کئی ملکوں کے مالیاتی امور عالمی مافیاز اور منشیات فروشوں کے ہاتھ میں ہیں

کئی ملکوں کے مالیاتی امور عالمی مافیاز اور منشیات فروشوں کے ہاتھ میں ہیں
ہر برس 26 جون منشیات کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1987 میں منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی تجارت کے خطرے کو اجاگر کرنے اور اس کی روک تھام کے لیے عالمی برداری کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے اس دن کو منانے کا اعلان کیا تھا۔ ہر سال اس دن کے لئے کوئی تھیم (موضوع ) رکھا جاتا ہے اور 2023 کے لئے موضوع ہے:

People first: stop stigma and discrimination, strengthen prevention

سب سے پہلے انسان: طعنہ زنی، کلنک اور امتیازی سلوک بند کریں، حفاظتی تدبیر کو مؤثر بنائیں

پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے منی لانڈرنگ کی سکیمیں متعارف کرا کے بدعنوانی اور منشیات کے گھناؤنے کاروبار سے حاصل ہونے والے کالے دھن کو 'اچھے معاشی اقدامات' کے ذریعے سفید کرنے کی اجازت دی۔ اسی طرح ریاست منشیات کے بڑے بڑے تاجروں کی رقم کو سفید کر کے ان کی سرپرستی کرتی دکھائی دی جو منشیات فروشوں کے زیراستعمال سب سے کارگر سکیم ہے۔ اس کے تحت بیرونی ممالک سے باقاعدہ بینکوں کے ذریعے رقم لانے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی۔ ایسی رقم کو سفید تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں حکومتیں کالا دھن لانے والوں کو گرفتار کر کے سزائیں دیتی ہیں لیکن ہمارے حکمران ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد ہر سال کچھ ملین روپے ادا کر کے 'پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992' کے تحت حاصل چھوٹ کا فائدہ اٹھا کر ہر قسم کی پوچھ گچھ سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ یہ قانون سازی نواز شریف اور اسحاق ڈار کی فطانت کا شاہکار ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا سیکشن 111 (4) منی لانڈرنگ کرنے والوں سے لے کر کالا دھن سفید کرنے والوں سمیت سب کو سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے اُنہیں غیر ملکی سرمایہ مرکزی بینک کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح نا صرف وہ ٹیکسز ادا کرنے بلکہ رقم کی بابت ہر قسم کی تحقیقات سے بچ جاتے ہیں۔ اس سکیم کا مقصد پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ لانا تھا اور 2015-22 کے درمیان انتہائی کامیاب رہی۔ اس دوران ہر سال اوسطاً 18 سے 22 بلین امریکی ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان آیا۔

ماضی میں بھی ایسی بہت ساری سکیموں کے ذریعے کالے دھن کو سفید کیا گیا۔ جیسا کہ؛

Bearer National Fund Bonds, Foreign Exchange Bearer Bonds, Special Bearer Bonds, US Dollar Bonds and Certificates

ان سکیموں سے منشیات کے سمگلروں نے بھی دل کھول کا فائدہ اٹھایا اور ان رقوم کو سفید کر لیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر اب تک کالے دھن پر مبنی پاکستانی معیشت نے حیران کن حد تک ترقی کی ہے۔ کئی جائزوں کے مطابق متوازی معیشت کے حجم میں 23 فیصد سالانہ کے اعتبار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک جائزے کے مطابق: 'غیر روایتی معیشت کا حجم کل جی ڈی پی کا 30 فیصد ہے'۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں ہر سال 2000-2500 بلین روپے کی متوازی معیشت وجود میں آتی ہے جو ضروری نہیں کہ جرائم کے ذریعے پروان چڑھے لیکن یہ غیر ٹیکس شدہ دولت ضرور ہے۔ منظم جرائم جیسا کہ اغواء برائے تاوان، سمگلنگ اور منشیات فروشی سے وجود میں آنے والی معیشت کا حجم 3000 بلین روپے ہے لیکن اس کا سٹیٹ بینک کے جائزے میں ذکر نہیں ہے۔

پاکستان کا شمار دہشت گردی کے بدترین شکار ممالک میں سے ایک میں ہوتا ہے۔ اس بات کی ٹھوس شہادت موجود ہے کہ دہشت گرد گروہ منظم جرائم کے علاوہ جرائم پیشہ عناصر میں موجود اپنے ہمدردوں سے بھاری عطیات وصول کرتے ہیں۔ ان کے ایسے ہمدرد پاکستان سے باہر بھی موجود ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے بہت سے قوانین غیر قانونی دولت کو تحفظ دیتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے ساتھ ریاستی سطح پر جنگ بھی کر رہے ہیں۔ یہ تضاد انتہائی خطرناک ہے۔ Anti-Money Laundering Act of 2010 کو بہت سے دیگر قوانین بے اثر کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف بینک بھی Section 7 of Anti-Money Laundering Act, 2010 or section 67 of Control of Narcotics Substance Act of 1997 کے تحت مشکوک رقوم کی ترسیل کی رپورٹ نہیں کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں فعال دہشت گرد گروہ منشیات کے عالمی مافیاز کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ نجی شعبے میں چلنے والے کچھ بینک کالے دھن کو سفید کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایک معروف بینکر Antonio Geraldi نے امریکی سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ کچھ امریکی اور مغربی بینک بھی اس کام میں ملوث ہیں۔ سٹی گروپ کے شریک سی ای او جان ریڈ نے سینیٹ کے سامنے بیان حلفی دیتے ہوئے کہا:

'میں جان ریڈ، سٹی گروپ کا چیئرمین اور شریک سی ای او ہوں۔ میں آج اپنے بینک کے سربراہ، ٹوڈ تھامسن کے ہمراہ پیش ہو رہا ہوں۔ بدقسمتی سے شوکت عزیز کو جو ایک نجی بینک کے اعلیٰ عہدیدار ہیں، جن کی قیادت میں نجی بینکوں نے منی لانڈرنگ کے نت نئے طریقے سیکھے، کسی سماعت کا سامنا نہیں ہے۔ اس کے بجائے انہیں پاکستان بلا کر فنانس منسٹر بنا دیا گیا'۔

آج تمام امریکی بینکوں نے کئی ایک نمائندے مقرر کر رکھے ہیں جو دنیا بھر میں موجود رہ کر ہونے والی مالیاتی ترسیل پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بینک منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بڑے بڑے بینک 3 ٹریلین ڈالر یومیہ ترسیل زر کر لیتے ہیں۔ دنیا میں یہ ہیں زمینی حقائق اور پھر ہم سنتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی اور منشیات فروشی کے خلاف جنگ ہو رہی ہے۔ یہ سب دکھاوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بہت سی ریاستوں کے مالیاتی ڈھانچے عالمی مافیاز اور منشیات فروشوں کے ہاتھ میں ہیں۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔