منگل کی شب سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹر تھریڈ پوسٹ کرتے ہوئے دعوٰی کیا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال دنیا کا دوسرا ادارہ ہے جسے جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل نے فل انٹر پرائز ایکریڈیشن دیتے ہوئے گولڈ سیل ایوارڈ کی ہے۔ عمران خان نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال میں کام کرنے والے ہزاروں کارکنان اور عطیات دینے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ عمران خان کے مطابق اگست اور ستمبر 2022 میں 3 ہفتوں تک جاری رہنے وال کڑی پڑتال کے بعد شوکت خانم ٹرسٹ کے تحت قائم ہونے والے تمام ہی اداروں کو "جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کی (تصدیقی) گولڈ سیل، جو کہ صحت کی سہولیات کی فراہمی میں عالمی سطح پر بہترین معیار کی علامت ہے، دی گئی ہے"۔
https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1577332232078909440?s=20&t=s5TQtm3BmR6DqKuUZYGmBw
عمران خان کی اس ٹویٹ کے برعکس شوکت خانم ہسپتال نے اپنی ویب سائٹ پر دی گئی پریس ریلیز میں یہ ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال دنیا کا دوسرا ادارہ ہے جسے جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل نے فل انٹر پرائز ایکریڈیشن دی ہے۔ البتہ شوکت خانم ہسپتال کی ویب سائٹ پر موجود پریس ریلیز میں یہ ضرور درج تھا کہ شوکت خانم ہسپتال پاکستان کا پہلا ادارہ ہے جسے انٹرپرائز کی سطح پر ایکریڈیشن دی گئی ہے۔
سابق وزیراعظم کی جانب سے دی گئی اس خوشخبری کی حقیقت جاننے کے لیے اگر آپ جے سی آئی کی ویب سائٹ پر جائیں تو ان کے مطابق ان کے پاس 22 ہزار سے زائد صحت کے ادارے رجسٹرڈ ہیں اور دعوے کے برعکس 1 ہزار سے زائد ادارے گولڈ سیل حاصل کر چکے ہیں۔ انفرادی سطح پر اداروں کی حاصل کی گئی ایکریڈیشن پہ یقیناً انٹرپرائز ایکریڈیشن کو خاص فضیلت حاصل ہو گی وگرنہ خان صاحب اتنے اعتماد سے ٹویٹ نہ کرتے۔
سال 2010 میں اسی ادارے کے مطابق ایک ہسپتال یا صحت کے ادارے کی ایکریڈیشن کا خرچ تقریباً 46 ہزار ڈالر کے لگ بھگ آتا تھا جبکہ 2017 میں وال سٹریٹ جنرل کی ایک خبر کے مطابق ایکریڈیشن کو برقرار رکھنے کی خاطر 37 ہزار ڈالر تک خرچ ہوتے تھے۔ اسی خبر کے مطابق سال 2015 تک انسپکشن کی مد میں 18 ہزار ڈالر کا خرچہ بھی آتا تھا جو ہر 3 برس بعد کرائی جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایکریڈیشن کروانے کے لیے شوکت خانم ہسپتال نے بھی یقیناً کروڑوں روپے ادا کیے ہیں۔
شوکت خانم ہسپتال کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق 2018 میں لاہور کے ہسپتال کو ایکریڈیشن دی گئی۔ شوکت خانم پشاور کو 2019 میں جبکہ اسی برس ستمبر میں شوکت خانم کلینک اینڈ ڈائیگناسٹک سینٹر کراچی کو ایکریڈیشن دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں شوکت خانم ہسپتال کے علاوہ آغا خان ہسپتال کراچی اور شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد بھی جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل سے ایکریڈیشن رکھتے ہیں۔
خیر، اب ذرا نان پرافٹ آرگنائزیشن کی مد میں رجسٹرڈ جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کے مالی معاملات پر نظر ڈالتے ہیں۔ جوائنٹ کمیشن آن ایکریڈیشن آف ہیلتھ کیئر آرگنائزیشنز کی سال 2019 کی ٹیکس ریٹرنز رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے 192 ملین ڈالر کا ریونیو اکٹھا کیا۔ جب کہ اس کے کل اثاثوں کی مالیت سال کے اختتام پر 222 ملین ڈالر تھی۔ امریکی جریدے وال سٹریٹ جنرل ہی کی خبر کے مطابق سال 2013 میں اس نان پرافٹ آرگنائزیشن نے اپنے سی ای او کو تقریباً 1 ملین تنخواہ کی مد میں ادا کیے۔
ادارے کی ساکھ کا یہ عالم ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے تحت ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اس ادارے سے ایکریڈیشن لینے والے ہسپتالوں کی جانب سے مریضوں کو دی گئی سہولیات میں دیگر ہسپتالوں کی نسبت کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ عمران خان کے اس دعوے کے ثبوت کے لیے جے سی آئی کی ویب سائٹ پر تاحال کوئی مواد موجود نہیں اور نہ ہی ایکریڈیشن کے اس عالمی ادارے نے ان 1 ہزار ہسپتالوں کے کارنامے اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کر رکھے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں گولڈ سیل سے نوازا گیا۔
بھاری بھرکم فیسیں وصول کر کے سرٹیفکیٹ دینے کا یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے مختلف سپانسر اکٹھے کرکے سالانہ بنیادوں پر سماجی، سیاسی اور فلمی دنیا کے ایوارڈز شو منعقد کیے جاتے ہیں۔ باقاعدگی سے منعقد ہونے والے یہ بے قاعدہ پروگرام سال بھر بڑی مچھلیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور سپانسر ملتے ہی معلوم اور غیر معلوم کارناموں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ایوارڈ سے نوازتے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر زعما کو چاہئیے کہ پی آر اور مارکیٹنگ ہی کرانی ہو تو کم از کم کسی ایسے ادارے کا انتخاب کریں جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ یوں عوام سے اکٹھی کی گئی رقم بھی ضائع ہونے سے بچ جائے گی۔