جب ایک خودکش حملہ آور افطار کے بہانے سیکیورٹی اہلکاروں کے دسترخوان پر بیٹھ گیا

جب ایک خودکش حملہ آور افطار کے بہانے سیکیورٹی اہلکاروں کے دسترخوان پر بیٹھ گیا
یہ کہانی ضلع خیبر کی خاصہ دار فورس کے ان سولہ جوانوں کی ہے جو  سال 2009 کی سخت گرمی اور روزے کی حالت میں طورخم بارڈر پر اپنے فرائض سرانجام دینے کے بعد افطار کی تیاریوں میں مصروف تھے۔افطاری سے کچھ لمحے قبل وہ دسترخوان پر روزہ افطار کا سامان رکھ کر بیٹھ گئے۔ اذان سے پہلے ایک اجنبی شخص ان کے قریب آتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کا بھی روزہ ہے اور اسے بھی روزہ  افطار کرنا ہے ۔ دسترخوان پر بیٹھے فورس کے جوانوں نے اس کو خوش آمدید کہا اور وہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا- فورس کے جوانوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ مہمان ایک خودکش حملہ آور ہے۔ کچھ ہی لمحے بعد اس نے خود کو اُڑادیا اور فورس کے جوانوں کے پرخچے اُڑ گئے ۔خود کش حملہ آور سمیت سولہ لوگ موقع پر جان بحق جبکہ ایک شدید زخمی ہوا جس نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کو بیان کیا اور کچھ روز بعد وہ بھی جان کی بازی ہار گیا۔ طور خم بارڈر پر ان سولہ نوجوانوں کے خاندان گزشتہ کئی دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کے بچوں کو تعلیم اور صحت کی مفت سہولیات دی جائیں جیسے دیگر صوبوں میں ہوتا ہے مگر پاکستان تحریک انصاف کا کوئی بھی نمائندہ تاحال ان کے پاس نہیں پہنچا۔ واضح رہے کہ حکومت نے فورس کے جوانوں کے جان بحق ہونے کے بعد ان کو ایک ایک لاکھ روپے کا چیک دیا جبکہ سال 2015 میں پھر عدالت کے احکامات پر ان کو شہدا پیکج مل گیا جبکہ فاٹا انضمام سے پہلے ان کے بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات مفت کا ودہ کیا گیا مگر قبائلی اضلاع کا خیبر پختون خوا کے ساتھ انضمام کے بعد یہ سہولیات ان سے واپس لی گئین۔ نیا دور میڈیا نے احتجاج میں موجود شہدا کے کچھ خاندانوں سے بات کی ہے۔

شہید روزی خان کے بیٹے انور علی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ وہ ایک قیامت تھی جو ہم پر گزری کیونکہ افطاری کے فورا بعد اطلاع ملی کہ ان کے والد صاحب خودکش حملے میں شہید ہوچکے ہیں۔ ان کے بیٹے انور علی نے کہا کہ سترہ خاندانوں پر قیامت ٹوٹی اور ہم وہ لمحے کبھی نہیں بھول سکتے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سال 2009 میں میرے والد صاحب دیگر دوستوں کے ہمراہ شہید ہوگئے مگر چھ سال تک ہم معاوضے کے لئے خوار ہوتے رہےاور حکومت نے شہادت کے بعد ایک لاکھ روپے ہمارے ہاتھ میں پکڑا دئیے اور ہمارے شہدا کے سر کی قیمت ایک لاکھ روپے لگائی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں چھ سال بعد پچیس لاکھ روپے حکومت کی جانب سے ملے مگر شہدا پیکیج سے 35 لاکھ روپے نہ صرف کم ملے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نہ ہمیں فورس میں نوکریاں دی گئی اور نہ ہی تنخواہیں دی گئی جو قانونا ریٹائرمنٹ تک جاری رہتی ہیں۔

ان مظاہرین  میں خود کش حملے میں مارے گئے ساجد علی اور عالم خان کا خاندان بھی شامل تھا ۔ ان کے لواحقین نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور جس بے دردی سے ان کے لواحقین کو مارا گیا ۔ حکومت نے شہدا پیکج کے لئے ان کے خاندان کو جس طرح در بدر کیا گیا وہ ایک درناک کہانئ ہے مگر ملک کے لئے اتنی بڑی قربانی دیکر بھی ان کے ساتھ سوتیلوں سا سلوک کیا جارہاہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا چلا کہ ہمارے لواحقین مرنے کے بعد کیسے تھے کیونکہ ہمیں تو صرف گوشت کے ٹکڑے ملے اپنے لواحقین کے لاش نہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔