’لوگوں کو ان کے گھروں میں ڈرا دینا چاہیے‘

’لوگوں کو ان کے گھروں میں ڈرا دینا چاہیے‘
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں سینسرشپ پالیسی راتوں رات اس نہج پر پہنچ گئی جہاں ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ آزاد میڈیا کے نام پر ایک خاص سمت میں مسلسل ذہن سازی کی جاتی رہی ہے اور اُس وقت جب کوئی آواز لگاتا کہ بھیا کھیر کو دھواں لگ چکا ہے تو جواب ملتا، ابے غدار، بھارتی ایجنٹ تجھے ہم سے زیادہ سوجھتا ہے؟ حالیہ برسوں کے دوران صرف سیاستدانوں کے ہی کرپٹ ہونے کی طرح بہتر لکھنے بولنے والوں کو بھی لفافہ یا ملک دشمن قرار دیے جانے کی مہم کب سے اور کہاں سے چلتی رہی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔

بات جملوں کی کاٹ چھانٹ سے پورے پورے انٹرویو غائب ہونے تک پہنچ گئی ہے


چھوٹے چھوٹے جملوں کی کانٹ چھانٹ سے گمشدہ کالموں تک اور کسی لائیو تبصرے پر بیپ سے لے کر میوٹ پریس کانفرنس یا پورا انٹرویو غائب ہونے تک کا ایک سفر ہے جو غیر محسوس طریقے سے یوں طے کروایا گیا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے چپکے رہنے والے شہریوں کی اکثریت اس کو معمول کی کارروائی گرداننے لگی ہے۔ مزاحمت کے لئے اگر ہم نے کسی میڈیا پرسن کو سوشل میڈیا پر بھڑاس نکالتے کچھ روز دیکھا بھی تو یا تو اس کے مالکان نے وارننگ دے کر چُپ کروادیا یا پھر لڑکی کے بھائیوں کا حملہ ہو گیا۔

کبھی کبھی لگتا ہے سب کی ساکھ تباہ کرنے کا ٹھیکہ ہو چکا ہے


کیا ہمیں دکھائی نہیں دیتا کہ سب جگہ صحافت کی خدمت کے واسطے توازن کے اصول کے تحت  نظر بٹوؤں کو نصب ضرور کیا گیا ہے؟ کبھی کبھار یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ صحافی ہوں یا سیاستدان یا پھر انصاف کی دیوی، سب کی ساکھ تباہ کرنے کا ٹھیکہ ہوچکا ہے۔ ایک دوسرے کو رِنگ میں پچھاڑنے کا جو کرتب ہو رہا ہے، اس میں ریفری کی سیٹی کون، کب اور کہاں سے بجاتا ہے اس پر غور کرنے والوں کی حب الوطنی ہمیشہ ہی سوالیہ نشان کی زد میں رہتی ہے اور کھیل جاری رکھنے کی سہولتکاری ہر دم تازہ دم۔ ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر ہم یہ بھی بھول جانا چاہتے ہیں کہ کون سے عوامل، مقاصد اور ہاتھ تھے جو 2014 میں زیادہ بولنے والوں کو ویہلے بیٹھنے کا بھی معاوضہ دیا گیا اور وہ سب پیکجز کی ادائیگی کون سے ذرائع سے ہو رہی تھی۔

سینسرشپ کا دائرہ سوشل میڈیا تک پھیلا ہوا ہے


ہمارے مین سٹریم میڈیا کو جس طرح چند موضوعات تک محدود کر دیا گیا ہے، انہی سطور پر ہم سوشل میڈیا صارفین کو بھی ہانک کر لائے جانے کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ یہ سینسر شپ پالیسی جس پر آج صحافی برادری اور صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں، اس کا دائرہ کار سوشل میڈیا تک پھیلا ہوا ہے۔ جو شاید ہماری پرسنل سپیس ہوا کرتا تھا۔ پھر پریس کانفرنس میں دائرے لگا کر ملک دشمن سوشل میڈیا صارفین کی نشاندہی کی گئی لیکن اس سے پہلے گذشتہ حکومت کے رضاکار سپورٹرز کے خلاف ایک کریک ڈاؤن ہوا تھا جس کے متاثرین سے رابطہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ کسی اور کا کام کسی دوسرے کا نام لے کر کیا گیا ہے۔

منیر نیازی نے کہا تھا ’لوگوں کو ان کے گھروں میں ڈرا دینا چاہیے‘


اس کے بعد سے ٹوئٹر پہلے جیسا رہا نہیں۔ لوگ سہم گئے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا  "لوگوں کو ان کے گھروں میں ڈرا دینا چاہیے" تو ایک انجانا سا خوف کہیں لاشعور میں بٹھا دیا گیا ہے کہ سوال نہیں اٹھانا، جو تاریخ آپ کو نصاب میں پڑھا دی گئی ہے اس کو چیلنج کرنے کی جسارت نہیں کرنی۔ اور اس خوف کو ترویج دینے والوں کا فین کلب ہمیں بتاتا ہے کہ فلاں فلاں موضوع پر عورت ہونے کے ناطے آپ لکھ بول نہیں سکتے ورنہ بازاری کہلوانے کو تیار ہوجائیے۔ فوٹو شاپڈ تصاویر کی بمباری ہوگی۔ مورل پولیسنگ ہوگی۔ آپ کے سنجیدہ جملے کو غلیظ معنی پہنا کر گھسیٹا جائے گا، ہر لفظ سے ذومعنویت نچوڑی جائے گی۔ بطور خاتون کسی سماجی مسئلے پر لکھیں یا سیاسی معاملات پر ہمیں دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ پہلا حملہ کردار یا شکل و صورت پر اور پھر گستاخی یا غداری کارڈ۔

ہمارے ذہن اس دعوے کو کیسے قبول کر لیں کہ یہاں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے؟


جس وقت یہ سب چل رہا تھا اس دوران ایک باریک کاروائی ہوئی جس کے گہرے اثرات جانچنے کی ہمیں فرصت نہیں مل پائی۔ عام صارف کی ٹوئیٹس پر انٹریکٹ کرنے کا بظاہر بےضرر سا یہ کام تنبیہہ کے انداز میں استعمال ہوا کہ "شبیر تو دیکھے گا"۔ اگر ایک خاتون بلاگر کی حالاتِ حاضرہ پر لکھی گئی تحریر ایدیٹر صاحب معذرت کے ساتھ لوٹا دیں یا ولاگ کے لئے کہا جائے کہ ہماری سائٹ مشکل میں آجائے گی تو ہمارے ذہن اس دعوے کو کیسے قبول کر لیں کہ یہاں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے؟

اپنا گھر صاف کرنے کا درست مشورہ دینے والے یہاں غدار ہیں


صحافتی اداروں اور تنظیموں نے خود بڑے کومپرومائز کیے ہیں جو بطور عام پاکستانی ہمارے مشاہدے میں رہے ہیں۔ سیاستدان کو سب نشانِ عبرت بنانا چاہتے ہیں لیکن ڈارک ویب کے حوالے سے تباہ کُن ہیجان خیزی برپا کرنے والے انسان سے آخری حد تک نرمی برتی جاتی ہے۔ اپنا گھر صاف کرنے کا درست مشورہ دینے والے یہاں غدار ہیں اور دارالحکومت کے داخلی و خارجی راستوں کا کنٹرول سنبھال کر شہریوں کو یرغمال بنانے والے مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی کرنے والے منبر سے لے کر سینسر شپ تک پر دسترس رکھتے ہیں۔

جب ایک ادارے کا چیئرمین دھمکی سے لبریز آڈیو ریکارڈنگ سُنواتا ہے تو جنہیں سانپ نہیں سونگھتا انہیں ایسے گستاخ کی کرادر کشی سجھائی دیتی ہے۔ پھر ہم اور آپ مِل کر صرف اشارے کنایوں میں سینسر شپ پالیسی کا نوحہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔

مصنفہ مختلف سوشل میڈیا پر سیٹیزن جرنلزم کے لئے معروف ہیں اور مختلف ویب سائٹس کے لئے لکھتی رہی ہیں۔