زاہد کرد، بلوچ طالب علم، جن کی اغوا نما گرفتاری ایک دہائی پوری کرنے والی ہے۔ آخری بار مجھے ویلکم بک پورٹ اردو بازار میں ملے۔ یہ اچانک ملاقات تھی اور بڑے عرصے کے بعد۔ روزنامہ توار چھوڑنے کے بعد ان سے فون پر کبھی کبھار ہی رابطہ رہا، اکثر و بیش تر ملنے کا جو سلسلہ تھا وہ برقرار نہیں رہا۔ بہرحال، وہ بدل گیا ہے، کی خبر ملتی رہتی تھی۔ زاہد شام کا بیش تر وقت اکثر روزنامہ توار کے دفتر میں گزارتا تھا جو مولانا حسرت موہانی روڈ پر واقع، خستہ حال عمارت سنی پلازہ کی چوتھی منزل پر تھا۔ داخلی دروازے سے دو قدم کے فاصلے پر چھوٹا سا نیوز روم تھا جبکہ دوسرا کمرہ، جو تھوڑا سا کشادہ تھا، وہاں کمپیوٹر سیکشن بنایا گیا تھا۔ ان دو کمروں کے درمیان رابطے کیلئے ایک کھڑکی نما کھلی جگہ بنائی گئی تھی، جہاں سے خبریں کمپوزر تک پہنچتی تھیں۔ ایک اور ننھا منا گودام بھی تھا جہاں اخبار کے وہ بنڈل رکھے جاتے تھے جو ہاکر واپس کر دیا کرتے تھے۔ یہ گودام کبھی کبھار ایک خواب گاہ بن جاتا تھا۔ بلوچستان کی معیشت پر کتاب، جو مصنف کی اپنی رائے میں بلوچستان کو سمجھنے کی کلید تھی، لکھنے والے سیاسی کارکن کامریڈ فقیر بلوچ جب لمبے قیام کے ارادوں سے کراچی آتے، یہ گودام ان کی خواب گاہ میں بدل جاتا۔ اخبارات کے بنڈل بستر اور کسی ٹوٹی کرسی کا فوم تکیے کا کام کرتا تھا۔
زاہد کرد ان دنوں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے نظریات سے بنے آزادی کے پل پر نہیں کھڑے تھے۔ وہ جب بھی آتے، پاپ کارن کا پیکٹ ان کے ہاتھ میں ہوتا۔ دانہ با دانہ نمک خوردہ پاپ کارن منہ میں ڈالتا، ذائقہ بدلنے کیلئے ہونٹوں پر زبان پھیرتا اور سخت گیر بلوچ سیاست پر پھبتیاں کستا۔ ان پھبتیوں کا نشانہ حکیم بلوچ ہوتا، جس کی ناک کے نیچے اور ہونٹوں سے اوپر اگے بالوں میں ابھی اتنی کرختگی نہیں آئی تھی کہ تاؤ دار مونچھ بنتے، جن کا حکیم کو شوق تھا۔ وہ ان نرم بالوں کو تاؤ دیتا رہتا تھا۔ اس کی وابستگی بی ایس او متحدہ سے تھی جبکہ روزنامہ توار میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وہ سنجیدہ تھا اور اپنا کام دلجمعی سے کرتا تھا۔ مختصر وقت میں، خبروں کے مفہوم کے مطابق، کاٹ دار سرخیاں نکالتا۔ توار سے کچھ عرصہ بعد روزنامہ ایکسپریس چلا گیا، وہاں سے پھر جیو ٹی وی کی راہ لی۔ کراچی میں امریکی قونصل خانہ کے محکمہ اطلاعات کو جب صحافی ملازمین کی ضرورت ہوئی، وہاں ملازم لگ گیا۔ یہ ملازمت آخری ثابت ہوئی۔ وہاں نوکری کرتے ہوئے انہیں زیادہ عرصہ گزارنے کا موقع نہیں ملا اور پراسرار حالات میں چل بسا۔ شاید ان کی عمر اس وقت 30 سال کو بھی نہیں پہنچی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کوئٹہ میں امریکی قونصل خانہ کھولے جانے کی خبریں اخبارات میں چھپ رہی تھیں جس پر سرکار کا موڈ ناخوشگوار لگ رہا تھا۔ حکیم بلوچ کی ان ہی دنوں بلوچستان آمد و رفت معمول سے زیادہ ہو گئی تھی۔ آخری سفر پر بلوچستان کیلئے نکلے، وہیں انہیں سخت بخار ہوا، کراچی واپس لوٹے۔ ایک آدھ دن گزرا تھا کہ سب سے ہمیشہ کیلئے رخصت لے لی۔
زاہد کرد، اس وقت تک، جن کارکنوں کو ان کی سخت گیری پر اپنی پھبتی کا نشانہ بناتا تھا، ان کے نظریات کا نمایاں علمبردار بن گیا تھا۔ غوث بخش بزنجو کے سیاسی فلسفہ پر اس کا یقین، کیسے نواب خیر بخش مری کے آزادی کے نظریے کا عقیدت مند بنا؟ ان کو نظریاتی تبدیلی میں بہت وقت نہیں لگا۔ یہ بہت سادہ سوال ہے۔ اس میں کوئی بھی پیچیدگی نہیں۔ جس کی گرہ کھولنے کیلئے سرگوشی کی ضرورت پڑ جائے، ایک دوسرے سے کھسر پھسر کی جائے، رائے عامہ کے نام پر کاغذوں کا انبار لگایا جائے یا تاریخ کی بیزار کن کتابوں کا ایک بار پھر مطالعہ کیا جائے۔ وہ کتابیں جن میں، بلوچستان ایک بے آب و گیاہ علاقہ ہے، کا افسانہ دہرایا گیا ہے۔
بلوچ کے پاس مواقع زیادہ نہیں ہیں۔ آپ اس رائے کو اپنائیں جو مایوس کن، تاریک حالات پر بیزاری کی جانب مائل ہے یا آپ ان سیاست دانوں کی پیروی کرتے جائیں جو سیاسی رسم و رواج کی زمین پر سر کے بل کھڑے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ کی سیاسی روایت کے مطابق چلتے ہیں، سپاہ گروں کی بخشش پر گزارا کرتے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ غلام محمد، گل سے گلستان اور زلفوں کی روح تک سفر کرنے والا رومان پرور ایک شاعر تھا اور بی این ایم کے مرکزی رہنما لالا منیر فطرتاً شدت پسند پیدا نہیں ہوئے۔ دونوں ڈاکٹر عبدالمالک کے پرانے سیاسی دوستوں میں شامل تھے۔ ان کے نظریات بھی بدل گئے۔ دونوں زاہد کرد کے پیش رو تھے۔
بلوچ کیوں وہ سیاست نہیں کرتا جو سب کرتے ہیں؟ اس میں کچھ ٹیڑھا پن ہے؟ ریاضی کے اعداد جس طرح کھیل کھیلتے ہیں، ایسا کچھ ہے؟ اس سوال کی فطرت سادہ نہیں؟ ڈاکٹر شازیہ میمن کا ریپ ہوتا ہے، الزام ایک کیپٹن پر لگتا ہے، ملوث اہلکار کو سزا سے بچانے کیلئے کون ہٹ دھرمی دکھاتا ہے؟ اپنی دائمی توہین کے احساس سے مشتعل، دوسروں کی بار بار کی چیرہ دستیوں پر مضطرب اور برسوں کی زور زبردستیوں پر بے چین شخص کیا ردعمل دکھا سکتا ہے؟
ڈرامہ، تھئیٹر یا فلم کے تماش بین، برسوں پہلے کے زمانوں کو، گزرے وقتوں میں سانس لیتے لوگوں کو، کبھی کبھار اداکاروں کے لباس و پیراہن سے بھی یاد رکھتے ہیں، جو ان میں ماضی کے بے فکر لمحوں میں جینے کا احساس جگا دیتے ہیں۔ نادر مواقع پر یہ پیراہن فیشن کا حاوی مظہر بھی بن جاتے ہیں۔ بلوچستان میں فیشن کا مزاج، تفریح کے ذرائع، فلم، تھئیٹر، ڈراموں سے باہر نہیں کودتا۔ سیاسی رہنماؤں کی پیروی، فیشن کی کتر بیونت، طے کرتی ہے۔ وہ رہنما کیسے کپڑے پہنتا ہے، کس رنگ کی واسکٹ زیب تن کرتا ہے۔ یہاں فیشن کے مزاج پر موسم کے سرد و گرم کے اتار چڑھاؤ کا نزلہ نہیں گرتا۔ آج بھی، بیش تر مواقع پر اکثر نوجوان وہ واسکٹ پہنے سٹیج پر بیٹھتے ہیں جسے شیر باز مزاری اور غوث بخش بزنجو نے 1980 کی دہائی میں شاید عمر کے آخر میں اپنے لباس کا حصہ بنایا تھا۔ ان نوجوانوں کے ذہن میں تفریح، سیاست ہی ہے، اور کچھ نہیں۔ وہ فلمی ڈائیلاگ کی جگہ نظریات اور شعر حفظ کرتے اور ان کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ اللہ نذر نے 'فریڈم ایٹ مڈ نائٹ' نامی کتاب جو تقسیم ہند پر ہے، ایک رات میں پڑھ کر ختم کر لی تھی، روزنامہ توار کے ایڈیٹر اور براہوی زبان کے ادیب خادم لہڑی نے مجھے بتایا۔
تربت میں گذشتہ دنوں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 6 مزدور مسلح افراد نے قتل کیے۔ یہ قابل مذمت اور افسوس ناک واردات آخری نہیں بننے والی۔ بلاشبہ ہڑبڑاہٹ کے شکار، سراسیمہ بندوق بردار، کہیں بھی ان کو نہتے مزدور اور آسان اہداف نظر آئیں گے، وہ مزید ایسی واردات کرنا چاہیں گے۔ بلوچستان کے حالات نے قتل کی وارداتوں کو آسان بنا دیا ہے۔ پروفیسر صبا دشتیاری اور پروفیسر ناظمہ طالب کس آسانی سے قتل کر دیے گئے۔ زاہد کرد اور ڈاکٹر دین محمد سمیت ان گنت افراد کھلے عام، بظاہر قانون اس قسم کی سیاسی اغوا کاری کی اجازت نہیں دیتا، لیکن کسی قانونی مشکل کے آڑے آئے بغیر یہ لوگ اٹھا کر غائب کر دیے گئے۔
سبین محمود بلوچ نہیں تھی۔ بلوچستان کی بیٹی بھی نہیں تھی۔ وہ بس روایت سے عاجز آ گئی تھی۔ نہیں جانتی تھی جو بلوچ بیزار ہیں ان پر عوامی کچہری لگانا ممنوع ہے۔ اس نے بلوچوں کو سننے کی دلیری دکھائی۔ اس لڑکی کی ناقابل قبول جرات پر کسی کا غصہ قابو سے باہر اور قانون سے بالا ہو گیا۔ وہ کس طرح صفائی سے، کسی قانون کے حرکت میں آئے بغیر، عجلت میں مار دی گئی۔ بلوچ قانون کے دائرہ سے خارج ہیں؟ انسانوں اور جانوروں کے حقوق کیلئے بنائے گئے قوانین کے زمروں میں کہیں بھی بلوچوں کا ذکر، انسان یا حیوان کے طور پر، نہیں ملتا؟ بلوچستان کیلئے احساس محرومی کی مریضانہ نفسیاتی اصطلاح کس سرکار ساختہ دانشور نے تراشی اور اشتہاروں کی طرح پھیلا دی؟ اس کا جھوٹ بھی سبین محمود کو نہ بچا سکا جو احساس محرومی کے شکار، توجہ کے طالب، لاپتہ افراد کو سنوانے پر اصرار کرتی تھی۔
قتل عام کا یہ سلسلہ، دو دہائیاں پہلے جب اس کا آغاز ہوا، بڑھنے سے قبل ہی اس کا پرامن سیاسی حل نکالنا ممکن تھا۔ زاہد کرد جو خضدار سے کراچی آیا ہوا ایک طالب علم تھا، فرصت کی شامیں پاپ کارن کا پیکٹ ہاتھ میں لیے آوارہ گردی میں گزارتا تھا، وہ معمول کی زندگی پر چلنے والا ایک عام طالب علم ہی رہتا۔ جاوید نصیر رند جسے اپنا شہر حب بہت پسند تھا، کسی گلی میں دوستوں کے ساتھ وقت گزار رہا ہوتا۔ حاجی رزاق اپنی چینی ساختہ سائیکل پر لیاری میں بلوچ ادیبوں کے گھروں کے چکر لگاتا اور مشورہ پاشی کے بعد اپنی شام آسودہ کرتا۔ ڈاکٹر دین محمد اور ڈاکٹر منان اپنے کلینک پر مریضوں کے دردوں کا درماں کر رہے ہوتے۔ راشد دبئی میں مزدوری کر چکنے کے بعد اپنے ڈیرے پر تاش کے پتے پھینٹ رہا ہوتا۔ سبین محمود کسی ذہین طالب علم کو اپنی دانشکدہ میں لوگوں سے متعارف کرا رہی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بلوچستان کے سینے میں برے وقت کی سوئی گہرائی میں پیوست ہوتی گئی جیسے کوئی تختہ پیشہ سپہ گری کی مشق کے کام آتا ہے۔
تربت میں قتل ہونے والے مزدوروں کی لاشیں فوج کے حکم پر ڈپٹی کمشنر نے ہیلی کاپٹر پر پنجاب پہنچائیں۔ نواب اکبر بگٹی کی لاش فوج کی خواہش کے مطابق ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی نے صندوق میں بند کر کے پیش کی، جس کا تالہ بھی کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔