قرضوں اور بھیک سے کچھ دیر کیلئے مسائل وقتی طور پر دب تو جایا کرتے ہیں لیکن ان کا دیرپا اور مستقل حل نہیں نکالا جا سکتا۔ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے قرضے لینے کے گھن چکر میں پھنس کر کنوئیں کے بیل کی مانند ایک ہی جگہ دائروں میں گھومتا ہی چلا جا رہا ہے۔ تازہ ترین سعودی امداد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سعودی عرب نے عمران خان کے دورے کے موقع پر پاکستان کو ایک سال کیلئے تین ارب ڈالر اور ادھار پر تین ارب ڈالر مالیت کا تیل دینے کا اعلان کیا ہے اور ہمارے حکمرانوں کی باچھیں کھل اٹھی ہیں۔ قوم کو یوں خوشخبریاں سنائی جا رہی ہیں جیسے سعودی عرب سے امداد نہیں بلکہ انوسٹمنٹ لائی گئی ہے۔
حکومت پاکستان اور وزیراعظم عمران خان نے چپ سادھ کر ایک طرح سے سعودی عرب کے پلڑے میں اپنا وزن رکھ دیا
وزیر اعظم عمران خان نے ایسے وقت میں سعودی عرب میں منعقد ہونے والی فیوچر انوسٹمنٹ کانفرنس میں شرکت کی جب پوری دنیا جمال خاشقجی کے معاملے کو لے کر نہ صرف اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر چکی تھی بلکہ سعودی عرب پر ولی عہد محمد بن سلمان کو عہدے سے ہٹانے کیلئے دباؤ بھی ڈال رہی تھی۔ جمال خاشقجی کا قتل وحشت اور بربریت کا بدترین مظاہرہ تھا جس پر حکومت پاکستان اور وزیراعظم عمران خان نے چپ سادھ کر ایک طرح سے سعودی عرب کے پلڑے میں اپنا وزن رکھ دیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=8vqLh9MP4_g&t=1s
وزیر اعظم کے غیر ملکی میڈیا کو دیے انٹرویو سے ہماری حکومت کی ترجیحات واضح ہوتی ہیں
عمران خان جب سعودی عرب کے دورے پر جا رہے تھے تو چند برطانوی صحافیوں سے انٹرویو کے دوران انہوں نے یہ فرمایا کہ چونکہ ہمیں معاشی بحران سے نکلنے کیلئے سعودی عرب سے پیسے حاصل کرنے ہیں اس لئے ہم جمال خاشقجی کے معاملے پر سعودی عرب کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس بیان سے ہماری موجودہ حکومت کی ترجیحات اور اس کے نفسیاتی رجحان کا اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہمیں کوئی بھی ملک پیسے یا کسی قسم کی اور آسائش عطا کرے گا تو ہم اس کے جرائم سے منہ موڑ کر پوری دنیا کے برعکس اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
اگر ہم آج غلط کے ساتھ کھڑے ہیں تو ہماری کشمیر پر دُہائی کوئی کیوں سنے؟
یہ وہی پرانی ضیاالحق کی پالیسی اور فارمولا ہے جس نے ڈالرز کے بدلے امریکہ کی اندھا دھند حمایت کرتے ہوئے روس افغان جنگ میں پاکستان کو دھکیلا اور ہم آج تک اس کے مضمرات بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ہمیشہ دنیا بھر میں کشمیریوں اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے پامال ہونے کی دہائیاں دی جاتی ہیں لیکن آج تک نہ تو پاکستان نے یمن میں ہونے والے دلخراش واقعات اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر صدا بلند کی اور نہ جمال خاشقجی کے قتل پر لب ہلانے کی زحمت فرمائی۔
انہیں تو چھوڑیے ہم اپنی سرزمین پر احمدی برادری کو جینے کا حق تک نہیں دیتے اور ہندو اور مسیحی برادریوں کو دوسرے درجے کے شہری تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کو لے کر کشمیر اور فلسطین پر ہماری دُہائیوں پر دنیا کان بھی دھرنا پسند نہیں کرتی۔
ہم دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہم پیسوں کے عوض لڑتے ہیں
دوسری جانب دنیا کو یہ بھی معلوم ہے کہ ریال اور ڈالرز کے بدلے ہم جنگیں بھی لڑتے ہیں اور خود اپنے معاشرے میں شدت پسندی کا زہر بھی ہنستے ہنستے پھیلاتے ہیں۔ عمران خان نے جب سعودی عرب میں فیوچر انویسٹمنٹ اینیشئیٹو کانفرنس سے خطاب کیا تو وہاں بڑی تعداد میں بین الاقوامی سرمایہ کار موجود تھے۔ سرمایہ کاروں کی موجودگی میں خطاب ایک سنہری موقع ہوا کرتا ہے جس کو کیش کرتے ہوئے آپ اپنے ملک میں سرمایہ کاروں کو تحفظ دینے اور سرمایہ کاری پر اچھے منافع کی پیشکش دے کر سرمایہ کاروں سے انوسٹمنٹ حاصل کرنے کے امکانات کو روشن کرتے ہیں۔ اپنا معاشی وژن سب کے سامنے رکھتے ہیں۔ لیکن محترم عمران خان نے اس کانفرنس میں بھی "کنٹینر اور دھرنوں" والی تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا ملک کرپشن کی وجہ سے بے حال ہے اور اس کی ذمہ دار پرانی حکومتیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے ہاں ادارے مضبوط نہیں ہیں کیونکہ پچھلی حکومتیں اہم عہدوں پر اپنے وفادسروں اور دوستوں کو تعینات کرتی رہیں۔
عمران خان کے قوم سے خطاب پر ان کے اپنے ساتھی ہنس رہے ہوں گے
شاید یہ جملے سنتے ہوئے زلفی بخاری، علیم خان، اون چوہدری، نعیم الحق، پرویز خٹک اور ان کے بیٹے اور پس پشت پنجاب کے امور چلانے والے جہانگیر ترین زیر لب مسکرا رہے ہوں گے۔ اپنا معاشی وژن دیتے ہوئے خان صاحب نے کہا کہ ہم اب دوست ملکوں کے پاس کشکول لے کر قرض مانگنے جا رہے ہیں۔ شاید ہی پاکستان میں اس سے پہلے کسی وزیراعظم نے بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کر کے اپنے ملک کے نظام کی برائیاں گنواتے ہوئے پچھلی حکومتوں پر اس کا ملبہ ڈالا ہو اور اپنے معاشی وژن میں دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کو اہم ترین مقصد قرار دیا ہو۔
ہم بھیک مانگ رہے ہیں اور خواہش یہ ہے کہ دنیا ہمارے پاس سرمایہ کاری کرے
عمران خان بطور وزیر اعظم بلاشبہ ابھی بہت سے سیاسی اور خارجی امور کے رموز سیکھ رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ کابینہ میں شامل شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، رزاق داؤد وغیرہ نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے اور کئی سیاسی پارٹیاں بدل کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ کم سے کم ان لوگوں کو عمران خان کو یہ مشورہ دینا چاہیے تھا کہ عالمی فورم پر الزام اور بہتان تراشی والی تقریر اور دوست ممالک سے قرضے مانگنے والی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایک طرف تو اس سے ساری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے، دوسرا کوئی بھی سرمایہ کار کسی ملک کے وزیراعظم سے اس ملک کی خامیاں سن کر اور قرضوں پر معیشت چلانے والے معاشی پروگرام کو دیکھ کر کبھی بھی اپنی انوسٹمنٹ اس ملک میں نہیں لگاتا ہے۔ ایک لیڈر کا کام محض مسائل کی نشاندہی اور مشکلات کا ذکر کرنا نہیں ہوتا بلکہ انہیں حل کرنا ہوتا ہے۔
ایک یو ٹرن اور سہی
سعودی عرب سے واپسی پر عمران خان نے قوم سے جو خطاب کیا اس میں بھی وہ وزیر اعظم کم اور اپوزیشن لیڈر زیادہ نظر آئے۔ قوم کو سعودیہ سے ملنے والی خیرات کی خوشخبری سنا کر انہوں نے یہ بھی فرما ڈالا کہ مشکل وقت ہے اور عوام کو ابھی مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔ یہ وہی عمران خان ہیں جو مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ادوار حکومت میں یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ قرضوں کا بوجھ غریب عوام کیوں برداشت کرے؟ خیر جب اتنے یوٹرن خان صاحب لے ہی چکے ہیں تو ایک یو ٹرن اور سہی۔ عام عوام تو ویسے بھی دہائیوں سے اشرافیہ کی غلط معاشی پالیسیوں اور طاقت کی شطرنج پر مہرے بدلنے کے مہنگے شوق کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
یوں معلوم ہو رہا تھا کہ وزیر اعظم کے بجائے ایک اپوزیشن لیڈر قوم سے مخاطب ہے
عمران خان کی باقی ساری تقریر کرپشن کی الف لیلوی داستانوں اور سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دینے میں صرف ہو گئی۔ یوں معلوم ہو رہا تھا کہ وزیر اعظم کے بجائے ایک اپوزیشن لیڈر قوم سے مخاطب ہے اور اپنے سیاسی مخالفین کو دھمکا رہا ہے کہ جب میں اقتدار میں آؤں گا تو سب کو جیلوں میں ڈال دوں گا۔ اب عمران خان صاحب کو اس حقیقت کا ادراک کر ہی لینا چاہیے کہ وہ اپوزیشن میں نہیں حکومت میں ہیں اور نیب سے لے کر ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی ادارے ان کے ماتحت ہیں۔ اگر اب بھی وہ سیاسی مخالفین کی کرپشن کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا 200 ارب ڈالرز کی سوئس بنکوں کی وہ رقم جس کی کہانیاں وہ پچھلے پانچ برس دن رات عوام کو سناتے رہے، اسے ڈھونڈ نکالنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں وقت اور توانائی ان معاملات پر ضائع کرنے کے بجائے امور حکومت پر توجہ دینی چاہیے۔
اب وقت باتوں کا نہیں کام کر کے دکھانے کا ہے
مخالفین پر الزامات لگا کر انہیں جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دے کر اور چندے اور قرضے لے کر نہ تو وہ معیشت کو مضبوط کر پائیں گے اور نہ ہی سیاسی محاذ پر ان کی گرفت اس سے مضبوط ہوگی۔ اب وقت باتوں کا نہیں کام کر کے دکھانے کا ہے۔ پچاس لاکھ گھروں والی سیاسی شعبدہ بازیاں محض تحریک انصاف سے وابستہ ایک جذباتی کارکن کو تو خوش کر سکتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ممکن نہیں ہیں۔ نہ تو غریب آدمی بنکوں کی رائج کردہ شرح سود پر ان مکانوں کی قسطیں ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی جکومت پاکستان کے پاس اس قدر سرمایہ ہے کہ یہ سکیم شروع کی جا سکے۔
آبادی کے اس حصے کو معیشت میں شامل کرنا پڑے گا جو اس وقت روزگار اور کاروبار کے مواقع سے محروم محض بقا کی جنگ میں مصروف ہے
معاشی بحران سے مستقبل بنیادوں پر نبرد آزما ہوتے ہوئے ٹیکس نیٹ کو بڑھاتے ہوئے آبادی کے اس حصے کو معیشت میں شامل کرنا پڑے گا جو اس وقت روزگار اور کاروبار کے مواقع سے محروم محض بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے کیلئے سعودی عرب کی یہ امداد شارٹ ٹرم میں تو ٹھیک ہے لیکن دور رس نتائج کیلئے ایک مربوط معاشی پالیسی درکار ہوتی ہے جو فی الحال تحریک انصاف کی حکومت کے پاس موجود نہیں ہے کیونک عمران خان کا سارا دھیان سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور اپنے قریبی ساتھیوں اور دوستوں کو عہدے اور وزارتیں بانٹنے میں مرکوز ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=YkJywcQITH8
امور حکومت محض جذباتی باتوں اور پرفریب نعروں کے دم پر نہیں چلائے جاتے
میں قرضہ نہیں لوں گا اور بیرونی قرضے پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں جیسے نعروں اور دعؤوں سے لے کر دوست ملکوں سے امداد کی اپیل اور قرضے مانگنے کے یو ٹرن کے اس عمل نے شاید عمران خان کو یہ سبق ضرور سکھایا ہوگا کہ امور حکومت محض جذباتی باتوں اور پرفریب نعروں کے دم پر نہیں چلائے جاتے۔ امید ہے وہ یہ بات بھی جلد سمجھ جائیں گے کہ قرضوں امداد اور خیرات سے نہ تو معاشی بحران حل ہو پائے گا اور نہ ہی وہ محض پچھلی حکومتوں پر الزامات دھر کر ملک کی حالت میں کوئی بہتری لا پائیں گے۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔