امیرِ ’نئی‘ ریاست مدینہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مدحتوں بھرا (آن لائن) خطاب فرمایا جس میں انہوں نے دنیا کے تمام حکمرانوں کو امن کا درس دیا، اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لئے اپنی قیمتی آرا سے نوازا۔ انہوں نے اپنے دورِ حکمرانی کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ ان کا خیال ہے کہ شاید وہ ہی امتِ مسلمہ کے حقیقی وارث ہیں اور ان کی کہی گئی ہر بات سچائی کا پیکر و سرچشمہ ہے۔
اس تقریر میں انہوں نے مذہبی انتہا پسندی اور ہندوتوا کے علمبردار نریندر مودی کے مذموم مقاصد کو بے نقاب کیا اور دنیا بھر کے ’کافروں‘ کی طرف سے امتِ مسلمہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور خوب سنائیں۔ انہوں نے امتِ مسلمہ کا وکیل بن کر افغانستان، کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو اٹھایا اور دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے اس دور اندیش حاکم نے اپنے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا اور کیسے اس شاندار سلطنت عمرانیہ نے کرونا وبا کو شکست دی اور اپنی رعایا کے غریبوں کی مدد کرنے کے لئے ان میں بارہ بارہ ہزار تقسیم کیے۔
میں اپنے امیر کی دور اندیشی اور جذبات کی قدر کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ شاید یہی ہیں جنہوں نے ساری امت کا بیڑا اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ مگر ریاست مدینہ کے ہی اصول کے تحت میں مکمل حق رکھتا ہوں کہ اپنے امیر سے وہ سوال کر سکوں جو شاید ان کو اور ان کی رعایا کے چند غلامان کو ناگوار گزریں۔
اے میرے امیر! میرا سوال ہے کہ آپ جو درس دوسروں کو دے رہے ہیں کیا آپ خود اس پر عمل پیرا ہیں؟ آپ دیگر ممالک کے باشندوں کو انسانیت کا درس دیتے ہیں، کیا آپ کے دورِ حکمرانی میں عوام کو وہ تمام انسانی حقوق میسر ہیں؟ کیا آپ کی اپنی نئی ریاست مدینہ امن و آشتی کا گہوارہ بن چکی ہے؟ کیا آپ کی ریاست مدینہ میں اقلیتیں اپنے مذاہب کا کھلِ عام عمل اور پرچار کر سکتی ہیں؟ کیا آپ کے ماتحت رعایا کے لوگوں کو اٹھایا نہیں جاتا؟ کیا آپ کے ماتحت اداروں میں انسانوں اور انسانیت کی تذلیل نہیں کی جاتی؟ کیا آپ کے زیر سایہ اس معاشرے کی خواتین محفوظ ہیں؟ کیا آپ کی ریاست میں تنقید کی اجازت ہے؟ کیا آپ کی ریاست میں لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جاتا؟ کیا آپ کی ریاست میں کوئی بھی شہری بھوکا نہیں سوتا؟ کیا آپ کی حکمرانی میں آپ کی رعایا آپ کی کارکردگی سے خوش ہے؟ اور کیا آپ کی ریاست میں غربت، بے روزگاری سے تنگ غریب خود کشیاں نہیں کرتے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اس ریاست کا ہر شہری جاننا چاہتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کو امن کا درس دینے سے قبل یہ امن اپنی ریاست میں قائم کریں جہاں ریاستی سرپرستی میں لوگوں کو اختلاف کی بنیاد پر مارا جا رہا ہے۔ کاش آپ کو ادراک ہو کہ آپ کی ریاست مدینہ میں تنقید کی اجازت کسی کو نہیں اور اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو اسے غدار اور کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ کاش آپ یہ قبول کر سکیں کہ آپ کی ریاست میں خواتین محفوظ نہیں جنہیں ریاست کی مرکزی شاہراہ پر زیادتی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ کاش آپ سمجھ سکیں کہ آپ کے ملک میں تمام مسلمان ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر اور ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ کشمیر کی ماؤں کا دکھ بیان کرنے سے قبل کاش آپ حیات بلوچ کی ماں کا دکھ سن کر اس کے دکھ کا ازالہ کر سکتے جس کے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے ماورائے عدالت قتل کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اسرائیلی فوجیوں کی بربریت بیان کرنے سے قبل کاش آپ فاٹا، بلوچستان اور سندھ میں بڑھتے ریاستی مظالم پر اپنے سکیورٹی اداروں سے سوال کر سکیں جہاں ریاستی سرپرستی میں لوگوں کو غائب کیا جا رہا ہے۔ بھارتی جبر کا شکار کشمیری قیدیوں کا ذکر کرنے سے قبل کاش آپ گلگت، آزاد کشمیر، بلوچستان اور سندھ کی جیلوں میں قید سیاسی قیدیوں کا احوال بھی جان لیتے جو فقط اختلاف رائے کی بنیاد پر سالوں سے پابند سلاسل ہیں۔ کرونا کی کامیابی منانے سے قبل بارہ، بارہ ہزار لینے والے خاندانوں سے کاش آپ پوچھ لیتے کہ ان کے پاس 9 ہزار روپے میں ہونے والا کرونا ٹیسٹ کروانے کے پیسے ہیں بھی یا نہیں؟ کرونا بحران میں آپ نے سمارٹ لاک ڈاون کر کے سرمایہ داروں کی خوشنودی پر مبنی ایک بوسیدہ معشیت کو بچانے کا دعویٰ تو کر دیا مگر اس بحران کے بعد لاکھوں مزدور بے روزگار ہوئے تو آپ نے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ آپ نے ان کی داد رسی کرنے کی بجائے تعمیراتی، فارماسوٹیکل، اور انڈسٹری مافیا کو ٹیکس چھوٹ دی مگر لاکھوں مزدوروں کو بے روزگار کرنے پر کسی ایک فیکٹری انتظامیہ کا بھی احتساب نہ کیا۔
اے میرے امیر! دنیا کو انسانیت، آزادی، اور برداشت کا یہ درس دینے سے قبل آپ یہی درس سب سے پہلے اپنے زیرِ انتظام اداروں اور رعایا کو دیتے جہاں کچہریوں اور عدالتوں میں روزانہ انصاف کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔ جہاں اقلیتوں کو ایک عبادت گاہ بنانے پر طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اہل مغرب کو تہذیب سکھانے سے قبل آپ اپنے ہی پیروکاروں کو مشرقی تہذیب سکھا دیتے جو معمولی سے اختلاف رائے کی بنیاد پر دوسروں پر فتوے لگاتے اور قتل کر دیتے ہیں۔
بلا شبہ انسانیت دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہو رہی ہے مگر آپ کی حکومت انسانیت پر ہوتے ظلم میں ایک اکائی کی صورت وہی مظالم یہاں ڈھا رہی ہے جن کے خلاف آپ دنیا میں آواز بلند کرنے کی ناکام کوشش رہے ہیں۔ جہاں انسان ہونے کا معیار مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جب کہ کسی ایک مذہب کے علاوہ دیگر قومیتوں اور شناختوں کے لوگوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ ان پر ہونے والے مظالم پر خاموشی سے پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ میرے امیر کو کشمیر، فلسطین، افغانستان اور پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہوتا ظلم دکھائی دیتا ہے مگر جس سلطنت میں وہ حکمرانی کر رہے ہیں وہاں ہوتے ظلم پر وہ اپنی آنکھیں، زبان اور کان بند کر لیتے ہیں۔
اے میرے امیر! ساری دنیا اور آپ کی رعایا کے شہری آپ کی حقیقت کو جان چکے ہیں۔ آپ کے یہ دانشمندانہ ٹوٹکے اور جارحانہ انداز بیاں کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں جب تک انہیں آپ کے قول و فعل میں کھلا تضاد نظر آتا رہے گا۔
حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔