ابراہیم جویو، برصغیر کا واحد دانشور ہے جس نے سو سال سے زیادہ عمر پائی- سندھی کا بہت بڑا کہانی کار، دانشور اور گورو متحرک جن کے کریڈٹ میں بیس والیم انگریزی سے ترجمہ اور پچاس کتابیں سندھی افسانوں کی ہیں۔ ان سے ایک نشست کا احوال
سوال: آپ کے افسانوں کا کیا موضوع ہے؟
جواب: جدید افسانہ صرف موجودہ سماجی، اقتصادی، ذاتی مسائل اور معاشرہ میں جو ناانصافیاں سامنے آتی ہیں ان کے بارے میں ہی لکھتا ہے- کہانی اور ڈرامہ انہیں معاملات سے متعلقہ ہیں، کسان کی زندگی، جاگیرداری نظام کے تحت ،معاشرہ میں علم کی گھٹن کے بارے میں بھی لکھتا ہوں، جو ہم پیروں کے زیر سایہ بھگتے ہیں گو پنجاب میں جاگیر دارحاوی ہے مگر سندھ میں روحانی رہنما اور پیر ہیں جو بڑی زمینوں کے مالک اور جاگیردار ہیں-
پیری سندھ میں بہت بڑا مسئلہ ہے جو کہ میرے خیال میں پنجاب اور سرحد ٘میں نہیں ہے سو ہمارے ڈرامے اور افسانے اس سے متعلقہ ہیں- سندھ کے پاس بہت عمدہ فوک، عوامی ادب ہے- میں نے سات جلدیں دوبارہ لکھی اور شائع کروائی ہیں، ان کو اخلاقی رنگ دے کر تاکہ یہ آج کے دور سےلگاو کھا سکیں۔
سوال: آپ نے درست نشاندہی کی ہے کہ سندھ اور پورے پاکستان کا مسلہ جاگیرداری ہے-آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے دانشورمختلف خطوں اور گروہوں کے غریبوں کو اکٹھا نہیں کر سکے تاکہ وہ جاگیرداری کے خلاف جدوجہد کرسکیں - آپ کے سندھ میں تو نسلی مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا ہے؟
جواب: روشن خیال لوگوں کو اس کا شعور ہے میں نے اس مسئلہ پر ایک مضمون لکھا تھا 'سماجی انصاف کے لئے جدوجہد اور پاکستان میں آزاد پریس کا قیام' جو میں نے کراچی میں ترقی پسند کانفرنس میں پڑھا تھا-
سوال: آپ حال ہی ہونے والے ہنگاموں کی کیا وجوہات سمجھتے ہیں؟
جواب: افسوس ہے کہ پاکستان بننے ہی سے سندھ کے ساتھ نا انصافی کی گَی اور اسے کمزور حیثیت میں دھکیل دیا گیا- ہم اس کا اظہار کتابوں، رسائل ، میڈیا اور ہر پلیٹ فارم سے کرتے رہے ہیں لیکن یہ سب سندھی زبان میں ہے جو کہ ہماری مادری زبان ہے جو کہ ذریعہ تعلیم رہی ہے- ہم اپنی خواہشات اور امنگیں سندھی میں بیان کرتے رہے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ کسی نے سنجیدگی سے اس کا نوٹس لیا ہے-پھر جو بھی ہم اپنے مسائل یا شکایات کا اظہار کرتے رہے ہیں اسے مذہب، خدا، پاکستان اور زبان کے نام پر، ہمارے نقطہ نظر کو آسانی سے نظر انداز کر دیا گیا-
جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہر چیز کے بارے میں ہم میِں بے چینی، مایوسی ، گلہ اور تشنگی ہے-
سوال: سندھیوں کی بنیادی شکایات کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب: بنیادی طور پر صاف ظاہر ہے کہ زبان اور ثقافت کے بارے میں ہیں-زبان لوگوں کی شناخت کی نشانی یا سند ہے اور اس کے ذریعے لوگ اپنا اظہار کرتے ہیں- آپ ایک معاشرہ کی قوت، استعداد، امکانی قوت کو اس کی زبان سے محروم کر دیں تو آپ اسے تیسرے درجہ کے شہری بنا دیتے ہیں-آپ نے اس بات کو محسوس کیا ہوگا کہ ہمارے لوگ انگریزی اور اردو میں اپنے اظہار میں کتنا مشکل محسوس کرتے ہیں- لیکن اگر آپ ان کو سندھی میں اظہار کا موقع دیں تو انہیں کوئی مشکل ںہیں ہو گی- وہ ملازمت میں بھی بولیں گے- ہمارے معاشی وسائل پر کھچاؤ ہے، پابندیاں ہیں اور ہم پاکستان کے ڈھانچہ کے اندر مشکلات کا شکار ہیں-
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس قتل و غارت ہنگامے کے بعد سندھی اور مہاجر اکھٹے رہ سکتے ہیں یہ خلیج پاٹی جا سکتی ہے؟
جواب: میرے خیال میں نہ صرف وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں بلکہ انہیں اکھٹے رہنا چاہے-اگر مناسب اقدامات اٹھائیے جائیں اور برے کو برا کہا جائے، اچھے اور برے کی نشاندہی کی جائے-ساری جماعتوں کو فیصلہ کرنا چاہئے- سندھ میں صرف سندھ، مہاجریا اردو بولنے والے ہی نہیں رہتے –یہ سارے پاکستان کا مسلہ ہے، پاکستان کا مستقبل اس پر ہے، سو ایک صلح کا پلان ، منصوبہ بنانا چاہئے جس کو سارے پاکستان کے لوگوں کی حمائت حاصل ہو- ہم ان کی ثقافت کا احترام کرتے ہیں اور ہم ان سے بھی یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے نقطہ نظر اور ہماری امنگوں کا احترام کریں-جیو او جینے دو کی پالیسی ہونی چاہئے-
سندھ واحد صوبہ نہیں جو کثیر السان ہے، پنجاب کا بھی یہی حال ہے، سرحد اور بلوچستان میں بھی یہی صورت حال ہے-دنیا میں کوئی بھی ملک یک زبان یا یک ثقافت نہیں- یہ اس جدید دور کا تقاضہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ احترام سے رہا جائے-
سوال: آپ کے خیال میں موجودہ حالات میں لکھاریوں اور دانشوروں کے کیا فرائض ہیں؟
جواب: بہت عظیم الشان، بڑی گرم جوشی، خیرخواہی، محبت، اخوت اور برداشت کا ہیغام چاہئے- نسلی قطبین، تعصب کے دور میں ،جس میں کہ ہم رہ رہے ہیں، کا سامنا ہم کر رہے ہیں-پھر جہاں نا انصافی ہو گی خواہ یہ ریاست کی طرف سے ہو یا قبیلہ کی طرف سے، لکھاری اور دانشور کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پسماندگی، قدامت پسندی کی بجائے روشن خیالی کا پیغام پھیلائے- ملا اور پیر کے ذریعہ ہم پر جو پسماند گی لاگو کی جارہی ہے اس کی موجود گی میں ہمارے تمام انسانی حقوق، سول، ثقافتی ، سیاسی، حقوق خطرہ میں ہیں-جب مذہب اپنی اصل روح کھو دیتا ہے اور صرف عبادات رہ جاتا ہے تو یہ اپنی ساری سماجی اہمیت، اچھائی کی قوت کھو دیتا ہے- موجودہ حالات میں یہ لکھاری اور دانشوروں کا فرض ہے کہ لوگوں کو شعور دیں اور روشن خیال بنائیں-
سوال: آپ نہیں سمجھتے کہ اس سلسلہ میں ہمارے دانشور ، خاص کر سندھی دانشور ناکام ہو چکے ییں ؟
جواب: ناکامی کا الزام درست نہیں ہے- کامیابی میں بہت دیر ہے، اس میں بہت وقت درکار ہے، بہت صبر کی ضرورت ہے- اس کے ساتھ، مخالف قوتوں کا بھِی جائزہ لینا چاہئے-مسلم معاشرہ میں ہم مذہب کے جبر میں رہ رہے ہیں –ہر محلہ میں ہر دو تین میل کے فاصلہ پر مسجد ہے جہاں ایک تربیت یافتہ شخص ہے جس کا کام لوگوں کو ذہنی غلام بنانا ہے- یہ لوگ ہر جدید چیز کے راستہ میں روڑے اٹکاتے ہیں-ان کا خیال ہے کہ جب تک انہیں مسجد میں اجازت ہے،لوگ جانوروں کی طرح کام کرتے رہیں گے، دنیا میں کوِئی تبدیلی نہیں آ سکتی-'خدا آسمانوں ، جنت میں ہے اور سب ٹھیک ہے'-سو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا فرض ہے کہ آپ ترقی کے طرف جو بھی قدم اٹھائین وہ اس کو روکیں-
سوال: آپ کہتے ہیں کہ سندھی محروم ہیں مگر لوگون کا خیال ہے، کہنا ہے کہ ایک سندھی مارشل لا میں وزیر اعظم تھا، محمد خان جونیجو، پھر بے نظیر، ذولفقار علی بھٹو؟
جواب: شخص اہم نہیں ہوتا- سسٹم اہم ہوتا ہے، نظام اہم ہوتا ہے- جب نظام مضبوظ ہو جاتا ہے تو پھر نظام کی بالاد ستی ہو جاتی ہے-
سوال: آپ کا پنجاب کے لکھاریوں اور دانشورون کے لئے کیا پیغام ہے؟
جواب: ہمیں پاکستان کے سارے دانشوروں پر اعتماد ہے اور پنجابیوں پر بھی کیوں کہ پنجاب اقتصادی لحاظ سے اور علمی لحاظ سے آگے ہے-ان کی جو حیثیت ہے عوام میں پہلے پنجاب کے دانشوروں اور لکھاریوں کو اپنے آپ کو اردو کے ذریعہ تعلیم سے آزاد کروانا چاہئے جس میں کہ وہ جکڑے ہوئے ہیں- ان کواپنی ثقافت کو جمہوری بنانا چاہئے-
پنجاب کو دوسری زبان کے طور پرسندھی کو متعارف کروانا چاہئے-سندھ میں ہمیں پنجابی، بلوچی، پشتو اور اردو بھی د وسری ، تیسری زبان کے طور پر متعارف کروانی چاہئے- ہم اردو کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہماری زبان ایک دوسرے کو قریب لے آئے گی-اور میرا یقین ہے کہ اردو ہماری زبان نہیں ہے- جناح کی تجویز اردو صوبوں کے درمیان رابظے کی زبان بنانا تھا-اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اردو ہماری زبان ہے-
سوال: آپ مختصر طور پر یہ بتائیں گے کہ قومی اور سرکاری زبان میں کیا فرق ہے؟
جواب: آپ دیکھیں قومی زبان کا مطلب ہے کہ یہ جلد یا بد یر دوسری زبانّوں کا نعم البدل ہو جائے گی جیسا کہ ایوب خان کے زمانے میں ہمیں اس سے خطرہ تھا- ایجوکیشن رپورٹ جس کا ہم انتظار کر رہے تھے اس میں انہوں نے پہلے ہی لکھ دیا تھا- ساری زبانین غائب ہو جایئں گیں اور صرف اردو لوگون کی زبان ہو گی- سو یہ ہمارے تصور میں نہیں تھا- مثال کے طور پر انگریزی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی کسی کو اس سے خطرہ نہیں تھا کہ یہ ہماری ثقافت کو ختم کردے گی-بلکہ اس کے بر عکس ہم خوش تھے، ہم انگریزی سیکھتے تھے کہ اس سے ہمیں جدید علم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے- قومی زبان کا اپنا ایک خطرہ ہوتا ہے کثیر السانی معاشرہ میں لوگوں کی ثقافت کو، مگر سرکاری زبان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے.