Get Alerts

آرمی چیف کی مُدتِ ملازمتِ میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل ہونے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

آرمی چیف کی مُدتِ ملازمتِ میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل ہونے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
حنیف راہی پیٹیشنر ہو تو سب کو معلوم ہوتا ہے کہ میچ کم از کم ایک پارٹی کی طرف سے فِکسڈ ہی ہو گا کیونکہ وہ ہمیشہ سے پاکستان کے اصل کرتا دھرتا حُکمرانوں کی طرف سے درخواستیں دائر کرتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کو چیلنج کرنے سے لے کر متعدد امور پر انہوں نے مشکوک درخواستیں داخل کیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست بھی حنیف راہی ایڈوکیٹ نے داخل کی تھی۔

دِلچپسی کی بات ہے عوامی مُفاد کے آرٹیکل (3) 184 کے تحت داخل یہ دوسری درخواست تھی جِس کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ٹیک اپ کیا تھا۔ اِس سے قبل اپنے گیارہ ماہ کی مُدت میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دو نمبر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے وڈیو سکینڈل کے خلاف عوامی مُفاد کے آرٹیکل 184 کے تحت دائر مُتفرق درخواستوں کی سماعت کی تھی۔



یہ بھی پڑھیے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کا حصہ بننے والے وزیراعظم کا حال ریاض حنیف راہی والا ہوگا







بہرحال صُبح صُبح تیار ہو کر نو بجے سُپریم کورٹ پہنچا تو پارکنگ میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان بھی کار پارک کر رہے تھے۔ اُن کے ساتھ گپ لگاتا سپریم کورٹ کے احاطے میں داخل ہوا تو ایجنسیوں کے لوگ سِول کپڑوں میں کھڑے تھے۔ مطیع اللہ جان نے طنزیہ سوال کیا کہ حنیف راہی کا انتظار کر رہے ہیں؟ سِول کپڑوں میں ایجنسیوں کے اہلکاروں نے شرماتے اور نظریں چُراتے ہوئے ہلکی سی خفیف مُسکراہٹ کے ساتھ صرف ہاں پر اکتفا کیا۔ چیف جسٹس کے لیے مخصوص کورٹ روم نمبرون میں پہنچا تو صرف سٹاف کے چار لوگ اور ایک خاتون وکیل موجود تھیں۔ خاموشی سے جا کر صحافیوں کے لیے مخصوص نشست پر بیٹھ گیا۔ آہستہ آہستہ کمرہ عدالت میں لوگ آنے لگے۔

9 بجکر 35 منٹ پر آواز لگی کورٹ آ گئی اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ساتھی ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ پہلے مُقدمے کی سماعت کے دوران دی نیشن کے سینیئر صحافی ٹیرنس بھائی اور عمران وسیم بھی قریب آ کر بیٹھ گئے۔ عمران وسیم نے بتایا کہ حنیف راہی نے اپنی پیٹیشن واپس لینے کی درخواست جمع کروا دی ہے۔

24843/

سوچنے لگا شاید پیٹیشن یہ سوچ کر کروائی گئی تھی کہ اِس سے پہلے کوئی ناقابلِ اعتبار شخص آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کو چیلنج کرے خود ہی مُدتِ ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن چیلنج کر دیا جائے تاکہ توسیع شُدہ مُدت شروع ہونے سے تین دِن قبل ہاتھی کی دُم بھی خاموشی سے نکال لی جائے لیکن ماتھا تب ٹھنکا ہوگا جب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ پیٹیشن غیر متوقع طور پر سماعت کے لیے مُقرر کر دی۔

بس کیا تھا کل رات سے ایڈوکیٹ حنیف راہی نے صحافیوں کی فون کال سُننی چھوڑ دی تھی اور آج احاطہ عدالت میں موجودگی کے باوجود وہ کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بعد ازاں اعلان کیا کہ اُن کے پاس ایک ہاتھ سے لکھی ہوئی درخواست آئی ہے کہ حنیف راہی ایڈوکیٹ اپنی پیٹیشن واپس لینا چاہتے ہیں لیکن اُنہیں ( چیف جسٹس) کو نہیں معلوم یہ درخواست مرضی سے لکھی گئی ہے یا کسی دباو کے تحت کیونکہ درخواست گزار کمرہ عدالت میں موجود نہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حنیف راہی ایڈوکیٹ کی درخواست مُسترد کرتے ہوئے مزید ریمارکس دئیے کہ وہ اِس پیٹیشن کو آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت سو موٹو نوٹس میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اِس موقع پر اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان خود روسٹرم پر پیش ہوئے اور انہوں نے چیف جسٹس کے استفسار پر آرمی چیف کی مُدتِ مُلازت میں توسیع سے متعلقہ دستاویزات پیش کیں اور بتایا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں اور اُنکی مُدتِ ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن صدر کی منظوری سے جاری ہوچکا۔

https://www.youtube.com/watch?time_continue=163&v=Af50cdRQ1j8&feature=emb_logo

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی تو صدر کا اختیار ہوتا ہے یہ کیا ہوا کہ پہلے 19 اگست کو وزیراعظم نے توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور پھر اُنکو بتایا گیا کہ وہ توسیع نہیں دے سکتے اور پھر صدر نے منظوری دی اور پھر 21 اگست کو وزیراعظم نے دوبارہ منظوری دی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ کی منظوری ضروری تھی اِس لیے ایسا کیا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا صدر نے کابینہ کی منظوری سے پہلے توسیع کی منظوری دی اور بعد میں کابینہ کی منظوری سے دوبارہ توسیع کی منظوری دی؟ چیف جسٹس خاموش ہوئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنا سوال شامل کردیا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیار کہاں ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کابینہ کا اختیار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ سوال کیا کہ رولز میں کیا آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے لیے کوئی شِق موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے نفی میں جواب دیا۔

چیف جسٹس نے آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کی منظوری کی کابینہ کی کاروائی کا بھی جائزہ لیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ دستاویزات کے مُطابق کابینہ کی اکثریت نے تو سمری پر کوئی رائے ہی نہیں دی، 25 رُکنی کابینہ میں سے صرف 11 نے آرمی چیف ملازمت میں توسیع کی حق میں رائے دی جبکہ چودہ ارکان کی اکثریت دستیاب ہی نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے سوال اُٹھایا کہ کیا 14ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا گیا؟ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کے بُنیاد پر ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا آپ کابینہ کے 14 ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے؟ 14 ارکان نے توسیع پر ہاں نہیں کی۔



جسٹس منصور علی شاہ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ میں توسیع کی وجوہات تک زیرِ بحث نہیں آئیں تو کیا کابینہ نے آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن استعمال کیا؟ چیف جسٹس نے آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کی سمری کے تکنیکی نقائص پر ریمارکس دئیے کہ سمری میں مُدت ملازمت میں توسیع لکھا گیا ہے جبکہ نوٹیفکیشن میں آرمی چیف کا دوبارہ تقرر کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ قوائد کے تحت دوبارہ تقرری یا توسیع نہیں ہوسکتی صرف ریٹائرمنٹ کو معطل کیا جاسکتا ہے جبکہ یہاں تو ابھی ریٹائرمنٹ ہوئی ہی نہیں یہ تو ایسے ہی ہے گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھا جارہا ہے۔

اِس موقع چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مثال دی کہ آرمی چیف نے فوجی افسران کو سزا دینے کے لیے اُنکی ریٹائرمنٹ معطل کرکے نوکری پر بحال کیا، ٹرائل کیا اور پھر سزا دی۔ اِس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے جاری سماعت کے سب اہم ریمارکس دئیے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے علاقائی صورتحال کی مُبہم اصطلاح استعمال کی گئی ہے، علاقائی سیکیورٹی کا ایشوء تو ہر وقت درپیش رہتا ہے۔



یہ بھی پڑھیے: فُل کورٹ ججز کا شخصی خاکہ اور جسٹس عیسیٰ کیس کا نیا منظر نامہ







چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جسٹس منصور علی شاہ کا ساتھ دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ سیکیورٹی کو صرف آرمی چیف نے نہیں ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کا دفاع کرتے ہوئے جواب دیا کہ توسیع مجاز اتھارٹی کا اختیار ہے اور ریٹائرمنٹ کی معطلی تو تھوڑی مُدت کے لیے ہوسکتی ہے۔

کیس کی سماعت اب دِلچسپ مرحلہ میں داخل ہوچُکی تھی اور کمرہِ عدالت میں سب ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے اگلا سوال کیا کہ حکومت آرمی چیف کو مُدتِ ملازمت میں توسیع دیتے ہوئے آرمی چیف کی اگلی مُدت کیسے طے کرسکتی ہے؟ اگر ہنگامی حالات کی بُنیاد پر ایک آرمی چیف کو تین سال کے لیے ملازمت میں توسیع دی گئی تو کیسے اندازہ لگایا کہ یہ ہنگامی حالات تین سال رہیں گے؟

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان کے دلائل پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کِس رول کے تحت ہوئی وہ رول آپ نہیں دکھا رہے۔

تین رُکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اِس موقع پر اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آرمی چیف کی موجودہ سروس کی مدت کا آخری دِن کیا ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 28 نومبر۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے وہ مُدتِ ملازمت کا نوٹیفکیشن معطل کر کے سماعت کے لیے کل کا دِن مُقرر کرتے ہیں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی نوٹس جاری کررہے جِس کی تعمیل کی یقین دہانی رجسٹرار آفس مُمکن بنائے گا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حُکمنامہ میں تحریر کروایا کہ اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے علاقائی صورتحال وجہ بتائی جو ایک مُبہم اصطلاح ہے اور علاقائی اسکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطورِ ادارہ کام ہے ناں کہ کسی ایک افسر کا، اسلیے اگر آج یہ دلیل مان لی گئی تو کل فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔ تحریری حُکمنامے میں مزید لکھوایا گیا کہ اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع یا تعیناتی کا کوئی قانونی جواز فراہم نہیں کر سکے۔



اٹارنی جنرل نے ایسی کوئی شِق نہیں بتائی جِس میں آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع اور ازسرِ نو تعیناتی ہو۔ حُکمنامہ کہتا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے خود آرڈر پاس کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کردی جبکہ آئین اِس معاملہ میں واضح طور پر آرٹیکل دو سو تینتالیس کے تحت صدر کو مجاز اتھارٹی بتاتا ہے۔

سماعت کے بعد دفتر واپسی کے لیے ڈرائیو کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ کی شخصیت، ماضی میں اُنکی سماعتوں کو دیکھنے کے تجربہ کو ذہن میں رکھ کر سپریم کورٹ میں آج ہونے والی پیشرفت کو اپنی محدود سی عقل کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا تو پانامہ لیکس کی سماعت سے جُڑا ایک واقعہ یاد آنے لگا۔

کیونکہ پانامہ لیکس کیس کی تمام سماعتیں خود دیکھنے اور ذاتی ڈائری تحریر کرنے کا تجربہ ہے اِس لیے یاد آیا کہ ایک سماعت کے دوران پانچ رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ اُنکی زندگی کُھلی کتاب کی طرح ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں اُنکی زندگی کی کتاب کے کُچھ اوراق غائب ہیں۔ اُسی شام ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اُس وقت کے وفاقی وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نام لیے بغیر جواب دیا کہ غور سے دیکھیں صفحے پورے ہیں اور ہم لوہے کے چنے ہیں چبائیں گے تو دانت ٹوٹ جائیں گے۔ اگلے دِن سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انتہائی نرمی سے ریمارکس دئیے کہ میرے یعنی جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے کتاب کے صفحے غائب ہونے والے ریمارکس پر وفاقی وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ڈانٹ پلائی ہے۔ سماعت کے بعد واپس دفتر آیا تو میرے اُس وقت کے اینکر اور بہت حوالوں سے اُستاد کاشف عباسی بھائی نے کہا کہ یار یہ کیا بات ہوئی ڈانٹ پلائی ہے؟ ججز ایسے کمزوری دکھاتے ہیں توہینِ عدالت پر؟ میں نے جواب دیا کاشف بھائی مُمکنہ طور پر اِس کا جواب فیصلہ میں آئے گا۔ کاشف بھائی جو عمومی طور پر میرے اختلافِ رائے کو بھی برداشت کرتے تھے میری رائے سے اتفاق کر لیا اور پھر ہم نے دیکھا جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلہ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو بالواسطہ طور پر گاڈ فاردر لکھا۔ باقی تاریخ ہے۔



آج سوچ رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ کو طاقتور اور عام آدمی میں تفریق کا تاثر ختم کرنے کا جو طعنہ دیا اُسکا جواب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے نہیں دیا تھا اور صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ ہمیں یہ طعنہ مت دیں، باہر جانے کی اجازت آپ نے دی، ہم نے تو ایک وزیراعظم کو سزا دی اور دوسرے کو نااہل کیا اور جلد ہی ایک سابق آرمی چیف (جنرل مُشرف کا مُکے لہرانے والا اشارہ کرتے ہوئے) کا بھی فیصلہ ہونے والا ہے۔ یاد رہے کہ مفرور سابق آمر آرمی چیف جنرل مُشرف کے کیس پر موجود حُکمِ امتناعی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہی ختم کرکے ٹرائل کو مُکمل کرنے کا حُکم دیا تھا جِس کے بعد پانچ سال سے سرد خانے میں پڑے سنگین غداری کے مُقدمے میں جان پڑ گئی تھی۔

لیکن وفاقی حکومت نے پہلے مفرور مُلزم جنرل مُشرف کے خلاف استغاثہ کی ٹیم تحلیل کرکے اِس مُقدمے کی کاروائی میں تعطل ڈالنے کی کوشش کی اور اب آرٹیکل چھ کے مُلزم کے ساتھ مِل کر مدعی حکومت نے خود اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی ہے کہ سنگین غداری کی سماعت کرنے والی اسپیشل کورٹ کو فیصلہ دینے سے روکا جائے۔

یہ سب ایسی پیشرفت ہیں جو یقیناً چیف جسٹس آصف سیعد کھوسہ کو بھی پسند نہیں آئی ہوں گی کہ ایک طرف اُن کو طاقتور کا احتساب ناں کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور دوسری طرف جب وہ ایک سابق آرمی چیف کو سزا کا کریڈٹ لے کر ریٹائر ہونا چاہتے ہیں تو حکومت اُنہیں اِس کریڈٹ سے محروم کرنے کے لیے عدالت جاکر اُس طاقتور ملزم کی حمایت میں کھڑی ہوگی ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریٹائر ہونے میں ایک ماہ سے بھی کم وقت باقی ہے دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ تحریکِ انصاف کو بھی خواجہ سعد رفیق جیسا جواب دے کر جائیں گے یا نہیں؟

اگر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تاریخ رقم کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف فیصلہ دیا تو یہ ایک اصول طے کردے گا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مُستقبل کے آرمی چیفس کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کا دروازہ بند کردے گا۔ اور اگر صرف وفاقی حکومت کو سمری کو نئے سرے سے منظوری کا حُکم دیا تو یہ آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کو درکار قانونی تحفظ فراہم کردے گا۔