پاکستتانی سیاست میں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں جن کی باتوں سے لوگ لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ ماضی قریب کی ہی بات ہے کہ پیپلز پارٹی بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی‘۔ اسی طرح کی ایک شخصیت پیر صاحب پگاڑہ کی بھی رہی ہے۔ وہ اکثر GHQ سے اپنے تعلقات کا حوالہ دے کر پیش گوئیاں کیا کرتے تھے۔ لوگ ان کی باتوں سے بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ اسی قسم کی ایک اور شخصیت پیپلز پارٹی کے سابق وزیر عبدالقیوم جتوئی بھی گزرے ہیں جنہوں نے لائیو ٹاک شو میں کہا کہ کرپشن ہمارا حق ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد وہ اپنی وزیارت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
ہماری ریلوے کے وزیر شیخ رشید بھی بڑی دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کو ٹی وی پر آنے کا بہت شوق ہے اور ٹی وی چینلز کے بھی وہ پسندیدہ سیاستدان ہیں کیونکہ لوگ ان کی جگتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ موصوف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں ہر ٹاک شو میں چار سے آٹھ ہفتے میں حکومت کے رخصتی کی پیش گوئی کرتے رہے لیکن ان کی ایک پیش گوئی بھی پوری نہ ہو سکی۔ موصوف کے لئے اگر یہ محاورہ استعمال کیا جائے کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ شیخ صاحب نے سیاست کا آغاز تو نواز شریف کے ساتھ کیا لیکن بعد ازاں ان کی سیاست مشرف سے ہوتی ہوئی ق لیگ اور اب تحریک انصاف تک آ پہنچی ہے۔
وزیرِ موصوف کی ڈکشنری میں اصول کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس لئے جس پارٹی کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہو، شیخ صاحب وہاں پائے جاتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ شیخ صاحب اور عمران خان کا ایک ٹاک شو میں معرکے کا مناظرہ ہوا تھا۔ عمران خان نے موصوف کو اپنا چپڑاسی بھی رکھنے سے انکار کر دیا تھا اور شیخ صاحب نے بھی انہیں ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا لیکن دیکھ لیں آج دونوں کیسے شیر و شکر ہیں۔
کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن کیا سیاست میں اصول ہوتا ہے؟ ابھی دو روز قبل ہی موصوف ایک ٹی وی انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ میں تو نواز شریف کے پاس گیا تھا لیکن جب انہوں نے مجھے پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا تو میرے پاس PTI کے علاوہ اور کیا آپشن رہ گیا تھا؟
دیکھا آپ نے؟ شیخ صاحب کسی مدد کے بغیر اپنے حلقے کی سیٹ بھی نہیں جیت سکتے۔ اپنے ماضی کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کونسلر کے انتخابات کے لئے میرے کاغذات مسترد ہو گئے تو میں سائیکل پر بیٹھ کر DG ISPR کے پاس گیا کہ میری مدد کریں۔ کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ شیخ صاحب ’مہربانوں‘ کی تعریف یوں ہی نہیں کیا کرتے۔ شیخ صاحب بہت فخر سے کہتے ہیں کہ میں سات دفعہ وزیر رہا ہوں (گو کہ یہ دعویٰ بالکل غلط ہے) لیکن انہیں یہ بتاتے ہوئے نجانے کیوں جھجھک محسوس ہوتی ہے کہ پہلی بار تو وہ نواز شریف کے دور میں وزیر رہے تھے۔
شیخ صاحب نے 2002 میں پنڈی کے دو حلقوں سے نواز شریف کا نام لے کر اور یہ کہہ کر الیکشن لڑا کہ جیت کر دونوں سیٹیں نواز شریف کے قدموں میں ڈال دوں گا لیکن جیتنے کے بعد انہوں نے وہ دونوں سیٹیں کس کے قدموں پر نچھاور کیں اس سے سارا پاکستان واقف ہے۔ شیخ صاحب کا اصل مقابلہ 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے دو امیدواروں سے ہوا تھا۔ پنڈی کی ایک سیٹ پر ان کا مقابلہ مخدوم جاوید ہاشمی سے اور دوسری پر حنیف عباسی سے ہوا اور شیخ صاحب دونوں سیٹوں سے ضمانت ضبط کروا بیٹھے اور ان انتخابات میں انہیں جتنے بھی ووٹ ملے یہی دراصل شیخ صاحب کی کل عوامی حمایت تھی۔
آج کل شیخ صاحب کافی مایوس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ سیاست کے پرانے کھلاڑی اور ’مہربانوں‘ کی قربت کے طفیل اتنا تو انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اقتدار کی ریت اب حکومت کے ہاتھ سے پھسلتی چلی جا رہی ہے اور دو سال سے حکومت جس طرح چلائی جا رہی ہے، اب زیادہ دیر نہیں چل سکتی اور اس کے بعد شیخ صاحب کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے کیونکہ اب مزید کوئی گھاٹ نہیں بچا جہاں سے شیخ صاحب پانی پی سکیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا