2016ء کے بعد کا سال ناصرف مسلم لیگ ن بلکہ پورے پاکستان کے لئے ہنگامہ خیز رہا کیونکہ عمران خان اس وقت تک شریف فیملی کے خلاف ایک قابل قبول بیانیہ بنانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ پے در پے بحرانوں کے دو سال کے بعد بالاخر عمران خان کسی نہ کسی طریقہ سے ایک مخلوط حکومت بنا کر پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
الیکشن 2018ء سے پہلے عمران خان نے خاندانی سیاست ختم کرنے، کرپشن ختم کرنے اور معیشت کو فروغ دینے کا عزم کیا۔ انہوں نے پاکستان کے تمام مسائل کو ایک ہی مسئلہ کرپشن تک محدود کر دیا اور خود کو حل کے طور پر پیش کیا۔ اسے نیا پاکستان کا نام دیتے ہوئے، اس نے ایک مثالی خیالی دنیا جسے انگلش میں یوٹوپیا کہتے ہیں کے خواب دکھائے اور مذہب اور مغربی دونوں نظریات کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے نوعمر اور ناپختہ ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ بدقسمتی سے، نابالغ اور ناپختہ ذہن جو ہمیشہ خیالی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں، اب بھی عمران خان کے جھوٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ عمران خان کے وعدوں اور ان پر عمل درآمد کا تضاد زندگی کے تقریباً ہر پہلو میں ان کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔
عمران خان نے بدعنوانی کے خاتمے کے ساتھ تبدیلی کا وعدہ کیا لیکن ان کے دور میں جو کچھ ہوا وہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ ان کے دور میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن انڈیکس پر پاکستان کی پوزیشن مسلسل گرتی رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈرز کے خلاف کرپشن کے تمام مقدمات میں خاص طور پر نیب کی طرف سے بہت تیز رفتار کارروائی دیکھنے میں آئی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی اراکین کے خلاف مقدمات یا تو بند کر دیئے گئے یا غیر معینہ مدت کے لیے موخر کر دیئے گئے۔ مالم جبہ اراضی کیس، بی آر ٹی کرپشن کیس سرفہرست مقدمات میں شامل ہیں۔ بدعنوانی پر خان کا دوہرا معیار ناصرف ان کی حکومت کے دوارن نظر آیا بلکہ حکومت کے ختم ہو جانے کے بعد عمران خان، فرح خان کے خلاف کرپشن کے الزامات کا بلا جواز دفاع کرتے نظر آئے حالانکہ اپوزیشن اراکین کو وہ محض الزامات کی بنیاد پر ناصرف سزا دلوانا چاہتے ہیں بلکہ تاحیات سیاست سے دور دیکھنا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے دور اقتدار میں معاشی انقلاب اور ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ کیا تھا لیکن تقریباً 4 سال کے اقتدار میں وہ پاکستان کے عوام کے لئے صرف بڑی مایوسی کا سبب بنے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے میں تاخیر نے پاکستان کے پاس موجود آپشنز کو انتہائی محدود کر دیا جس کا نتیجہ میں آئی ایم ایف کے قرض کے ساتھ منسلک شرائط نے پاکستان کے لیے کافی مشکلات پیدا کر دیں۔ ان کے دور حکومت میں معاشی گراوٹ، ریکارڈ مہنگائی (دنیا میں چوتھی بلند ترین)، انتہا کا غیر ملکی قرضوں میں اور پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے تنزلی دیکھی گئی۔ جس کے نتیجے میں قیمتوں میں ہوشربا اضافے، بے روزگاری اور بے پناہ یوٹیلیٹی بلز نے عام لوگوں کی زندگی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل تر بنا دیا۔ اب عمران خان اور ان کے رفقاء اتحادی حکومت پر معاشی تباہی کے لیے تنقید کر رہے ہیں جس نے ابھی تک کوئی بڑا اقتصادی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ عمران خان کی یہ تنقید ان کے دوہرے معیار کی عکاس ہے جب کہ وہ اپنے دور حکومت میں عالمی سطح پر مہنگائی کو ملک میں بے انتہا مہنگائی کا سبب بتاتے رہے۔
مخلوط حکومت میں عاجزی، اتفاق رائے پیدا کرنا اور اتحادیوں کی شکایات کا ازالہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن عمران خان نے ناصرف اتحادی جماعتوں کے ساتھ بلکہ اپنی پارٹی کے اندر بھی متکبرانہ رویہ اپنایا۔ علیم خان اور جہانگیر خان ترین اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ عمران خان وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوتے ہی اپنے قریبی ساتھیوں کے لئے کتنے خود غرض ہو گئے۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے ہر طبقہ اور اپنی پارٹی کے اراکین کے تحفظات کو بھی نظر انداز کیا۔ گذشتہ تین سالوں میں پنجاب میں اہم عہدوں پر متواتر تبدیلیاں بذات خود پے در پے غلط لوگوں کے انتخاب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عمران خان نے اپنے خراب کاردگی پر وزرا کو برطرف کرنے کے وعدے کے برعکس محض اپنی کابینہ کی وزارتوں کو تبدیل کرنے پر اکتفا کیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک کاردکردگی کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔
عمران خان نے اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے حکومتی اداروں خصوصاً نیب کا غلط استعمال کیا۔ وزرا محض الزامات کی بنیاد پر پریس کانفرنس کرکے اپوزیشن شخصیات کے خلاف نیب مقدمات کی بنیاد پر ان کی ساکھ کو تباہ کرتے رہے جنہیں بعد میں عدالت نے نیب پر سخت ریمارکس دے کر ختم کردیا۔ بشیر میمن نے بھی حکومت پر الزامات لگائے کہ ان پر انتہائی دبائو رہا کہ وہ عمران خان کے سیاسی مخالفین پر مقدمات درج کریں۔ حکومتی اداروں کا اس طرح سے استعمال کرنا بھی ایک دوغلا پن ہے کیونکہ عمران خان نے ہمیشہ آزاد اور خود مختار اداروں کی بات کی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کے کئی دہائیوں پر محیط خارجہ تعلقات کو ایک معمولی سیاسی فائدے کے لئے نقصان پہنچایا۔ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کے بعد فرانس اور یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اب تک کی سب سے کم ترین سطح پر ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بھی اس وقت بری طرح متاثر ہوئے جب حکومت نے ملائیشیا میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کا ارادہ ظاہر کیا، جو کہ معاشی عدم استحکام کے شکار پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔
ریاستی اداروں نے ملک کی خاطر پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بے مثال تعاون کیا اور ملک کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے نکالنے میں بھرپور مدد کی۔ گورننس اور معاشی محاذ پر حکومت کی ناکامیوں کا ذمہ دار ریاستی اداروں کو بھی ٹھہرایا گیا۔ وسیع تر قومی مفادات، سیاسی وعوامی سطح پر بڑھتی بے چینی کے باعث ریاستی اداروں نے حکومت سے ایک فاصلہ رکھنے میں ہی بہتری جانی۔ اس صورت حال میں اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی اندرونی رنجش اور اتحادی جماعتوں کی شکایات کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہیں اور کامیاب تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ ریاستی اداروں کی تعریف میں رطب اللساں عمران خان نے ریاستی اداروں کے غیر سیاسی کردار پر ناصرف سوال اٹھانا شروع کر دیے اور بلکہ غیر جانبداروں کو صرف جانور تک کہہ دیا۔ ماضی میں عمران خان ہمیشہ ریاستی اداروں کے غیر جانبدار ہونے پر زور دیتے رہے ہیں اور حالیہ بیانیہ ان کے قول اور فعل کے تضاد کا عکاس ہے۔
یہ وہ اہم نکات ہیں جن میں عمران خان کا دوہرا معیار اور منافقت اظہر من شمس عیاں ہے۔ امریکی حمایت یافتہ سازش کے بے بنیاد بیانیہ نے ناپختہ ذہنوں میں ریاستی اداروں کی قیادت کی مشکوک کردار ادا کرنے کے متعلق شبہات پیدا کرکے عمران خان کسی حد تک اپنی ناقص کارکردگی اور معاشی ناکامی سے توجہ ہٹانے میں کامیاب ہیں لیکن سیاسی فائدے کے لئے معاشرے میں اس طرح کی تقسیم پیدا کرنا اور نوجوانوں کو ریاستی اداروں کے اکسانا سیاست نہیں بلکہ ملک دشمنی ہے۔ عمران خان اپنی شہرت اور کا استعمال کرتے ہوئے ناپختہ ذہنوں کو پاکستان کے ان تمام لوگوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں جو ان سے اختلاف کرتے ہیں۔ عمران خان کے مریم نواز کے بارے میں نازیبا ریمارکس ان کے اعلیٰ کردار اور قیادت کی اہلیت کا ایک اور ثبوت ہے۔
صحیح حدیث کے مطابق: "منافق کی چار خصلتیں ہیں: وہ امانت میں خیانت کرتا ہے۔ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ وہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتا۔ اور جب اختلاف ہو تو وہ لڑنے سے دریغ نہیں کرے گا۔
ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے، عمران خان نے زیادہ وقت اخلاقیات کے لیکچرز اور مذہبی خطبات دینے میں صرف کیا اور ریاست مدینہ کے نام پر عوام کو بے وقوف بنایا۔ یقیناً خان صاحب جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی امریکی حمایت یافتہ سازش نہیں ہوئی لیکن وہ اپنے اقتدار کے لالچ اور سیاسی فائدے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔ عمران خان کے لیے یہ ایک خود احتسابی کا صحیح وقت ہے کہ کیا اس طرح سے قوم کی خدمت ہوگی یا ناقابل تلافی نقصان؟ اور ان کے پیروکاروں کے لیے بھی غور کرنے کا ایک نکتہ یہ ہے کہ کیا ایسے شخص کی بطور لیڈر اندھی تقلید صحیح ہے؟