سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ان کی سزا چھ ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے درخواست ضمانت منظور کر لی ہے۔
چھ ہفتوں کی مقررہ معیاد پوری ہو جانے پر نواز شریف کو دوبارہ حراست میں لے لیا جائے گا اور وہ اس دوران اپنی مرضی کے معالج سے اپنا علاج کروا سکیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے پانچ میڈیکل بورڈ تشکیل دیے گئے اور سب نے ہی انہیں ہسپتال داخل کروانے کی سفارش کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، 30 جنوری کو لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے میڈیکل بورڈ نے ایک بڑا طبی بورڈ تشکیل دینے کی تجویز دی تھی اور کہا تھا، نواز شریف کو ایک سے زائد بیماریوں کے علاج کی سہولت والے ہسپتال میں داخل کروایا جائے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا، نواز شریف کی بیماری کی سنگینی کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ ان کی صحت دن بدن بگڑ رہی ہے اور سابق وزیراعظم کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ضمانت ہو بھی جائے تو نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک نہیں جا سکتے، سپریم کورٹ
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا، نواز شریف گزشتہ 15 برسوں سے ان بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ان بیماریوں کی بنیاد پر ضمانت ہو بھی سکتی ہے یا نہیں؟
https://youtu.be/2I9QrkkRLFs
خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کی انجیوگرافی کا معاملہ سادہ نہیں بلکہ یہ ایک پیچیدہ طبی مسئلہ ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا، کیا پاکستان کے ہسپتال اور ڈاکٹرز نواز شریف کا علاج کرنے کے قابل نہیں ہیں؟ ہم پاکستان کے کسی بھی ہسپتال میں سابق وزیراعظم کے علاج کا حکم دے سکتے ہیں۔
خواجہ حارث نے اس پر کہا کہ جیل میں رہ کر نواز شریف ذہنی دباؤ میں ہوں گے جس کے باعث ان کا علاج مناسب طور پر نہیں ہو پائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز پانچ روز سے والد نواز شریف سے ملاقات کی منتظر
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس پر کہا کہ کیا یہ ذہنی دباؤ دو ہفتوں میں ختم ہو جائے گا؟ دو ہفتوں بعد اپیل کا فیصلہ آ جاتا ہے تو کیا اس سے کوئی فرق پڑ جائے گا؟
خواجہ حارث نے کہا، یہ ایک طویل معاملہ ہے، نوازشریف کی اپیل پر فیصلہ دو ہفتوں میں نہیں ہو گا اور جلد بازی میں کوئی بھی فیصلہ کرنا انصاف کے منافی ہو گا۔
سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی بھی طبی رپورٹ میں نواز شریف کی بیماری کے بارے میں کچھ نہیں لکھا، صرف طبی معائنے کی سفارش کی گئی ہے۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ نواز شریف کی 24 گھنٹے نگرانی کی جا رہی ہے۔ ان کو کوئی تشویشناک بیماری لاحق نہیں ہے اور نہ ہی ان کی جان کو کوئی خطرہ ہے۔
اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اگر جان کو خطرہ نہیں تو میڈیکل بورڈ انجیوگرافی کا کیوں کہہ رہے ہیں؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نواز شریف کو ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقل کرتے رہے ہیں، کسی رپورٹ میں ایسا نہیں کہا گیا کہ انہوں نے علاج کروانے سے انکار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول کی نواز شریف سے کیا باتیں ہوئیں؟
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے، کیا وجہ ہے کہ نیب کے پاس جاتے ہی لوگ ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں، نیب کو چاہئے کہ وہ کوئی اچھا سا ہسپتال بنا لے۔ انہوں نے سابق فوجی افسر اسد منیر کی مبینہ خودکشی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے رویے کے باعث اب لوگ خودکشیاں کرنے لگے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے طبی بنیادوں پر نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کا آغاز 19 مارچ کو کیا تھا۔
یہ بھی واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کی خرابی صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
سابق وزیراعظم کو گزشتہ برس 24 دسمبر 2018ء کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں سات برس قید، ایک ارب روپے کے علاوہ اڑھائی کروڑ ڈالرز کے جرمانے کی سزا بھی سنائی تھی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا تھا۔
عدالت نے نواز شریف کو 10 برس کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے بھی نااہل قرار دیا تھا۔
عدالتی احکامات پر سابق وزیراعظم کو قبل ازیں اڈیالہ جیل اور بعدازاں ان کی درخواست پر ہی لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کر دیا گیا تھا۔