ملک کی عدلیہ آج کل الزامات کی زد میں ہے اور شاید یہ پہلا موقع نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ پر جانبداری اور سیاسی انجینئرنگ کے الزامات لگ رہے ہیں، گو کہ ہماری عدلیہ نے ہمیشہ ہی سیاسی انجینئرنگ کے لئے اپنا کاندھا استعمال کرنے کی سہولت فراہم کی ہے لیکن آئین کی شق 58-2(B) کے خاتمے کے بعد حکومت بنانے اور توڑنے کے ماہرین کا کلی انحصار عدلیہ پر ہی ہے۔ اگر 2016 سے 2019 تک ملک کے سیاسی و عدالتی معاملات پر نظر دوڑائیں تو حکومت بنوانی ہو، گرانی ہو، کسی کو نااہل قرار دینا ہو یا کسی کو صادق و امین قرار دینا ہو عدلیہ نے ان ماہرین کو کبھی مایوس نہیں کیا۔
انہی 2016 سے 2019 کے تین سالوں میں نواز شریف کے خلاف ہوئے عدالتی فیصلوں بارے آج کل حلف نامے آ رہے ہیں، ججوں کو ہدایات دیتی آڈیوز کا انکشاف ہو رہا ہے اور نہ جانے مزید کیا کچھ آئے۔ لیکن اگر آپ قانون و عدالتی معاملات بارے ذرا سے بھی آگاہی رکھتے ہوں تو پانامہ کیس سے لے کر نواز شریف کے نیب کیسز تک جس طرح عدالتی کارروائی چلائی گئی اور جس طرح کے فیصلے دیے گئے ان میں ثاقب نثار مارکہ عدلیہ کی جانبداری ثابت کرنے کے لئے کسی قسم کی آڈیو یا ویڈیو لیک کی ضرورت نہیں۔ کیا اس فیصلے کو مزید کسی آڈیو/ویڈیو لیک کی ضرورت ہے کہ جس میں آپ ایک منتخب وزیر اعظم کو محض اس بات پر نااہل کر دیں کہ اس نے اپنے گوشواروں میں اپنے بیٹے کی کمپنی سے غیروصول شدہ تنخواہ ظاہر نہیں کی؟ پاکستان تو پاکستان اقوام عالم کا کون سا قانون غیر وصول شدہ تنخواہ اپنے اثاثوں میں ظاہر کرنے کا حکم دیتا ہے؟ اور اس غیر منطقی و معمولی سی بات پر یہ حکم صادر فرما دیں کہ کروڑوں ووٹ لے کر منتخب ہونے والا وزیر اعظم صادق اور امین نہیں ہے؟ ایسے سنگین نتائج والا فیصلہ عام حالات میں نہیں آ سکتا۔
اس فیصلے سے تو یوں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے ثاقب نثار مارکہ عدلیہ ہر صورت نوازشریف کو نااہل کر کے جیل بھیجنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ اسی "تاریخی" فیصلے میں پانامہ بینچ کے ایک رکن فیصلے کے Ratio Decidendi میں وکی پیڈیا آرٹیکل کو بطور دلیل استعمال کرتے ہیں اور مزید لکھتے ہیں کہ نوازشریف کو سزا دینے کے لئے "قانون انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا" ، پانامہ کیس میں استعمال کیا گیا یہ جملہ ایک عدالتی مذاق نہیں تو اور کیا ہے، اس جملے نے تو عدالتی نظام کے ستون ہی ہلا دئیے کہ عدالت قائم ہی اس لئے ہے کہ وہ قانون کے مطابق فیصلہ کرے، قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہی انصاف ہے لیکن شائد جج صاحب نوازشریف کو سزا سنانے کی جلدی میں یہ بنیادی اصول ہی بھول گئے۔
پانامہ کیس میں جے آئی ٹی بنانے کے لئے جہاں سرکاری افسران منتخب کرنے کے لئے متلعقہ اداروں کو تحریری حکم جاری کر دیا گیا وہاں من پسند "ہیرے" منتخب کرنے کے لئے وٹس ایپ جیسے غیر روایتی و غیر عدالتی طریقہ کار کو استعمال کیا گیا۔ دنیا کی کون سی عدالت اپنے حکم کی تعمیل کے لئے وٹس ایپ کالز استعمال کرتی ہے؟ نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد "انصاف" یقینی بنانے کے لئے ایک نگران جج کا تقرر کیا گیا، اور نگران جج بھی وہ جو خود پانامہ بینچ کا حصہ تھے اور نواز شریف کے خلاف فیصلہ دے چکے تھے۔ کیا پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ماتحت عدالت کے کسی اور مقدمے میں بھی کبھی نگران جج کا تقرر عمل میں آیا؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ عدالت ایک شخص کو نااہل کرے، اس کے خلاف مقدمات دائر کرنے کا حکم جاری کرے اور خود ان مقدمات میں ماتحت عدالت پر نگران مقرر ہو جائے؟ کروڑوں ووٹ لے کر منتخب ہونے والے وزیر اعظم کے لئے سیسلین مافیا اور گاڈفادر جیسے بدتر القابات استعمال کیے گئے۔ پورے پانامہ کیس میں "انصاف" صرف ہوا نہیں بلکہ "انصاف" ہوتا ہوا سب کو نظر بھی آیا۔
بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ جب مقدمہ ماتحت عدالت میں چلتا ہے تو وہاں بھی آپ کو ثاقب نثار مارکہ عدلیہ اس مقدمے کے فریق کے طور پر نظر آتی ہے۔ ماتحت عدالت کا جج اپنی تعیناتی کی مدت پوری کر چکا ہوتا ہے لیکن اس کو توسیع پر توسیع دی جاتی ہے حالانکہ سپریم کورٹ کی اپنی بنائی ہوئی نیشنل جوڈیشل پالیسی کے مطابق ماتحت عدلیہ کا کوئی جج کسی بھی سٹیشن پر تین سال سے زائد تعینات نہیں رہ سکتا لیکن ثاقب نثار کو جج محمد بشیر صاحب پر کچھ ایسا اعتماد تھا کہ انہیں برخلاف نیشنل جوڈیشل پالیسی دوسری مرتبہ توسیع دلوائی گئی۔ اب یہ عیاں ہو رہا ہے کہ ثاقب نثار چاہتے تھے کہ نواز شریف الیکشن سے پہلے جیل پہنچ جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ نیب کورٹ کو پابند بنایا گیا تھا کہ اس نے جلد سے جلد فیصلہ کرنا ہے۔ مئی 2018 میں جب نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے رمضان المبارک کے باعث ٹرائل کی مدت میں تین ماہ توسیع کی درخواست دی تو ثاقب نثار نے درخواست مسترد کر دی، کیونکہ ثاقب نثار الیکشن سے قبل نواز شریف کو جیل بھیجنا چاہتے تھے۔
جس طرح عدالتی کارروائی چلائی جا رہی تھی یہ بات تب بھی عیاں ہو چکی تھی کہ نواز شریف کو سزا سنائی جائے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے جب نواز شریف کیس میں گواہی دی کہ ان پر من پسند فیصلے کے لئے دباو ڈالا گیا ہے تو ثاقب نثار کی عدالت نے اس الزام کی تحقیق کے بجائے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی شروع کروا دی اور جسٹس صدیقی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تب کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی کے خلاف نہ صرف درخواست سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا تھی بلک بھرتیوں میں اقربا پروری اور غبن کے الزام میں سپریم کورٹ جسٹس کاسی کے خلاف فیصلہ دے چکی تھی اور اسی فیصلے کے نتیجے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق اور تب سپریم کورٹ کے جج جسٹس حمید الرحمان (جسٹس حمود الرحمان کے صاحبزادے) مستعفی ہو گئے تھے لیکن انور کاسی اپنی کرسی سے چمٹے رہے اور سپریم جوڈیشل کونسل میں بے تحاشہ درخواستوں کے باوجود ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ وہ 2018 میں "باعزت" ریٹائر ہوئے جب کہ اس کے برعکس جسٹس صدیقی کو چند ہفتوں میں فارغ کر دیا گیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ثاقب نثار مارکہ عدلیہ نواز شریف کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دینا چاہتی تھی اور جسٹس صدیقی اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔
نواز شریف کیس سے متعلق جب بھی کوئی متفرق درخواست سپریم کورٹ پہنچی تو چند مخصوص جج اس درخواست کو سنتے اور فیصلہ نواز شریف کے خلاف ہی آتا۔ جج ارشد ملک ویڈیو کیس آیا تو تب کے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ویڈیو کی تحقیقات کے بجائے اپنے سوو موٹو نوٹس میں ویڈیو کو بطور شہادت استعمال کرنے کے اصول واضح کرنا شروع کر دیے اور یہ بات یقینی بنائی کہ کسی طرح جج ارشد ملک کی ویڈیو نواز شریف کے لئے فائدے کا باعث نہ بن سکے۔
عدالت کے ایک کٹہرے میں ملزم ہوتا ہے، دوسرے میں استغاثہ اور درمیان میں انصاف کا ترازو، لیکن سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے آغاز سے لے کر نواز شریف اور مریم نواز کو سزائیں سنائے جانے تک اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو ملزم اور استغاثہ کے درمیان موجود انصاف کا ترازو آپ کو کسی جگہ نظر نہیں آئے گا، کیونکہ انصاف کے ترازو کے ضامن شائد مدعی بن کر خود استغاثہ کے ساتھ کھڑے تھے۔