(احمد نورانی، عمارہ شاہ)
جیسے جیسے پاکستان کی معیشت روبہ زوال ہوتی گئی، وزیرِاعظم عمران خان کے خیراتی اداروں کے عطیات میں برق رفتار اضافہ دیکھا گیا۔
وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کے دوران ان کے خیراتی اداروں کی آمدنی میں، ایک ایسی معیشت کا حصہ ہونے کے باوجود، جو تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے کہ جس میں دن بدن افراط زر بڑھتا جا رہا ہے اور مجموعی ملکی پیداوار کا تناسب 2018 کے پانچ اعشاریہ آٹھ سے گر کر ایک اعشاریہ دو پر کھڑا ہے، بے پناہ اضافہ ہوتا رہا۔
تحقیقاتی صحافت کے پلیٹ فارم حقائق میں شائع اس رپورٹ کے مطابق ناصرف یہ بلکہ عمران خان کے دو خیراتی اداروں نے ان کے وزیراعظم بننے کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر امریکہ اور برطانیہ میں سالانہ گوشوارے جمع کرانا روک دیا ہے۔ باوجود اس امر کے کہ قانونی طور پر ان کا جمع کرنا ضروری ہے۔ نتیجتاً عمران خان فائونڈیشن کو امریکی ٹیکس اداروں کی طرف سے ٹیکس استثنٰی کی جو سہولت میسر تھی، واپس لے لی گئی ہے۔
اطلاعات تک رسائی کے قوانین کے تحت، تین مختلف ممالک میں موجود خیراتی اداروں سے براہ راست اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو پاکستان سے حاصل کئے گئے ڈیٹا اور دستاویزات کے بغور مشاہدہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خیراتی اداروں کی سالانہ آمدنی پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں 2013ء کی حکومت اور بعد میں 2018ء میں وفاقی حکومت بننے کے بعد دوگنا ہو گئی ہے۔
جیسے جیسے یہ خیراتی ادارے اپنی دولت میں اضافہ کرتے گئے، امریکہ، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ان کے نیٹ ورک میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
عمران خان کے دو خیراتی اداروں نمل کالج (نمل نالج سٹی) اور عمران خان فائونڈیشن نے برطانیہ اور امریکہ میں متعلقہ سرکاری اداروں میں سالانہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے بند کر دیئے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کی ریوینیو اتھارٹی آئی آر ایس نے پندرہ مئی 2021 کو عمران خان فائونڈیشن کو دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی ہے۔
برطانوی چیئرٹیز کمیشن نے فیکٹ فوکس کو اس بات کی تحریراً تصدیق دی ہے، جبکہ امریکی آئی آر ایس کی ویب سائٹ عمران خان فائونڈیشن کی تنسیخ کی تصدیق کرتی ہے۔ عمران خان فائونڈیشن عمران خان کے خیراتی اداروں میں ایک بڑا نام ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو فنڈز دینے والوں کی فہرست کو کھنگالتے ہوئے فیکٹ فوکس کی تحقیق سے سنجیدہ نوعیت کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی مختلف انتخابی مہمات پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات دینے کے لئے اپنے ڈونرز کی فہرست فراہم کرے۔ اس فہرست میں سے عطیہ دینے والے کچھ حضرات سے جب اخبار دی نیوز کے تحقیقاتی صحافی فخر درانی نے رابطہ کیا تو انھوں نے تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ یہ پیسہ انھوں نے عمران خان کے خیراتی اداروں کو دیا تھا نہ کہ اس کی سیاسی جماعت کو۔
دنیائے کرکٹ کا شہرہ ہونے، خیراتی اداروں کی فنڈنگ کے لئے کرشماتی نعروں کے استعمال کرنے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیمی پس منظر کی وجہ سے پاکستان کی اشرافیہ ہمیشہ عمران خان کی گرویدہ رہی ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنی کرکٹ کی شہرت اور شخصیت کے مذہبی پہلو کی تشہیر کرکے عوام کے ساتھ اپنا تعلق بنائے رکھا۔ اسی لئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کا قیام بہت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ منصوبہ عمران خان کا پہلا اہم خیراتی منصوبہ تھا۔
سماجی خدمت کے شعبہ میں عمران خان اسی ادارے کے ذریعے سامنا آیا اور یہ تاثر بنانے میں بھی کامیاب رہا کہ وہ ایک ایماندار اور دیانت دار عوامی رہنما ہے۔ اور یوں اس کے سیاسی عزائم کو سامنے لانے کا راستہ ہموار ہوا جن کا مرکزی نکتہ صرف یہ تھا کہ تمام بڑے سیاست دان چور ہیں۔
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ جو پاکستان کے دو شہروں پشاور اور لاہورمیں کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر چلاتا ہے، بیرونی ممالک سے 2011 تک ایک ارب سے تین ارب کے عطیات وصول کرتا رہا ہے۔ یہ وہی سال ہے جب ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے کھل عمران خان کی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ خیراتی اداروں کے عطیات میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ صرف شوکت خانم میموریل ٹرسٹ نے سال 2015 میں آٹھ اعشاریہ نو ارب، سال 2016 میں آٹھ اعشاریہ تین ارب اور سال 2017 میں آٹھ اعشاریہ سات ارب روپے اکھٹے کیے۔
اگست 2018 میں عمران خان صاحب وزیراعظم بن گئے اور ان کی جماعت نے مرکز کے علاوہ ملک کے چار میں سے تین صوبوں میں حکومتیں بنائیں تو ایک مرتبہ پھر اگلے تین سالوں کے عطیات میں دوگنا اضافہ ہو گیا۔ سال 2018 میں شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے عطیات دس اعشاریہ چھ ارب روپے تک بڑھ گئے۔ سال 2019 میں عطیات میں مزید تین اعشاریہ دو ارب روپے کا اضافہ ہوتا ہے اور 2020 میں کل عطیات پندرہ اعشاریہ ایک تین ارب روپے کی خطیر رقم کو پہنچ جاتے ہیں۔ یہ اعداد دنیا بھر سے صرف شوکت خانم میموریل ترسٹ کے لئے جمع ہونے والے عطیات کے ہیں۔
امریکہ سے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے لئے جمع ہونے والے عطیات 2018 میں چھ اعشاریہ چار ملین ڈالر، 2019 میں سات اعشاریہ نو ملین ڈالر اور 2020 میں نو اعشاریہ تین ملین ڈالرز تک بڑھ گئے۔ جب عمران خان اقتدار میں نہیں تھے تو امریکہ سے عطیات کی مد میں 2011 اور 2012 میں ایک اعشاریہ نو ملین ڈالرز موصول ہوئے جو کہ 2010 کے دو اعشاریہ پانچ ملین ڈالرز سے کم ہو گئے تھے۔ سال 2014 میں عطیات اچانک بڑھ کر چار اعشاریہ آٹھ ملین ڈالرز ہوئے اور پھر 2015 میں کم ہو کر تین اعشاریہ تین ملین ڈالرز رہ گئے۔ تاہم عمران خان کے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد عطیات کا اتار چڑھائو مستحکم ہو گیا اور لگاتار اضافہ کے ساتھ 2020 میں نو اعشاریہ تین ملین ڈالرز ہو گیا۔
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ (جو کہ امریکہ میں عمران خان کینسر اپیل کے نام سے رجسٹرڈ ہے) کا فارم نائن نائن زیرو انکم ٹیکس گوشوارے سال 2019، 2020 اور 2021 آئی آر ایس کی ویب سائٹ پر میسر نہیں تھا۔ فیکٹ فوکس نے گوشواروں پر دیئے گئے رابطہ نمبر کے ذریعے کیتھی نامی خاتون سے بات کی تو اس نے پہلے یہ بتایا کہ گوشوارے جمع کروائے گئے ہیں اور پھر ان تین سالوں کے فارم نائن نائن زیرو فراہم کر دیئے۔
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے لئے برطانیہ سے جمع ہونے والے عطیات اضافے کے ساتھ سال 2018 میں چھ اعشاریہ سات ملین پاونڈ، سال 2019 میں آٹھ اعشاریہ ایک ملین پاونڈ اور سال 2020 میں بارہ اعشاریہ تین ملین پائونڈ کو پہنچ گئے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں سال 2012 میں شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے عطیات دو اعشاریہ آٹھ ملین پائونڈ تھے جبکہ ان میں گذشتہ سال یعنی کہ 2011 کے مقابلے میں صرف نصف ملین کا اضافہ ہوا۔
الیکشن کمیشن کو دی جانے والی فہرست میں عطیات دینے والوں میں سے ایک نام ممتاز احمد سلیم کا ہے۔ موصوف کو حال ہی میں اکتوبر 2021 میں مشہور سیاحتی مقام نتھیا گلی میں کئی ملین ڈالرز کا ایک پرتعیش ہوٹل بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ اس حقیقت سے ابھی چند روز قبل "دی نیوز” نے پردہ اٹھایا۔ "دی نیوز” کی رپورٹ کے مطابق موصوف نے پی ٹی آئی کو 24989 ڈالرز بطور تحفہ دیئے۔ مزید براں وفاقی تحقیققاتی ادارے کی تحقیقات کے مطابق ممتاز احمد سلیم کا نام ان پاکستانیوں کی فہرست میں بھی ہے جن کی متحدہ عرب امارات میں بھی جائیدادیں ہے۔ جبکہ آئی سی آئی جے کی طرف سے کئے جانے والے حالیہ انکشافات "پنڈورا پیپرز” کے مطابق ممتاز احمد سلیم دریشک سیکورٹی سولوشنز آئی این سی نام کی آف شور کمپنی کے بھی مالک ہیں۔
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے علاوہ عمران خان کے دیگر خیراتی اداروں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال بھی سنجیدہ نوعیت کے معاملات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک خیراتی ادارہ نمل کالج سٹی سے نام سے ہے۔ یہ ادارہ برطانیہ میں "نمل کالج ” کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور امریکہ میں” فرینڈز آف نمل آئی این سی” کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔
عمران خان کے نمل کالج پروجیکٹ نے برطانیہ میں ٹیکس اتھارٹیز کو سال 2018 سے ٹیکس گوشوارے نہیں جمع کروائے گئے۔ 2018 وہی سال ہے جب خان صاحب وزیراعظم بنے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ شوکت خانم میموریل ٹرسٹ جو برطانیہ میں "عمران خان کینسر اپیل” کے نام سے کام کرتا ہے اور اسے مینیجرز اور اکائونٹنٹس کی وہی ٹیم چلاتی ہے، نے اپنے تمام ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں۔
برطانوی چیریٹیز کمیشن کی سرکاری ویب سائٹ پر یہ بات ناصرف صاف طور پر لکھی گئی ہے بلکہ سرخ نشان سے یاد دہانی بھی کرائی ہوئی ہے کہ نمل کالج نے اپنے حساب کتاب کی تفصیلات آٹھ سو سات دنوں کی تاخیر کے باوجود جمع نہیں کرائی گئیں۔
تفصیلات کے حصول کے لئے اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت فیکٹ فوکس کی جانب سے برطانوی چئیریٹیز کمیشن کو تحریری درخواست دی گئی۔ کمیشن نے گیارہ جنوری 2022 کو صرف ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کی تحریراً تصدیق کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نمل کالج کی کچھ ایسی تفصیلات بھی فراہم کیں جو ویب سائٹ پر موجود نہیں ہیں۔
دوسری طرف امریکہ میں "فرینڈز آف نمل” کو وفاقی ٹیکس سے حاصل شدہ استثنٰی خودکار سسٹم کے تحت پندرہ مئی 2019 کو ختم کر دیا گیا۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ مسلسل تین سال تک ادارے نے ٹیکس گوشوارے اور فارم نائن نائن زیرو جمع نہیں کرائے تھے۔ ٹیکس استثنٰی کی بحالی کے لیئے ان گوشواروں اور فارم نائن نائن زیرہ سیریزکا جمع کرانا ضروری ہے۔ تاہم امریکی ٹیکس اتھارٹی آئی آر ایس کی ویب سائٹ پہ نمل کالج کے 2018 اور اس کے بعد کے سالوں کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ گوشوارں پہ دیئے گئے رابطہ نمبرز پر کی گئی کالز اور پیغامات کا کوئی جواب موصول نہیں ہوتا۔
اس عرصے میں سال 2018 میں نمل کو ایک سو پچاسی ملین روپوں کے عطیات وصول ہوئے جو 2020 میں برق رفتاری سے ایک اعشاریہ چار ارب روپے تک پہنچ گئے۔ (تقریبا سات سو فیصد کا اضافہ ہوا)۔
اب آتے ہیں عمران خان فائونڈیشن کی طرف۔ اس ادارے کو حاصل شدہ ٹیکس استثنٰی پندرہ مئی 2021 کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ فارم نائن نائن زیرو سیریزمسلسل تین سال گزرنے کے باوجود جمع نہیں کرایا گیا۔
یہ صورتحال معاملات کو مشکوک بناتی ہے۔ عمران خان فائونڈیشن کے پرانے گوشواروں پر دیئے گئے رابطہ نمبرز پر کی گئی کالز اور میسجز کا کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا۔ عمران خان فائونڈیشن کے پاکستان میں موجود دفتر کے ایک نمائندہ نے فیکٹ فوکس کو بتایا کہ عمران خان فائونڈیشن نے بطور ادارہ کام کرنا بند کر دیا ہے۔ تاہم یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ عمران خان فائونڈیشن پاکستان میں عطیات وصول کر رہا ہے اور متعلقہ ٹیکس حکام کو اپنے گوشوارے بھی جمع کروا رہا ہے۔ پاکستان سے ان خیراتی اداروں کے حاصل کردہ ٹیکس گوشواروں سے پتا چلتا ہے کہ عمران خان خان فائونڈیشن نے سال 2018 میں ایک سو چھبیس ملین روپے، 2019 میں تین سو چودہ ملین روپے اور 2020 میں تیرہ ملین روپے کے عطیات اکٹھے کئے۔ عمران خان فائونڈیشن کی جانب سے پاکستان میں جمع کئے گئے گوشواروں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سال 2020 میں ادارے کے انتظام و انصرام پر ایک ارب روپے خرچ ہوئے۔ یہ دستاویزی ثبوت عمران خان فائونڈیشن کے پاکستان میں موجود نمائندے کے دیئے گئے بیان کہ عمران خان فاونڈیشن نے بطور ادارہ کام کرنا بند کر دیا ہے کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔
عمران خان کے دیگر اداروں کی طرح عمران خان فائونڈیشن نے اپنے نام میں خان کے نام کے ٹیگ کا خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے جس کو مزید جِلا عمران خان کی بے پناہ مقبولیت اور ان کے "قابلِ بھروسہ” ہونے کے اس تاثر نے بخشی جو ان کے چاہنے والوں میں پایا جاتا ہے، خاص کرکے ان کے ان مداحوں میں جو پاکستان کی اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ لیکن جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں ان کے نت نئے آنے والے ٹیکنوکریٹ مشیروں نے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کواپنی بدانتظامی سے تباہی کے دھانے پہ پہنچا دیا ہے۔
عمران خان فائونڈیشن کی ویب سائٹ غیر فعال ہے تاہم اس کے فیس بک پیج پر بائیس جنوری 2020 کو پوسٹ کی گئی معلومات کے مطابق عمران خان فائونڈیشن نے اخوت فائونڈیشن کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ اخوت فائونڈیشن لوگوں کو آسان قرضہ جات فراہم کرتی ہے اور اب تک ایک سو تیس ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔
اس بات سے بھی پاکستان میں عمران خان فائونڈیشن کے دفتر میں موجود نمائندے کی اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ ادارہ بند ہو چکا ہے۔ تاہم مقامی یا بین الاقوامی میڈیا میں کہیں بھی یہ خبر سامنے نہیں آئی کہ عمران خان فائونڈیشن کو برطانیہ اور امریکہ میں حاصل شدہ ٹیکس استثنٰی واپس لے لیا گیا ہے۔
ان ممالک میں یہ ادارہ "عمران خان ریلیف فنڈ” کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور پندرہ جنوری 2022 تک نو سو تیس دنوں کی تاخیر سے جمع کئے گئے چندے اور خیرات کی تفصیل دینے سے قاصر ہے۔ 2021 تک عمران خان فائونڈیشن اور نمل کالج، دونوں کو ٹیکس استثنٰی حاصل تھا۔