کراچی کی بربادی کا ذمہ دار کون؟

کراچی کی بربادی کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اس وقت بے تحاشا مسائل کا شکار ہے، ان مسائل میں مزید اضافہ تب ہوتا ہے جب کراچی کی جماعتیں مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے غیر سنجیدگی دکھاتی ہیں۔ اس وقت بھی ایک کھینچا تانی کی سی کیفیت ہے۔ کوئی جماعت کراچی کو "اپنانے" کے لئے تیار نہیں ہے، نہ ہی کوئی یہ مانتا ہے کہ ہم کراچی کی تباہی کے ذمہ دار ہیں اور اب ہم ہی اس کو سدھاریں گے۔

اچھی نیت کے بارے میں کسی کو بتانے یا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ نیک نیتی خود ہی سب کو نظر آجاتی ہے، اس کے لئے بیان بازی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کراچی کی تباہی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ کوئی ایک شخص یا جماعت کراچی کو بدترین حال میں پہنچانے کی ذمہ دار نہیں ہے اور نہ ہی یہ شہر یکدم برباد ہوا ہے۔

کہتے ہیں کہ کراچی کسی زمانے میں صاف ستھرا، پرسکون اور امن و امان والا شہر ہوا کرتا تھا۔ پھر بتدریج یہ اس نہج کو پہنچ گیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسائل میں کمی نہ آئی بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ 2018 کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی بھی کراچی کی سیاست کا حصہ بن گئی، جہاں پہلے ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا اب وہاں پی ٹی آئی کا "راج" ہے۔ سیاسی منظر نامے پہ نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے صدر عارف علوی کراچی سے ہیں، گورنر سندھ کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ خود ہمارے ملک کے وزیراعظم جناب عمران خان کراچی سے الیکشن جیت چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے یہاں کی نشست چھوڑ دی تھی، لیکن یہ بات واضح ہے کہ کراچی کی عوام نے انہیں سپورٹ کیا۔

تحریک انصاف کے کئی ایم این ایز ہیں جو کراچی سے ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچے اور کئی وفاقی وزرا کا تعلق بھی کراچی سے ہے، مگر پھر بھی کراچی اس وقت تنہا ہے، لاوارث ہے۔ البتہ کراچی کے مسائل کی وجہ سے ان جماعتوں کی سیاست خوب "چمک" رہی ہے، روز نئے نئے مواقع سیاست کرنے کے مل جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی ہم نے دیکھا کہ ہر مسئلے کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے اچھالا گیا، چاہے وہ بجلی کی غیر اعلانیہ بندش کا مسئلہ ہو، جے آئی ٹیز رپورٹس ہوں یا پھر بارش کے بعد کے گھمبیر مسائل، جن کا سامنا کراچی والے گذشتہ کئی سالوں سے کر رہے ہیں اور نجانے کب تک کرتے رہیں گے۔

مسائل حل ہوں یا نہ ہوں الزامات در الزامات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، سندھ حکومت وفاق پہ اور وفاق سندھ پہ الزامات لگاتے رہتے ہیں اور کراچی کے مسائل کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ "سیاسی اصول" تو ہم سب کو معلوم ہی ہے کہ جب کام نہ کرنا ہو اور مسئلے کا حل نہ نکالنا تو معاملے کو متنازع کردیا جائے یا کمیٹی بنا دی جائے۔ یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ کئی دفعہ یہ خبر نظروں سے گزری کہ کراچی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کمیٹی بنا دی ہے پھر وہ کمیٹی کہاں جاتی ہے؟ کیا کرتی ہے؟ اس کے اجلاس کب اور کہاں ہوتے ہیں؟ اس بارے میں کوئی خبر اخبار کی زینت نہیں بنتی۔ جہاں ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ شہر قائد کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ وہیں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کراچی کب سے برباد ہونا شروع ہوا؟ تو اس سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے اور وہ یہ کہ جب کراچی پہ اس کی گنجائش اور سکت سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا، تب کراچی نے بربادی کی جانب پہلا قدم اٹھایا، پھر باقی چیزیں بھی اس کی بربادی کا حصہ بنتی چلی گئیں۔

کروڑوں کی آبادی والے شہر کو چلانا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں اور وہ تو اسے بالکل نہیں سنبھال سکتے جن کی نیتوں میں کھوٹ ہو۔ جو نااہل اور لاپرواہ ہوں، جنہیں مسائل کا ادراک ہی نہ ہو۔

آبادی کا مسئلہ صرف کراچی کا نہیں ہے، جس شہر پہ بھی اس کی سکت سے زیادہ بوجھ پڑے گا اس کا یہی حال ہوگا، جو آج کراچی کا ہے۔ بلدیاتی حکومت کا بھی دور دور تک کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا، موجودہ بلدیاتی نظام میں بلدیاتی نمائندوں کے پاس کوئی اختیارات ہی نہیں ہیں۔ فنڈز ملنا تو دور کی بات ہے، اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اسی نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ فی الحال کراچی کے حالات میں فوری بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ طویل صبر آزما کام ہوگا جس کے لئے نیتوں کے نیک ہونے کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کھینچا تانی والی صورتحال میں کم از کم مسائل حل نہیں ہوسکتے البتہ سیاست ہوسکتی ہے سو وہ جاری ہے۔