نیا بحران تیار: ملک میں گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف

نیا بحران تیار: ملک میں گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف
پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، اور سوئی ذخائر 25 سال میں 66 فیصد تک کم ہوچکے ہیں۔
سینیٹر محمد عبدالقادر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس ہوا، جس میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے حکام نے انکشاف کیا کہ ملک میں گیس ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، اور سوئی ذخائر 25 سال میں 66 فیصد تک کم ہوچکے ہیں۔ پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر نے بتایا کہ 1996 میں سوئی سے یومیہ ایک ارب کیوبک فٹ گیس پیدا ہو رہی تھی، لیکن آج سوئی سے گیس کی پیداوار کم ہو کر 34 کروڑ کیوبک فٹ گیس پیدا ہو رہی ہے، جدید مشینری نہ لگائی گئی تو باقی ماندہ ذخائر بھی تیزی سے ختم ہو جائیں گے۔
اس سے قبل گزشتہ سال یہی بات حکومتی مشیر بھی کر چکے ہیں:
پاکستان میں گیس کے باقی ذخائر کے بارے میں وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر ملک میں کوئی نئے بڑے ذخائر دریافت نہیں ہوتے تو آئندہ بارہ سے چودہ سال میں گیس ختم ہو جائے گی۔

پاکستان میں گیس کی کمی کیوں ہے؟

اس سوال کے جواب میں ندیم بابر نے کہا تھا کہ پاکستان میں مقامی طور پر گیس کی پیداوار بہت تیزی سے گر رہی ہے۔ پچھلی حکومت نے ایک اچھا کام کیا کہ ایل این جی نظام میں شامل کر دی اور ایک برا کام کیا کہ مقامی پیداوار پر توجہ ہونی چاہیے تھی وہ نہیں رہی۔

پاکستانی گیس کی عیاشی کر رہے ہیں؟

اس حوالے سے سابق مشیر برائے پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پائپ کے ذریعے گیس گھر پر آنا ایک لگژری ہوتی ہے۔ عموماً سلینڈر یا دوسرے ذرائع سے گیس دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں 27 فیصد صارفین کو پائپ کے ذریعے گیس ملتی ہے، تقریباً 27 سے 28 فیصد ایسے لوگ ہیں جو ایل پی جی پر چلتے ہیں اور باقی لوگ دیگر قسم کے ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ اب دیکھیں مقامی طور پر ہمیں گیس پیدا کرنے میں 700 روپے لگتے ہیں جبکہ صارفین سے ہم اس کے عوض تقریباً 275 سے 300 روپے وصول کرتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک میں 90 فیصد صارفین سبسڈی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ادھر رسد ہماری کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب اس صورت میں ہم نئے کنیکشن دیتے جائیں تو اس میں ہم گیس ڈالیں گے کہاں سے؟ مگر پھر بھی نئے کنکشن پر پابندی نہیں ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’ اوگرا نے بطور ریگیولیٹر گرتی ہوئی رسد کے پیشِ نظر ہر سال کے لیے ایک حد تعین کی ہے کہ آپ اتنے کنکشن دے سکتے ہیں جو کہ اس سال کے چار لاکھ ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت ہمارے پاس 28 لاکھ کنکشن کی درخواستیں پڑی ہیں۔ نئی سوسائٹیز جتنی مرضی بنا لیں، ان کو ایل این جی کی قیمت چارج کر لیں پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، جتنی چاہیے ہو گی درآمد کر لیں گے۔۔۔ ہاں مگر اس صورت میں صارف کو تین گنا بل دینا پڑے گا۔ ہمیں قیمت، رسد، اور نئے کنکشن سب کو بیلنس کر کے چلنا ہے۔

ماہرین پیٹرولیم کیا کہتے ہیں؟
ماہرین پیٹرولیم کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت گیس بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک جانب مقامی گیس فیلڈز کی تلاش جو کہ خود ایک وقت طلب کام ہے اس پر خاص پیش رفت نہیں رہی بلکہ باہر سے آنے والی ایل این جی کی خرید ترسیل اور فروخت کے معاملات بھی انتہائی نا اہلی کے ساتھ ڈیل کیئے گئے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گرمیوں میں بھی سی این جی سیکٹر اور صنعتوں کو گیس کی فراہمی منقطع رہی ہے جبکہ گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ گیس کا بحران جلد ہی خوفناک شکل اختیار کرنے والا ہے۔