تحریک عدم اعتماد واپس لی جائے گی، عمران خان خود الیکشن کال کریں گے، معاہدہ طے پا گیا

تحریک عدم اعتماد واپس لی جائے گی، عمران خان خود الیکشن کال کریں گے، معاہدہ طے پا گیا
سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ انشاء اللہ کل پرسوں سیاسی گھن گرج گولہ باری کے دوران بہتر خبر آئے گی۔ اپوزیشن اپنی فتح عمران خان اپنی کامیابی اعلانات کریں گے اللہ نے چاہا تو جلد ہی الیکشن ہوں گے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری ویڈیو بیان میں انہوں نے لکھا کہ میرے پاکستانی بھائیوں بہنوں مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی کے رحم وکرم کے ساتھ ملک ایک بھیانک ٹکراؤ سے بچ جائے گا۔

کامران خان نے کہا کہ گو کہ تلواریں میان سے نکل چکی ہیں۔ فریقین لاکھوں حامیوں کو سڑکوں پر لا چکے ہیں اور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن میں اب بھی مطمئن ہوں، مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کیساتھ ملک ایک بھیانک ٹکرائو سے بچ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سر توڑ کوشش ہو رہی ہے کہ اس سیاسی بحران کا مذاکراتی حل نکل آئے۔ سیاسی بحران کی تاریک سرنگ کے آخر میں روشنی کی کرن پھوٹ چکی ہے۔ اگلے 48 گھنٹے بہت ہی اہم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کی کاوش کے محور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بہتر پیشرفت ہے۔ مجھے امید ہے کہ کل اور پرسوں کی گولہ باری کے دوران ہی بڑی اچھی خبر آئے گی۔

https://twitter.com/AajKamranKhan/status/1507748463148101632?s=20&t=Icii-vSAgfVqyWaXoOSi-A

کامران خان کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنی فتح اور اپوزیشن اپنی کامیابی کے اعلانات کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم پاکستانیوں کی اس عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔ معاہدے کی بنیاد قبل از وقت اسی سال ہی انتخابات ہونگے۔

ان کا کہنا تھا کہ قبل از وقت الیکشن اپوزیشن کے بنیادی مطالبے کی تکمیل ہے۔ تحریک عدم اعتماد واپس لی جائے گی۔ عمران خان خود الیکشن کال کریں گے۔ اپوزیشن کو میدان میں مقابلے کی دعوت دیں گے۔ تاہم ابھی اس معاہدے کی نوک پلک درست کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سب کے علاوہ پاکستان کی دشمن قوتیں بھی بہت سرگرم ہو چکی ہیں۔ وہ پاکستان میں اس آفت کے ٹلنے سے سخت پریشان ہونگی۔ آخری وقت تک کوشش کی جائے گی کہ ٹکرائو ہو جائے۔ پاکستان استحکام کی شاہراہ پر واپس نہ آئے۔ ایسے ٹکرائو کی خواہش ہے کہ جمہوریت ہی فارغ ہو جائے۔ مگر شکر ہے کہ تمام فریقین بطور خاص فوجی لیڈرشپ ملک میں جمہوریت کا تسلسل اور ٹکرائو کے خطرات کو زائل کرنے میں مصروف ہیں۔