Get Alerts

خلیل الرحمان قمر کی بیان کردہ اغوا کی کہانی میں کہاں کہاں جھول ہیں؟

ناقدین کا ماننا ہے کہ خلیل الرحمان قمر کے ڈائیلاگز تو مضبوط ہوتے ہیں پر ان کے ڈراموں میں کہانی مضبوط نہیں ہوتی۔ وہ کہانی بُننے میں ذرا کچے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ایف آئی آر بھی ہے۔ کوئی عام سا لکھاری بھی اس سے اچھی کہانی لکھ سکتا تھا۔ اسی وجہ سے لوگ اسے تھرڈ کلاس کہانی کہہ رہے ہیں۔

خلیل الرحمان قمر کی بیان کردہ اغوا کی کہانی میں کہاں کہاں جھول ہیں؟

مجھے اغوا کرنے والوں نے نعمان اعجاز اور صبا قمر کا نام لیا تھا۔ یہ ہے نئی واردات جو خلیل الرحمان قمر نے ایک دو ٹکے کی فرمائشی پوڈ کاسٹ میں ڈالی ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ نعمان اعجاز اور صبا قمر ایسے لوگ نہیں ہیں، وہ مجھے اغوا نہیں کروا سکتے۔ یہ تو اغوا کاروں نے مجھے Distract کرنے کی وجہ سے ان دونوں سپر سٹارز کا نام لیا۔ اسی لیے میں نے ایف آئی آر میں ان دونوں کا نام نہیں لکھوایا۔ اب غور کریں اس بات پر۔ بظاہر خلیل الرحمان قمر نے نعمان اعجاز اور صبا قمر پر اپنے ساتھ ہوئے واقعے کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ مگر اس رات اصل میں ہوا کیا تھا خلیل الرحمان قمر کے ساتھ؟ آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

لاہور کے بڑے بڑے کرائم رپورٹرز اس بات کو کنفرم کر رہے ہیں کہ خلیل الرحمان قمر 9 محرم کی رات کو آمنہ عروج کی لوکیشن پر گئے۔ اس رات جام سے جام ٹکرائے جا رہے تھے۔ پینے پلانے کا شوق پورا کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں خلیل میاں مزید بہک گئے۔ لڑکی سے ڈراما سازی کرنا چاہی پر اس نے روکا۔ مگر خلیل میاں کہاں باز آنے والے تھے بھلا؟ انہوں نے اپنی حرکتیں جاری رکھیں۔ دست درازی اور چھیڑ چھیڑ کرتے رہے۔ اتنے میں تنگ آ کر لڑکی نے کچھ لوگوں کو بلا لیا۔ بس پھر کیا تھا، ان سب نے خلیل میاں کی فاختہ کے پر ہی کاٹ ڈالے۔ ان پر جسمانی، نفسیاتی اور جنسی تشدد کیا۔ ان کی نازیبا وڈیوز بنائیں اور ان کے آئی فون کا ڈیٹا اپنے موبائل میں ٹرانسفر کر لیا۔ ویسے ڈیٹا ٹرانسفر والی بات خلیل جی نے ایف آئی آر میں بھی لکھوا رکھی ہے۔ اور جب خلیل جی گھر پہنچے تو مبینہ طور پر وہاں بھی ان کی خوب لتر پریڈ کی گئی۔ مگر اب کی بار یہ مبینہ تواضع ظاہر ہے گھر والوں نے ہی کی تھی۔

اب جناب گئے تھے پھنس۔ اس لیے ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتے تھے۔ مگر معاملہ تھا موبائل میں موجود ان وڈیوز کا جو غنڈوں کے ہتھے چڑھ گئی تھیں۔ ساتھ ہی ان وڈیوز کا بھی جو ان غنڈوں نے بنائی تھیں۔ سو ڈراما رائٹر صاحب نے آئی جی پنجاب سے درخواست کی کہ ملزمان پکڑے جائیں ورنہ بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔ لیکن ایف آئی آر درج کروانے پر اب بھی راضی نہ تھے موصوف۔ آئی جی پنجاب نے ڈی آئی جی آپریشنز عمران کشور کو کہا کہ یہ مسئلہ حل کرائیں۔ اور پھر سی آئی اے نے ملزمان کو دھر لیا اور وہ بھی ایف آئی آر درج کیے بنا۔ لیکن بغیر ایف آئی آر کاٹے آخر کب تک ملزمان کو زیرِ حراست رکھا جا سکتا تھا؟ سو 20 جولائی کو خلیل الرحمان قمر کو ایف آئی آر درج کرانے کا کہا گیا اور پھر 21 جولائی کو انہوں نے ایف آئی آر درج کروا ہی ڈالی۔

اب تھوڑی بات ایف آئی آر کی بھی کر لیتے ہیں۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ خلیل الرحمان قمر کے ڈائیلاگز تو مضبوط ہوتے ہیں پر ان کے ڈراموں میں کہانی مضبوط نہیں ہوتی۔ وہ کہانی بُننے میں ذرا کچے ہیں۔  اس کا ثبوت یہ ایف آئی آر بھی ہے۔ کوئی عام سا لکھاری بھی اس سے اچھی کہانی لکھ سکتا تھا۔ جناب نے اس ایف آئی آر میں بار بار لوکیشنز تبدیل کیں تا کہ کہانی میں ششکا ڈالا جا سکے۔ چار گاڑیوں میں سوار جدید اسلحے سے لیس 20 کے قریب لوگ بحریہ ٹاؤن، لاہور کے دیگر علاقوں اور پھر لاہور کے باہر بھی گھومتے رہے مگر مجال ہے جو کسی کیمرے، پولیس والے یا پھر عوام کی نظروں میں آئے ہوں۔ مطلب سب نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی شاید۔ اور صرف پونے 3 لاکھ لیے ان مسٹنڈوں نے اس مبینہ اغوا کے۔ او بھائی کس کو بے وقوف بنا رہے ہو؟ تم جتنی تگڑی اسامی ہو نا، تم سے تو کم از کم کروڑوں ہتھیاتے اغوا کار۔ اس لیے تو بقول  Netizensیہ کہانی ہے اور وہ بھی تھرڈ کلاس کہانی۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

شاید یہی وجہ ہے یا پھر کچھ اور کہ اب کے خلیل الرحمان قمر کو پہلی بار غلط کہا جا رہا ہے۔ جی ہاں پہلی دفعہ انہیں قصوروار قرار دے رہے ہیں لوگ۔ ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ انہیں برا سمجھ رہے ہیں اور بدکردار کا لیبل لگا رہے ہیں ان پر۔ حالانکہ خلیل الرحمان قمر نے اس واقعے سے پہلے تک جتنی بھی گھٹیا حرکتیں کیں، سب میں ہی اکثریت نے انہیں Defend کیا۔ مگر اب کی بار نہیں۔ ویسے یہ اچھا شگون ہے۔ مگر ظاہر ہے خلیل الرحمان قمر کو عوام کی جانب سے یہ تمغے ملنا پسند نہ آیا۔ اس لیے تنقید کرنے والوں کو برا بھلا کہنے لگے۔ بولے یک دم آمنہ عروج کے اتنے بہن بھائی نکل آئے اور میرے خلاف باتیں کرنے لگے۔ یہ لوگ مجھ پر بھونکنے کے بجائے اپنی بہن کو سنبھالیں۔ او پھڑی گئی جے۔۔۔ یعنی وہ پکڑی گئی ہے۔ جیل میں ہے۔ میری دعا ہے جب وہ باہر نکلے تو اللہ تعالیٰ اسے شرافت کی زندگی جینے کا موقع دے۔ وہ گھر بسائے۔ میں تو خود پر بھونکنے والوں کی بہن کے لیے دعا کر رہا ہوں۔ میرے اربوں انڈین فینز نے مجھے سپورٹ کیا۔ افسوس پاکستانیوں نے میری کوئی اچھائی یاد نہیں رکھی۔

ویسے خلیل جی کس اچھائی کی بات کر رہے ہیں آپ؟ اور یہ اربوں انڈین فینز کہاں سے آ گئے آپ کے؟ یار  Millionsہی کہہ دیتے، شاید کچھ عزت رہ جاتی۔ چلو مٹی پاؤ۔ اس کے بعد جناب نے توپوں کا رخ کیا Feminists کی جانب۔ بولے  Feministsکی یہ بھول ہے کہ ایسا کوئی واقعہ مجھے توڑ سکتا ہے۔ یہ لوگ اپنی بہن سے ملیں جا کے اور اس کے لیے وکیل کریں۔ اف توبہ اس شخص کی زبان۔۔۔

خیر، ایف آئی آر کی مبینہ کہانی کمزور ہے اس لیے جناب نے فرمائشی پوڈ کاسٹ میں اس کی ایک اور قسط بھی جاری کی ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ وہ اس سے بھی زیادہ فضول ہے۔ کہنے لگے میری بیماری کا مذاق اڑایا گیا۔ مجھے Autoimmune Disease ہے اس وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا دھوپ میں۔ رات کو نہیں بلکہ فجر کی نماز پڑھ کے گیا تھا لڑکی کی لوکیشن پر۔ یعنی خود مانا کہ دھوپ میں گئے تھے۔ اور جو مذہب کارڈ کھیلا ہے، جو اسلامی ٹچ دیا ہے، اس پہ بندہ کیا کہے؟

مگر ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جھوٹ بولنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اسے یاد رکھنا پڑتا ہے۔ یہی ہوا خلیل میاں کے ساتھ بھی۔ اسی فرمائشی پوڈ کاسٹ میں فرمانے لگے کہ روزانہ صبح کو ناشتہ لینے بازار جاتا ہوں۔ شاید خلیل الرحمان قمر کے ہاں صبح سویرے سورج نہیں نکلتا۔ یا پھر شاید موصوف کے کرتوت ہی اس قدر کالے ہیں کہ جن کے سامنے سورج کی روشنی بھی ماند پڑ جاتی ہو گی، سورج خود منہ چھپا لیتا ہوگا شرم سے۔