زندگی میں پہلی بار کسی میت کو سڑکوں پر راج کرتے دیکھا

زندگی میں پہلی بار کسی میت کو سڑکوں پر راج کرتے دیکھا
ویسے یہ کہنا مشکل ہے کہ مسلم باغ میں پیدا ہونے والے اور بلوچستان یونیورسٹی سے زیرِ تعلیم رہنے والے اور سیاست میں بطورِ طالبِ علم رہنما ابھرنے والے شہید عثمان کاکڑ ایک سیاسی شخصیت تھے یا ہیرو؟

ہاں! یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ بلوچستان میں جنم لینے والے،   بلوچستان کے حالات کا جائزہ لینے والے باشعور لوگ ممکنہ طور پر صرف سیاستدان نہیں ہوتے بلکہ ہیرو بھی ہوتے ہیں۔

آئے روز جلسے،  جلوس،  ریلیاں،  احتجاج بلوچستان کے ہر ضلع اور تحصیل میں ہوتے ہیں اور یہی تو بنیادی سیاست ہے،  یہی سیاست،  سیاستدان نہیں بلکہ رہنما جنم دیتا ہے۔

بلوچستان کو میں خوش قسمت کہوں یا بد قسمت سمجھوں،  کیونکہ بلوچستان کے مسائل خط و کتابت سے نہیں بلکہ جلسے،  جلوس سے حل ہوتے ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے مگر انہی جلسے،  جلوسوں میں شرکت کرنے والے پڑھے لکھے لوگ سیاست کی بلندیوں تک جا کے عوامی سیاست سیکھتے ہیں،  عوامی رہنما بن جاتے ہیں،  یہ ہماری خوش قسمتی نہیں تو کیا ہے؟

ہم نے دو قسم کے حکمران دیکھے ہیں، لیڈر اپنے رنگ میں ثانی ہی ہے۔ ایک طرف وہ حکمران جو جمہوریت، عوامی مینڈیٹ سے ملک کے ایوانوں میں بیٹھ کے عوامی نمائندگی کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو عوامی مینڈیٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر اور آئینِ پاکستان کو پامال کرتے ہوئے حکمران بنتے ہیں۔

ویسے آپ کہہ لیں، حکمرانوں کے دو طبقے اور سیاستدانوں کا جمہوری طبقہ۔

اس ملک میں نظامِ حکومت چلانے والے نہ جنرل ایوب سیاستدان تھے نہ جنرل ٹِکّا۔ جنرل ضیا اور مشرف بھی سیاستدانوں کے لِسٹ میں اپنا اندراج نہیں رکھتے، لیکن یہ سپہ سالار، محافظ، آئین پاکستان کے رکھوالے، جمہوری حکومتوں کو ختم کر کے آئین کو پامال کر کے اپنے اوپر 'غداری' کے القاب لگا کے، خوشی خوشی امیرِ شہر کے رہنما نہیں، حکمران ضرور بنے۔

لالہ عثمان کی سوچ، کردار، علوم، سیاسی نظریہ سب الگ تھے۔ عوامی رہنما تھے، پشتونخوا میپ سے بطور سینیٹر ایوانِ بالا میں اپنے سیاسی فرائض سر انجام دیتے تھے، آئین کے مطابق منصب حاصل کیا اور آئینِ پاکستان کی روشنی میں پاکستان کو دیکھنا چاہتے تھے۔ تھے بلوچستان کے سینیٹر اور عملی طور پر پاکستان کے سینیٹر تھے۔

لالہ کا جسدِ خاکی بلوچستان کے لسبیلہ سے ہوتے ہوئے مسلم باغ پہنچا۔ ہر جگہ، ہر قوم کے سامنے داد ہی داد وصول کر رہے تھے۔ لوگوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ میں نے تاریخ میں پہلی بار کسی میّت کو سڑکوں پہ راج کرتے دیکھا ہے۔

لالہ سینیٹر تھے لیکن ہم نے سینیٹر تاریخ میں دفن ہوتے دیکھے ہیں، امر نہیں۔ لالہ ایک آواز تھی جو تاریخ کے اوراق میں امر رہے گی۔

لاکھوں لوگوں کی میّت میں شرکت، سڑکوں پر سلیوٹ، دلوں میں راج کرنے والے لالہ اس لئے اس مقام پہ ہیں کیونکہ آپ نے صرف قانون کی بالادستی اور مظلوم کے حقوق کے لئے جہدوجہد کی اور جو بھی مظلوم، محکوم کے لئے آواز بنے گا، قانون کی بالادستی چاہے گا، وہ عثمان لالہ کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہی رہے گا۔

دنیا امن، حقوق، قانون چاہتی ہے۔ ظلم، جبر، ناانصافی اور لا قانونیت برداشت نہیں کرتی۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔