں اور گھروں پربات ہونے لگی، نمبردار اور چودھری اکٹھے ہوئے، ایک طویل مشاورتی اجلاس ہوا، اگلے دن گاؤں کے ہر چوک میں ایک پوسٹر لگا تھا جس پر لکھا تھا کہ کسی بھی مدعے پر بات کرنا صرف بھانڈوں کا حق ہے، چودھری کی طاقت اور نمبردار کے فیصلوں پر انگلی اٹھانے والے کو سزا سنائی جائے گی،ایک خفیہ فیصلہ یہ کیا گیا کہ عالی شان بنگلے گاؤں کے اندر تعمیر نہیں کیے جائیں گے، اس مقصد کے لیے گاؤں سے باہر کی وسیع زمینیں مختص ہوئیں، جہاں سوسائٹی کے نام سے ایک الگ ہی دنیا بسائی گئی جس میں عیاشی کا ہر سامان موجود تھا،بظاہر اچھے انتظامات تھے لیکن خلق خدا میں بات پھیلتی گئی، ایک ایسا وقت بھی آیا کہ فرعون کے گھر موسیٰ پیدا ہو گیا، وہ انہی کا اپنا بندہ تھا، ان کے سارے داؤ پیچ جانتا تھا، اس لیے انہیں ٹف ٹائم دینے لگا، گاؤں کے لوگ بھی اسی کے ساتھ مل گئے، سب کا ایک ہی بے ضرر مطالبہ تھا: قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور گاؤں کے وسائل پر ہمارا بھی حق ہے۔
فضا بد ل چکی تھی، لوگوں کو مارا بھی جا سکتا تھا لیکن مسئلہ وہی تھا کہ پھر حکمرانی کس پر کی جائے گی، نمبردار اور چودھری اکٹھے ہوئے، پنچایت بلائی گئی،گاؤں کے لوگوں نے ایک شریف سے انسان کو اپنا نمائندہ چن لیا، یوں گاؤں میں ایک نئے سٹیک ہولڈر کا اضافہ ہو گیا، اس کی کوشش سے گاؤں کے لوگوں کے دن پھرنے لگے، نمبردار اور چودھری وقتی طور پر خاموش ہو گئے، شریف کے کچھ دشمن بھی تھے جو خود سٹیک ہولڈر بننا چاہتے تھے، کچھ عرصہ گزرا تو چودھری نے دشمن کو کہا کہ نمبردار کی عدالت میں شریف پر کیس ”ڈال“ دو، کیس ڈال دیا گیا.
شریف کے خلاف ایک چومکھی محاذ گرم ہو گیا،بھانڈوں نے کرپشن کرپشن کا ورد شروع کر دیا،نمبردار نے اپنی پنچائت لگا لی، چودھری نے اپنی طاقت استعمال کی، مولوی نے اندھے عقیدت مندوں سے مل کر گاؤں کے چوک میں دھرنا دے دیا، ہر گلی میں مسٹنڈوں کا راج تھا، دکانداروں نے پیسا خرچ کر کے باہر سے بھی بھانڈ منگوا لیے،گاؤں کے لوگ گیم سمجھ رہے تھے لیکن ان کی چلتی کب تھی، پنچایت کے فیصلے میں شریف کو ہٹا کر دشمن کو سٹیک ہولڈر بنا دیا گیا،سب نے اپنا اپنا حصہ لے لیا،مولوی کو دور اچھے دیس بھیج دیا گیا، بھانڈ بھی امیر ہو گئے،دکانداروں نے شریف کو ہٹانے کے لیے جتنا لگایا تھا، گھی، چینی، آٹا وغیرہ مہنگا کر کے اس سے دوگنا کما لیا، گاؤں کے لوگوں کی حالت دن بدن خراب ہوتی گئی، کوئی بات کرتا تو دشمن کہتا: لوگ جائیں بھاڑ میں، مجھے کیا، مجھے تو بس سٹیک ہولڈر بننا تھا قیمت چاہے کوئی بھی ہو، میری غیرت یا لوگوں کی جانیں،ہاشو کا کہنا ہے کہ وہ گاؤں آج بھی دنیا سے الگ تھلگ کسی جگہ قائم ہے بلکہ اب تو شاید ملک بھی بن چکاہے وہاں آج بھی ایسے ہی کھیل کھیلا جاتا ہے، لیکن میں اس کی بات نہیں مانتا، آپ ہی بتائیں، آج کے جدید دور میں ایسا کھیل بھلا ممکن ہے؟