حال ہی میں چیف جسٹس کا حلف اٹھانے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آتے ہی ملک کے عدالتی اور سیاسی نظام میں تھرتھلی مچا دی ہے۔ قریب 5 سال قبل لکھے اپنے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیلوں کو بھی سماعت کے لئے منظور کر لیا ہے۔
اس سلسلے میں مطیع اللہ جان نے سینیئر صحافی اور پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کا انٹرویو کر کے اس فیصلے میں پیمرا سے متعلق حصے پر سوالات کیے ہیں۔ ابصار عالم نے ان سوالوں کے ایسے دھانسو جوابات دیے ہیں کہ سننے والے بھی دنگ رہ جائیں۔
بطور پیمرا سربراہ انہوں نے ISI کی جانب سے کس قسم کے دباؤ کا سامنا کیا، اس پر بات کرتے ہوئے ابصار عالم نے کہا کہ میرا ISI اور ISPR کے ساتھ سب سے زیادہ جھگڑا جیو اور ڈان کے مسئلے پر ہو رہا تھا۔ حاضر سروس میجر اور کرنل براہ راست جا کر کیبل آپریٹرز کو ہدایات دیتے تھے۔ کنٹونمنٹس اور ڈی ایچ اے میں ڈان اور جیو کی نشریات بند کر دی گئی تھیں۔ جنگ اور ڈان اخبارات کی ڈلیوری بھی بند کر دی گئی تھی لیکن بطور ادارہ وہ پیمرا کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔
ابصار عالم نے کہا کہ میں ان کو اس وقت بھی کہتا تھا کہ آپ ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ میں، اپنی چھاؤنیوں میں صرف دو چینل ARY اور بول دکھاتے ہیں۔ تمام فوجی میسز میں صرف یہ دو چینل چلتے تھے۔ میں نے کہا آپ اپنے لوگوں کے ذہن خود زہر سے بھر رہے ہیں اور یہ ایک دن آپ کے خلاف نکلے گا۔ آپ سب کو سارے ٹی وی چینل دیکھنے دیں۔ خیالات میں، تجزیات میں تنوع بہتر ہوتا ہے، اس سے انتہا پسندی جنم نہیں لیتی۔
بجائے اس کے، انہوں نے ڈان اور جیو بند کر دیے۔ پھر کیبل آپریٹرز کے پاس جا کر کہتے تھے ان کی پوزیشن تبدیل کر دیں تاکہ عام سویلین علاقوں میں بھی جو ٹی وی چینل چلتے ہیں، وہ بھی یہ نہ دیکھیں۔ یہ جھگڑا مسلسل چلتا رہا۔
ابصار عالم نے کہا کہ میں یہ تمام مسائل پیمرا اتھارٹی کے پاس لے کر گیا اور ہم نے اس پر ایکشن لیا۔ یہ بھی سپریم کورٹ کے معزز بنچ کو دیکھنا چاہئیے تھا کہ ہم نے اس پر فیصلے کیے۔ ہم نے کیبل آپریٹرز کے خلاف ایکشن لیا اور ڈان اور جیو کو بحال کیا۔ مجھے لاہور ہائی کورٹ سے روزانہ کی بنیاد پر کیس چلا کر جو پیمرا چیئرمین کے عہدے سے ہٹایا گیا، اس کا براہِ راست تعلق فیض آباد دھرنا کیس سے ہے۔ مطیع اللہ جان کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ جج کا نام شاید شاہد کریم تھا۔
ان کے مطابق وجہ صرف یہ تھی کہ جب تک وہ پیمرا چیئرمین رہے، انہوں نے سویلین علاقوں میں جیو اور ڈان کے نمبرز میں تبدیلی نہیں کرنے دی۔ ابصار عالم نے کہا کہ میں نے خود جا کر کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں آپریشنز کیے۔ فیض حمید کے ماتحت افسران پیمرا ملازمین کو دھمکیاں دیتے تھے کہ ہم تمہاری ٹانگیں توڑ دیں گے، اگر تم نے کیبل آپریٹرز سے ٹی وی چینل بحال کروائے۔ کیبل والوں کے دفتروں میں جا کر بیٹھ جاتے تھے کہ ابھی اس کو بدلو۔ ہم نے دوسری طرف کہہ دیا تھا کہ جس کیبل آپریٹر نے قانون پر عمل نہ کیا، ہم اس کا لائسنس منسوخ کر دیں گے۔
جب تک میں رہا، جیو اور ڈان کے نمبر یہ تبدیل نہیں کر سکے۔ جس دن میں ہٹا، اس کے بعد 15 دن کے اندر انہوں نے تمام سویلین علاقوں میں دونوں چینل بند کر دیے۔
اسٹیبشلمنٹ نے اس کے بعد ڈان اور جیو سے معاہدہ کروایا کہ ہماری دی ہوئی لائن پر چلیں تو ہی یہ چینل کھلیں گے۔ ان کی پالیسی آزاد تھی، اس لئے ان کو کیبل آپریٹرز نے دکھانا بند کر دیا تھا۔ پھر جب یہ کھلے ہیں، پرانے نمبرز پر واپس آئے ہیں تو ان کی وہی بولی تھی جو ان کو جنرل باجوہ، فیض اور آصف غفور نے دی ہوتی تھی۔ ابصار عالم نے کہا کہ میں آج بھی یہاں موجود ہوں، اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو مجھ پر ہتک عزت کا دعویٰ کر دیں۔
ابصار عالم نے کہا کہ فیصلہ تو ایک سال بعد آیا تھا، میں تو اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب شاہد خاقان عباسی صاحب وزیر اعظم تھے اور یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔ اس وقت سارا کنٹرول فیض، آصف غفور اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس تھا۔
اس موقع پر مطیع اللہ جان نے سوال کیا کہ آج کل تو شاہد خاقان عباسی صاحب سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے گلہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے وہ سب کچھ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہئیے تھے لیکن جب خود وزیر اعظم تھے تو یہ حالات تھے۔
ابصار عالم نے جواب دیا کہ میرا ایک تجزیہ ہے۔ جب نواز شریف کو 2017 میں نکالا گیا، تب سے لے کر آج تک 6 سال 3 مہینے ہو گئے ہیں، یہ ہائبرڈ نظام چل رہا ہے۔ سب سے پہلے شاہد خاقان عباسی ہائبرڈ نظام کا حصہ تھے، یہ سچ ہے اور کہنا چاہئیے۔ اس کے بعد عمران خان ہائبرڈ نظام کا حصہ بنے۔ عمران خان نے بھی کمپرومائز کیا اور شاہد خاقان عباسی نے بھی۔ شہباز شریف بھی ہائبرڈ نظام کا حصہ تھے۔ انہوں نے بھی وہی سب کچھ کیا۔ یہ سب حقائق ہیں اور اس پر کسی کو فخر کرنے کی ضرورت نہیں۔
یہاں ابصار عالم نے اپنے پیمرا چیئرمین دور کا ایک واقعہ بھی سنایا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے ایک اجلاس میں مجھے بلایا اور پوچھا کہ آپ کے کام کرنے یا بہتر کام کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ میں نے یک لفظی جواب دیا؛ ISI۔ اس کے بعد ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ بالکل خاموش ہو گئے۔ اس وقت کے وزیر اعظم ایک لفظ نہیں بولے، جس کا مجھے افسوس ہے۔ میں نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں بار بار کہا کہ آپ اس بات کو منٹس آف دی میٹنگ میں لکھیں، ریکارڈ کا حصہ بنائیں، نیشنل سکیورٹی کونسل میں جا کر اس معاملے کو اٹھائیں کہ ریاست کا ایک ادارہ دوسرے ادارے کو کام کیوں نہیں کرنے دے رہا۔ مگر پھر ان لوگوں نے جو ٹی وی چینل اپنے علاقوں میں دکھائے، اسی کی سزا بھی بھگتی۔
ابصار عالم نے بتایا کہ اس دور میں کنٹونمنٹ اور ڈی ایچ اے میں پیمرا کے ملازمین کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ نو گو ایریاز تھے۔ اس معاملے کو بار بار ISI سربراہ اور آرمی چیف کے ساتھ اٹھایا گیا، وزیر اعظم کے ساتھ بھی، ISPR کے ساتھ بھی، لیکن کچھ نہیں ہوا۔
جب جنرل باجوہ شاہد خاقان عباسی کو پہلی بار آزاد کشمیر لائن آف کنٹرول کے دورے پر لے کر گئے تھے تو اسی رات کو مجھے آصف غفور صاحب کی کال آئی کہ آئندہ پیمرا ملازمین کو ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹس میں جانے کی اجازت ہو گی۔ یہ تو حالات تھے۔
ابصار عالم نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ان چیزوں کو اپنے فیصلے میں زیرِ غور رکھنا چاہئیے تھا۔ 2017 تک پیمرا اپنا کام کر رہا تھا، اس کے بعد حالات مختلف تھے، اس پر انہوں نے جو کہنا ہے ان کی مرضی ہے۔